Columnمحمد مبشر انوار

منصوبہ بندی

محمد مبشر انوار(ریاض)
ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا میں نت نئی ایجادات نے زندگی آسان بنا دی ہے اور روزمرہ زندگی اس وقت جتنی سہل ہے اس سے قبل اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا تو دوسری طرف مستقبل میں کیا کیا کچھ ممکن ہے، اس کے متعلق فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔ تاہم یہ تما م تر ایجادات بنی نوع انسان کو آج مغرب کی طرف سے مل رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کو بہرطور کسی نہ کسی حد تک اپنی آزادی بھی گنوانا پڑ رہی ہے۔ دنیا بھر میں زیر استعمال جدید سائنسی اشیاء بہر طور کسی نہ کسی حوالے سے انسانی معلومات کو کہیں ذخیرہ کر رہی ہیں اور ان معلومات کی بنیاد پر چند اداروں کی اجارہ داری نظر آ رہی ہے اور وہ جیسے اور جہاں چاہیں ان معلومات کا استعمال آزادانہ کر سکتے ہیں۔ یوں یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ بظاہر آزادی کی زندگی گزارنے والے انسان کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے ایک کٹھ پتلی کی سی زندگی گزار رہے ہیں، ان کی طنابیں غیر محسوس انداز میں چند اداروں کے ہاتھوں میں ہیں، حتی کہ ذاتی زندگی بھی محفوظ نہیں رہی۔ ذاتی پسند و نا پسند کے حوالے سے بھی معلومات اداروں کے پاس محفوظ ہیں اور موجودہ انٹرنیٹ کی دنیا میں، ایک انسان کی تمام تر معمولات کو کہیں محفوظ کیا جا رہا ہے اور جو کچھ انسان انٹرنیٹ پر دیکھتا، سنتا ہے، انٹرنیٹ سے اسے وہی مواد میسر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلا ایک شخص انٹرنیٹ پر کسی مخصوص گلوکار کے گانے سنتا ہے، تو انٹرنیٹ ( گوگل) اس کی سرفنگ پر اسی گلوکار سے
متعلق گانے ازخود اسے دکھانا شروع کر دیتا ہے، یوں کسی بھی شخص کی دلچسپی کی چیزیں اسے انٹرنیٹ پر میسر ہوتی ہیں تو دوسری طرف اس شخص کا مزاج گوگل پر محفوظ ہو جاتا ہے۔ اب یہ گوگل یا کسی بھی دوسرے سرچنگ انجن پر منحصر ہے کہ اس معلومات کو کس طرح اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے بالعموم عام زندگی میں ایسی معلومات سے گوگل یا کسی بھی دوسرے سرچنگ انجن کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ یہ ان کے لئے اتنا اہم ہی نہیں کہ اس کے متعلق تفصیلات میں جائیں تاہم دنیا بھر کی آبادی کا ڈیٹا بہرطور ان کے پاس محفوظ ہو جاتا ہے۔ البتہ ان سرچنگ انجن میں مخصوص افراد کے متعلق ضرور ایسی سیٹنگ کی جاتی ہے، ان کے متعلق خصوصی ہدایات ہوتی ہیں کہ ایسے مخصوص افراد سے متعلق معلومات کو خصوصی طور پر محفوظ کیا جاتا ہے اور ان سے متعلق معلومات خصوصی طور پر اکٹھی کی جاتی ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس خصوصی تکلف کی ضرورت کیونکر پیش آتی ہے؟ دنیا پر حکومت کی فطری خواہش طاقتوروں کے دماغوں میں شروع سے ہی کلبلاتی رہی ہے اور ہر دور میں، خواہ زمانہ قدیم ہو کہ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما رہا ہو یا آج کی مہذب دنیا جہاں بنیادی انسانی حقوق کا شور و غوغا تو موجود ہے لیکن پس پردہ آج بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ہی کارفرما نظر آ رہا ہے۔ اس کی واضح اور شرمناک مثال، فلسطین میں مسلمانوں کا ناحق بہتا ہوا خون ہے اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبرداروں کی وہ ڈھٹائی ہے کہ تقریبا ایک سال گزرنے کے باوجود،41ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کی شہادت اور ایک لاکھ سے زائد زخمیوں کے باوجود، جنگ بندی کرانے میں بری طرح ناکام ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس جنگ کو دانستہ طول دیا جا رہا ہے تا کہ فلسطینیوں کی حمایت میں نکلنے والی مسلم طاقت کا اندازہ بخوبی کیا جا سکے یا مسلم حکمرانوں کے پس پشت دیگر دو بڑی طاقتوں کا جائزہ لیا جا سکے کہ کس حد تک مسلمانوں کی حمایت میں بڑھ سکتی ہیں اور کیا اسرائیل کے لئے کوئی مسائل کھڑے کر سکتی ہیں؟تاہم اس وقت تک اسرائیل کے مقابل فلسطین کے اندر سے صرف حماس، اپنی محدود سی اہلیت کے ساتھ بروئے کار دکھائی دے رہی ہی، ایران کی حمایت سے لبنان کی جانب سے حزب اللہ کسی حد تک اسرائیل کے ساتھ برسر پیکار ہے، اسی طرح یمن کے حوثی اسرائیل کے سامنے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں، جن کا زیادہ تر زور بحیرہ احمر کی گزرگاہ میں بحری بیڑوں پر حملے تک ہے، البتہ انہوں نے اسرائیل پر میزائل بھی داغے ہیں، جن سے اسرائیل کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ اسی طرح اسرائیل کی بھرپور کوشش یہ رہی ہے کہ کسی طرح ایران کو انگیخت کرکے اسے براہ راست میدان جنگ میں اتارے تا کہ جنگ پھیل سکے اور اسرائیل کے مغربی حمایتی اس جنگ میں براہ راست مسلمانوں کے خلاف اتر سکیں۔ اگر ایسی صورتحال ہو جاتی ہے تو کیا روس و چین، جن پر اس وقت مسلم دنیا تکیہ کئے بیٹھی ہے، کیا وہ بھی اس جنگ میں برا ہ راست شریک ہوں گے یا پس پردہ سفارت کاری پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے؟ گو کہ پس پردہ سفارت کاری کے نتائج تاحال جنگ بندی کی صورت میں سامنے تو نہیں آ سکے تب سفارت کاری موثر ثابت ہو سکے گی یا وہ بھی فلسطینیوں کا قتل ناحق دیکھتے رہیں گے؟ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ عالمی قوتیں براہ راست میدان جنگ میں آمنے سامنے اترنے سے گریز کریں گی یا چین و روس کو دیگر محاذوں پر مصروف رکھ کر مشرق وسطیٰ کا میدان گرما کر، من پسند نتائج حاصل کئے جائیں گے۔
مغرب کا یہ قول کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے جبکہ اسلامی اصول اس سے قطعی مختلف ہیں اور اسلام میں جنگ کے لئے بھی اصول و ضوابط طے شدہ ہیں گو کہ دور جدید میں ان اصولوں کا اطلاق
کماحقہ ممکن نہیں رہا تاہم اس کے باوجود مسلم افواج جہاں بھی بر سرپیکار ہوں، بنیادی اسلامی جنگی اصولوں پر کاربند دکھائی دیتی ہیں۔ مغرب نے گو کہ جنگی اصول طے کر رکھے ہیں لیکن ان پر سو فیصد عمل درآمد کرنے میں تامل سے کام لیتے ہیں اور بالعموم ان کی جانب سے جنگی اصولوں سے انحراف کے واقعات دیکھنے کو ملتے رہتی ہیں، جس پر خال ہی کبھی جنگی جرائم کے مقدمات میں سزا کا سنا ہو، بعینہ ایسی ہی صورتحال اس وقت بھی اسرائیل میں نظر آ رہی ہے، نیتن یاہو کو عالمی عدالت کی طرف سے جنگی مجرم بھی قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور نہ ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دور جدید میں جنگوں کا طریقہ کار چونکہ بدل چکا ہے اور جنگ لڑنے کے لئے سب سے اہم ترین، دشمن کی حکمت عملی و لائحہ عمل و نقل و حرکت کی معلومات ہی تصور ہوتی ہیں کہ جن کی بنیاد پر دشمن کے خلاف موثر کارروائی کی جا سکے۔ اس ضمن میں ماضی کے برعکس، ٹیکنالوجی کا استعمال ہی ایسی چیز ہے جو پلک جھپکتے دشمن سے متعلق معلومات فراہم کر سکتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن سے متعلق لمحہ بہ لمحہ حقائق میسر ہوں بعینہ جیسے اسماعیل ہنیہ سے متعلق معلومات دشمنوں کو میسر تھی اور ان کی بنیاد پر انتہائی زود اثر لیکن محدود پیمانے پر دھماکہ خیز مواد سے ان کو شہید کیا گیا تھا۔ مسلم دشمنوں کی جانب سے یہ اکلوتی کارروائی نہیں تھی اور نہ ہی آخری کارروائی تھی لیکن صد افسوس کہ مسلم ٹیکنالوجی کے اس دور میں دہائیوں پیچھے دکھائی دے رہے ہیں اور کسی بھی طرح اس جنگ میں مساویانہ بروئے کار آتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اس صورتحال میں دشمن کے لئے اپنی چالیں چلنا انتہائی آسان بلکہ موثر دکھائی دے رہا ہے، افسوس تو اس امر کا ہے کہ مسلم دنیا کی اکثریت اپنے دفاعی معالات میں انہیں طاقتوں کی مرہون منت ہے ،جو جب اور جہاں چاہیں اپنی ٹیکنالوجی کو بعد از فروخت بھی، اپنے حلیفوں بالخصوص اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کے خلاف، منجمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہذا عرب دنیا میں موجود امریکی اسلحہ کے انبار اس وقت صفر ہو جاتے ہیں کہ اولا تو بوقت خرید ہی اس اسلحہ کا استعمال اسرائیل کے خلاف بین ہوتا ہے دوسرا امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کا کنٹرول بہرطور اس اسلحہ پر ہوتا ہے، جسے وہ اپنی منشا کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے، اب یہ امر ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ آیا استعمال ہونے والی چیز انٹر نیٹ سے وابستہ ہے یا نہیں ہے، کوئی بھی الیکٹرانک چیز، بہرحال مینوفیکچرر یا اس کے پیچھے موجود استحصالی ٹولے کے کنٹرول میں دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت لبنان میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں لبنان میں الیکٹرانک ڈیوائس پیجر، جس کا استعمال کسی بھی طرح انٹر نیٹ سے نہیں تھا، اچانک دھماکوں سے پھٹنا شروع ہو گئے۔ ان پیجرز کا زیادہ تر استعمال حزب اللہ مجاہدین، اپنی معلومات، نقل و حرکت اور لائحہ عمل کو محفوظ بنانے کی خاطر، انٹرنیٹ ڈیوائسز کے متبادل کے طور پر کر رہے تھے، لیکن دو سال قبل آرڈر کئے جانے والے ان پیجرز پر دشمنوں کا کنٹرول پہلے دن سے ہی موجود تھا کہ ان کو بنانے والی کمپنی کے متعلق شواہد اسے اسرائیلی کمپنی ہی ظاہر کر رہے ہیں، اور بوقت ضرورت ان پیجرز میں موجود دھماکہ خیز مواد کو پھوڑ کر دکھ دیا گیا ہے۔ اسرائیل کہیں یا مسلم دشمنوں کی منصوبہ بندی کہیں، لبنان میں پیجرز دھماکوں کے بعد واضح ہے کہ وہ اس جنگ میں کس طرح بروئے کار آر ہے ہیں کہ فلسطین میں جارحیت/نسل کشی کئے ایک سال بمشکل ہوا ہے لیکن دو سال قبل حزب اللہ کی جانب سے دئیے گئے پیجرز کے آرڈر کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے اس میں دھماکہ خیز مواد رکھوانا اور اس کا استعمال کرنا، دور اندیشی ہے یا منصوبہ بندی؟ اسی منطق کو اگر انٹرنیٹ سے چلنے والی ڈیوائسز پر اپلائی کریں تو یوں سمجھ لیں کہ موبائل فون استعمال کرنے والا ہر شخص، ایک دھماکہ خیز مواد اپنے ہاتھ میں لئے پھر رہا ہے، مطلب جب دشمن چاہیں، اپنی پیش بندی/منصوبہ بندی سے ہمیں راستے سے ہٹا سکتے ہیں یا اپاہج کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button