اعلیٰ انسانی اوصاف

صفدر علی حیدری
آئیے! اعلیٰ انسانی اوصاف کی ایک فہرست مرتب کرتے ہیں ۔
شکر، صبر، شجاعت، غیرت، شرم و حیا، خوش گمانی، خوش خلقی، سچائی، اخلاص، امانت داری، انکسار، توکل، قناعت
فرض شناسی۔ اور بھی کچھ اوصاف اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں، پر سردست یہی کافی ہے۔ اس میں ایمان شامل نہیں۔ شاید اس لیے کہ اوپر درج خصوصات جس کے اندر زیادہ تعداد میں موجود ہوں گی وہ شخص اسی قدر ایمان کامل کا حامل ہو گا۔
شکر کو سر فہرست رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان شکر نہیں کرتا ، شکوہ کرتا ہے۔ کچھ ملے تو تذکرہ نہیں کرتا، کچھ نہ ملے تو واویلا کرنے سے نہیں رکتا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ رزق کی تنگی کا شکار ہیں ۔ رزق کی تنگی کم ہے اور ان کی پریشانی اس سے کہیں زیادہ ۔ مسابقت کے اس دور نے اس سے قناعت کی دولت ہتھیا لی ہے۔ حالاں کہ کتاب الٰہی میں واضح طور پر لکھا ہے ’’ تم شکر کرو گے تو میں نعمتیں بڑھا دوں گا ‘‘۔ کیا اس واضح فرمان کے بعد بھی کسی وظیفے کی ضرورت ہے ؟۔ شیخ سعدی نے بجا فرمایا ہے کہ دانت نعمتیں کھا کھا کے گھس گئے ، مگر زبان کو شکر کرنا نہیں آتا۔ اس نے شکر کا کلمہ پڑھنا نہیں سیکھا۔
صبر کی تین قسمیں ہیں، اطاعت الٰہی پر صبر، معصیت نہ کرنے پر صبر، رنج و مصائب پر صبر۔ کبھی لکھا تھا ’’ ہر چیز کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے سوائے صبر کے ‘‘۔ شکر اگر داہنا ہاتھ ہے تو صبر بایاں ۔ ایمان صبر اور شکر کے حسین امتزاج کا نام ہے ۔ ایک بار مولا علیؓ نے دیکھا ایک شخص دعا مانگ رہا تھا کہ اے اللہ مجھے صبر کی توفیق دے ۔ آپؓ نے اسے ایسی دعا سے منع کیا اور فرمایا کہو اے اللہ مجھے شکر کی توفیق دے۔ صبر مصیبت کے بعد آتا ہے اور شکر نعمت کے بعد، اس سے پتہ چلا ہم کیسے لاعلم لوگ ہیں کہ ہمیں یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ ہم جو مانگ رہے ہیں وہ ہمارے حق میں بہتر بھی ہے یا نہیں۔
شجاعت مردانگی کی معراج ہے۔ یہ بہادری سے بہت مختلف چیز ہے۔ حدیث میں ملتا کہ’’ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے‘‘۔ گویا ضبط نفس بڑی چیز ہے۔ مولا علیؓ کی سیرت سے شجاعت کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔ آپؓ نے اس شخص کو چھوڑ دیا جس نے آپؓ کے منہ پر گستاخی کی تھی یا خود کو عریاں کر لیا تھا۔ ایک واقعہ اور بھی ملتا ہے کہ آپؓ کا دشمن نہتا ہو گیا تو آپؓ نے ہاتھ روک لیا اور پھر اس کی فرمائش پر اپنی تلوار اس کی طرف پھینک دی۔ آپؓ نے کبھی کسی دشمن کا پیچھا نہیں کیا ، اگر وہ جان بچا کر بھاگ رہا ہو۔
غیرت ایک بنیادی انسانی وصف ہے جس کے بارے اقبالؒ نے کہا تھا
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہنائی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
آپ نے فرمایا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں خاک کا ڈھیر ہے
طرابلس کی فاطمہ کی اس نے اس لیے تحسین کی تھی کہ اس اندر غیرت ایمانی ہے۔ آج غیرت کے نہ ہونے کے سبب مسلمان ہر جگہ ذلیل س خوار۔ فلسطین کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ غیرت انفرادی معاملے میں ہو اجتماعی مستحسن ہے ۔
شرم و حیائ: حدیث میں ملتا ہے کہ’’ اگر تم میں شرم و حیا نہ ہو تو جو چاہو سو کرو‘‘۔ گویا بے شرم اور بے حیا آدمی امت محمدیہ کا فرد نہیں ہو سکتا، خواہ وہ زبان سے کتنا ہی دعوے کرتے رہے۔ شرم و حیا گناہوں سے روکنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔
خوش گمانی: حسن ظن رکھنا اور سوئے ظن سے بچنا بھی ایک کمال ہے۔ خوش گمانی کے مقابلے میں بدگمانی کو ترجیح دینا معیوب عمل ہے۔ احادیث میں ایسا کرنے کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ بدگمانی کے بارے قرار دیا گیا ہے کہ یہ گناہ ہے ۔ اپنے ایمانی بھائی کے لیے بدگمانی رکھنا گویا اس کے لیے دل میں کینہ پالنے جیسا ہے۔ خوش گمانی ایک مفید چیز ہے جس کا کوئی منفی نتیجہ نہیں نکلتا ۔ ( اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صاحبان اقتدار کی بری حرکتوں سے بارے حسن ظن رکھا جائے )۔
خوش خلقی: کسی انسان کا بہترین تعارف یہ ہے کہ وہ خوش اخلاق ہو ۔ لوگ اس کی زبان سے محفوظ رہیں ۔ اس کی زبان کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ جوڑنے والی ہو توڑنے والی نہیں۔ جناب امیر کا فرمان ہے کہ انسان واحد مخلوق ہے جس کا زہر اس کے لفظوں میں ہے۔ انسان اس بھیڑیے کو قابو میں نہ رکھے گا تو یہ خود اس کو کھا جائے گا ۔ یہ ایسی دو دھاری تلوار ہے جو صرف مدمقابل کو نہیں چیرتی، اس کو بھی کاٹ ڈالتی ہے جس کے پاس ہوتی ہے۔ اگر اس پر کنٹرول جاتا رہے تو پھر جسموں کو ملبوس اٹھانے پڑتے ہیں، لفظوں کو تحریریں سہنی پڑتی ہیں
سچائی ایک مومن کا بنیادی اور لازمی وصف ہے، ایک مسلمان اور کافر کے درمیان حد فاصل اگر نماز ہے تو ایک مومن اور منافق کے درمیان حد فاصل کا نام سچائی ہے۔ حدیث مبارکہ کی رو سے ایک مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا اور نہ دھوکے باز۔
اخلاص کا تعلق نیت پر جس پر اعمال کا دارومدار ہے۔ نیت کا خالص لطف الٰہی ہے۔ کہتے ہیں علم کا سمندر ہو اس کے مقابلے میں عمل کا ایک قطرہ افضل۔ اور عمل کے سمندر کے آگے اخلاص کا ایک قطرہ افضل ہوتا ہے ۔
امانت داری: یہ بھی مومن کی میراث ہے۔ دشمن بھی ہمارے پیارے نبیؐ کے کردار کی دو خوبیوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ صادق اور امین کا لفظ ان کے بدترین مخالفین نے ہی تو انہیں دیا تھا۔ ہجرت کی رات جب وہ برے ارادے سے آپؐ کے گھر کا گھیرائو کیے ہوئے تھے تب بھی ان کی امانتیں آپ کی پاس رکھی ہوئی تھیں ۔ کہتے ہیں جب آپؐ معراج پر گئے تو آپؐ سے پوچھا گیا کہ میرے حبیبؐ میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو، تو آپؐ نے جواب دیا تھا عاجزی ، غرور رب کو سخت ناپسند ہے۔ غرور اسے زیبا ہے جو کسی کا محتاج نہ ہو۔ گویا متکبر ہونا ایک الٰہی وصف ہے اور خداوندِ متعال ہی کو زیبا ہے، کہتے ہیں ناں ’’ جھکے کو دھکا کینی ‘‘۔
توکل : سئیں جانباز جتوئی نے کیا خوب لکھا ہے
میڈے دل نے اللہ ہو کیتا
میں رکھ توکل دھو کیتا
گویا مومن بے خطر کود پڑتا ہے۔ توکل ایمان کی حسین ترین کیفیت کا نام ہے۔
قناعت مومن کا سرمایہ ہے۔ مومن کی جیب میں قناعت کی کرنسی ہو تو اسے کبھی پریشان نہیں ہونا پڑتا۔ لالچی آدمی میں قناعت کا وصف نہیں ہوتا سو اس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ شاید قبر کی مٹی سے بھی نہیں۔ جبھی تو اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو تب آنکھیں میں بھوک نمایاں ہوتی ہے۔ اسے ساری کائنات بھی دے دی جائے تو سیر نہ ہو گا۔
فرض شناسی انسان کو ایک ذمہ دار حساس اور کارآمد انسان بناتی ہے۔ اس کے دو درجے ہیں۔ ایک اپنے فرائض کو پہچاننا، دوسرے اس کو پوری ایمان داری سے ادا کرنے کی پوری کوشش کرنا۔ انسان کی قدر و قیمت اس کے اس ہنر کے سبب سے ہوتی ہے، جو اس میں پایا جاتا ہے، مگر اس میں فرض شناسی ایک لازمی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان بارہ اوصاف کے علاوہ بھی کئی اور اوصاف اس فہرست کا حصہ بن سکتے ہیں لیکن مجھے یہی کافی لگے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم محاسبہ کریں اور اپنا جائزہ لیں کہ ان میں سے کون کون سی صفات ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔ اب ظاہر ہے جس قدر یہ صفات ہم میں موجود ہوں گی اس قدر ہم میں ایمان زیادہ ہو گا۔
اب آخر میں محمد علی کلے کا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے، جس میں ایک خوب صورت پیغام بھی موجود ہے۔
محمد علی کلے ایک امریکی باکسر تھے جنہیں بلامبالغہ بیسویں صدی کے مقبول ترین لوگوں میں سے ایک شخص سمجھا جاتا ہے ۔ 1974ء میں جارج فورمین کے ساتھ ان کے باکسنگ میچ کو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی نے براہ راست دیکھا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ ان کی عوامی مقبولیت بے پناہ تھی ، مگر اس کے باوجود انہوں نے زندگی میں کبھی کسی کو آٹو گراف دینے سے انکار نہیں کیا ۔ اور اس کے لیے وہ گھنٹوں لوگوں کو آٹوگراف دیتے رہے تھے۔ ان کے اس رویے کا سبب یہ تھا کہ ان کے بچپن میں ان کے آئیڈیل نے آٹوگراف دینے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ انسان اگر اعلیٰ انسان ہو تو وہ محرومی ملنے کے باوجود دوسروں کو محروم نہیں کرتا۔ اعلیٰ انسان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو یاد رکھتا ہے۔ وہ کمزوری اگر دور کی جاسکتی ہے تو اسے دور کرتا ہے اور نہیں کی جاسکتی تو اس کے ساتھ کوئی ایسی خوبی جمع کرتا ہے جو اس کمزوری کو ڈھانپ لیتی ہے
محمد علی سیاہ فام امریکی تھے اور ان کے زمانے میں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ امریکی معاشرے میں بہت برا سلوک کیا جاتا تھا ۔ محمد علی کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کمزوری کو دور کریں ، چنانچہ انھوں نے اپنے فن اور اپنی سیرت میں ایسی غیر معمولی خوبیاں جمع کر لیں جن کی بنا پر وہ ساری زندگی نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کے مقبول ترین شخص رہے ۔
آج کے نوجوانوں کے لیے بھی درست راستہ یہ ہے کہ اپنی محرومیوں اور کمزوریوں کا بوجھ اٹھائے رکھنے کے بجائے خود میں خوبیاں جمع کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ دنیا بھر کے محبوب بنیں گے ۔
اپنی محرومیوں کا ماتم کرتے رہنا اور کمزوریوں کو اپنے وجود سے چمٹائے رکھنا ایک منفی رویہ ہے۔ اس رویے کو اختیار کرنے والوں کا انجام یہ ہے کہ نہ وہ دنیا میں لوگوں کے محبوب بن پاتے ہیں اور نہ آخرت میں خدا کے محبوب بن سکیں گے ۔ ( ابو یحییٰ )







