کس سے منصفی چاہیں

امتیاز عاصی
اسلامی ریاست پاکستان جن مشکلات میں گھیری ہے اس سے قبل ملک میں ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے۔ سیاسی جماعتوں نے اقتدار کو گھر کی لونڈی سمجھ کر آئینی اداروں پر قابض ہونے کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ ملک کے مسائل جوں کے توں ہیں اور سیاست دان اقتدا رکی خاطر باہم دست و گریباں ہیں۔ آئینی ترامیم میں سبکی کے بعد حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کی ہے۔ جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا ہے۔ آخر حکومت کو اس مقصد کے لئے آرڈننس لانے کی ضرور ت کیوں پیش آئی۔ نئے ایکٹ کے نفاذ کے بعد مرضی کے بینچ بنانے میں آسانی ہو گئی ہے اور مرضی کے فیصلوں کے لئے مزید آسانیاں ہو جائیں گی۔ مشرف دور میں وکلاء برادری بڑی متحرک تھی اور پرویز مشرف کے اقدامات کے خلاف تحریک چلائی گئی جس کے بعد جنرل مشرف کو ججز کو رہا کرنا پڑ ا۔ آئین میں ترامیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم وکلا کو دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اگرچہ حامد خان گروپ نے آئینی ترامیم کے خلاف کل پاکستان وکلا ء کنونشن کا انعقاد کرکے حکومت کو یہ پیغام دیا ہے وکلا ء برادری کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی۔ افسوناک پہلو یہ ہے آئین کا حلیہ بگاڑنے کے خلاف وکلا برادری میں وہ جوش و خروش دکھائی نہیں دے رہا ہے جس کا مظاہرہ وکلا نے مشرف دور میں کیا تھا۔ افسوس اس بات کا ہے عوام اور وکلاء آئینی اداروں کی حفاظت کے لئے متحد نہیں ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے وکلا برادری نے آمریت کے دور میں آئین اور اعلیٰ عدلیہ کی بالادستی کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کی آج کے دور میں وکلا ء برادری آپس میں منقسم ہے حالانکہ سپریم کورٹ جیسے اعلیٰ ادارے کی حفاظت وکلاء سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں آئینی عدالتوں کے قیام کے لئے عرصہ دراز سے متفق چلے آرہے تھے ۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں نے اپنے گزشتہ ادوار میں آئینی عدالتوں کے قیام کے لئے پیش رفت نہیں کی اب اچانک انہیں آئین پاکستان جسے متفقہ طور پر تمام سیاسی جماعتوں نے بنایا تھا کا
حلیہ بگاڑنے کا خیال آیا ہے؟ آئین میں ہر ادارے کا کردار بڑا واضح ہے۔ سپریم کورٹ ملک کے معروض وجود میں آنے سے اب تک تمام مقدمات کو سنتی آرہی ہے۔ عجیب تماشا ہے صرف ایک شخص کو اس کے حق سے محروم رکھنے کے لئے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ آخر کیوں؟ اعلیٰ عدلیہ سے من پسند فیصلوں کا حصول شریف خاندان کا پرانا وتیرہ ہے۔ مرحوم جسٹس قیوم والا واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں اقتدار میں رہ کر مسلم لیگ نون اعلیٰ عدلیہ پر اپنا دبائو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ باوجود اس کے وقتی طور پر حکومت کو آئینی ترامیم کے معاملے میں دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا ہے یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا ہے ۔ بھلا سوچنے کی بات ہے ججز کمیٹی مقدمات کو مختلف بینچوں میں لگاتی ہے اس میں کیا خرابی تھی یہ اختیار چیف جسٹس کو دے کر جسٹس منیب اختر کو بدل دیا گیا۔ ایک عدلیہ رہ گئی تھی جس میں عوام کو انصاف کی کچھ امید ہوتی ہے اسے متنازعہ بنا دیا جائے تو ملک کا بیڑا غرق ہونے کا احتمال ہے۔ آئینی اداروں کے ساتھ چھڑ چھاڑ کا کیا جواز ہے۔ حالات کی ستم ظرفی دیکھئے الیکشن کمیشن آف پاکستان گو آئینی ادارہ ہے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد سے لیت و لعل کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو آخر کسی کی آشیرباد تو حاصل ہے جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے احکامات پر عمل درآمد سے گریزاں ہے۔ تعجب ہے انتخابات ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں الیکشن ٹریبونل کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ حالات سے پتہ چلتا ہے حکومت کی مدت ختم ہونے تک الیکشن ٹریبونل کے قیام کا معاملہ اسی طرح لٹکا رہے گا۔ ہم ایسے ملک کی جمہوریت کے شہری ہیں جہاں ایک سیاسی جماعت کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے باوجودجلسہ کو ہر حال میں ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے حکومت کے یہ تمام اقدامات ریاست کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ عوام کو ان کی مرضی کے نمائندوں کو منتخب کرنے سے روکنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا لہذا ذمہ داروں کو عوام کی خواہشات کا احترام بہ رصورت کرنا ہوگا ورنہ ملک کے حالات سازگار نہیں رہیں گے۔ ایک ایسے وقت جب سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہوں اور ہم داخلی امن وامان خراب کرنے کے درپے ہوں گے تو دشمن اس کا پورا پورا فائدہ اٹھائے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم عوامی مفاد عامہ کے تحت لائی گئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 184 (3)کے تحت کوئی کیس آئے گا تو اس کا جائزہ لیا جائے گا اس میں ایسی کون سی بات ہے جو عوامی نوعیت کے زمرے میں آتی ہے۔ ترمیمی آرڈننس میں پہلے آنے والے کیسز کو پہلے سنا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل184(3)کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔ سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر آنے والے جسٹس منیب اختر کی جگہ سینیارٹی میں پانچویں نمبر پر آنے والے جسٹس امین الدین کو کمیٹی کا رکن نامزد گیا گیا ہے۔ ایک سنیئر جج کی جگہ پانچویں نمبر پر آنے والے جج کو کمیٹی کا رکن نامزد کرنے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے؟ ہمیں کسی جج کی راست بازی پر شبہ نہیں البتہ ایک سنیئر جج کو ہٹا کر سینیارٹی میں پانچویں نمبر پر جج کو کمیٹی کا رکن نامزد کرنے سے ذہین میں سوالات اٹھتے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب اعلیٰ عدلیہ پر سیاسی مقدمات کی بھرمار ہو جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے، کمیٹی کے ایک سنیئر رکن کی جگہ پانچویں نمبر پر آنے والے جج صاحب کو شامل کرنے سے شکوک و شبہات پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ با اعتماد ذرائع کے مطابق چیف جسٹس بعض آئینی اپیلوں کی سماعت جلد چاہتے تھے لیکن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر ان اپیلوں کی جلد سماعت کے حق میں نہیں تھے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم سے عام لوگوں کو کیا فائدہ ہو گا اور عوام اپنی اپیلوں کی سماعت کے لئے کس سے منصفی چاہیں گے؟۔





