Column

پبلک سکولوں کو آئوٹ سورس کرنے کا معاملہ؟

محمد نور الھدی
کیا پنجاب کے 13ہزار سے زائد پبلک سکولوں کو پرائیوٹائز کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال اپنے تئیں اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ سکولوں کا پرائیوٹائز ہونا اور انہیں ری آرگنائز کرنا، دو الگ الگ باتیں ہیں۔ پرائیوٹائز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت تمام امور سے نجات حاصل کر کے مکمل طور پر انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دے۔ لیکن اصلاً صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہ سکول پرائیوٹائز نہیں کئے گئے بلکہ نجی شعبے کے اشتراک سے انہیں بہتر انداز میں چلانے کیلئے اقدام اٹھایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی واضح کیا ہے کہ یہ تمام سکول حکومت پنجاب کی ملکیت ہی رہیں گے۔ صرف ان کے آپریشنل انتظامات نجی افراد یا اداروں کو سونپے گئے ہیں۔ دوسری جانب حکومت ان افراد، اداروں کو مشروط فنڈز بھی مہیا کر رہی ہے تاکہ وہ بہتر انداز میں آٹ پٹ دے سکیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ انہیں انرولمنٹ کے ساتھ ساتھ سکولوں کی بہتری اور سہولیات سے آراستہ کرنے کا ٹارگٹ بھی دیا گیا ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ مذکورہ سکول وہ ہیں جو کم انرولمنٹ اور اساتذہ کی قلت کی وجہ سے پرفارمنس نہیں دے پا رہے تھے۔ جن علاقوں میں یہ سکولز قائم ہیں، وہاں آگاہی کے فقدان، تعلیم کی اہمیت سے ناآشنائی اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے حصولِ تعلیم کی جانب رجحان نہیں تھا۔ اسی لئے طلبہ کی تعداد بھی 50سے 100کے آس پاس تھی۔ موجودہ حکومت چونکہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں تعلیم کو بالخصوص ترجیح دے رہی ہے۔ اس ضمن میں آئوٹ آف سکول بچوں کی انرولمنٹ، سکالرشپ و لیپ ٹاپ سکیمیں، طالبعلموں کیلئے سکوٹیزاور ایسے ہی دیگر پراجیکٹس مریم نواز کی تعلیم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پبلک سکول ری آرگنائزیشن پروگرام بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک ایسا ہی پراجیکٹ ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے نجی سیکٹر کے اشتراک سے تقریباً 18لاکھ سے زائد تعلیم سے محروم بچوں کو سکولوں میں لایا جائے گا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کیلئے پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر 9113افراد، اداروں اور غیر سرکاری تنظیمات نے درخواستیں دیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے بذات خود تمام امور کی نگرانی کی۔ وزیر تعلیم نے تمام درخواست گزاروں کے انٹرویو خود کئے اور ان کی ساکھ اور بحیثیت انفرادی ان کی کارکردگی کی جانچ
پڑتال بھی کی۔ وزیر تعلیم کی نگرانی میں ہی شفاف میرٹ کی بنیاد پر سکروٹنی کی گئی اور تجربہ کار افراد اور اداروں کا انتخاب کیا گیا۔ اس ضمن میں کسی ایم این اے، ایم پی اے کی سفارش کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔
پہلے مرحلے میں 5863سکولوں کو آئوٹ سورس کیا گیا ہے۔ ان میں سے 567وہ سکول ہیں جہاں کوئی ٹیچر موجود نہیں تھا۔ 2555سنگل ٹیچر اور 2741ڈبل ٹیچر سکولز ہیں۔ جبکہ بچوں کی تعداد بھی 50سے زائد نہیں تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس اقدام کے ذریعے حکومت نے قومی خزانے کے 40بلین روپے بچائے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کا ویعن ہے کہ پنجاب کا کوئی بھی بچہ کسی بھی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہے۔ اسی لئے انہوں نے مذکورہ سکولوں میں 10 لاکھ بچوں کو انرول کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے۔ وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے بھی اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی نہ برتنے کی ہدایت کی اور عندیہ دیا ہے کہ معیار پر پورا نہ اترنے والے پارٹنر کا نہ صرف فنڈ کم کیا جائے گا بلکہ اس حوالے سے سخت اقدامات بھی بروئے کار لائے جائیں گے۔ جبکہ انرولمنٹ ڈبل کرنے پر ان سکولوں کی مینجمنٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس ضمن میں محکمہ سکولز نے نگرانی کا ایک جامع نظام مرتب کیا ہے۔
نجی سیکٹر کے اشتراک سے ان سکولوں میں فرنیچر اور دیگر سہولیات کا فقدان دور کرنے کے علاوہ معیار تعلیم کی بہتری میں بھی معاونت ملے گی۔ ایک اور خاص بات یہ کہ اس اشتراک میں پہلی مرتبہ ایڈ ٹیک فرمز اور انفرادی طور پر بھی تعلیم یافتہ افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایڈ ٹیک فرمز کی بدولت مذکورہ سکولوں میں طلبہ کو ٹیکنالوجی علم سکھانے میں معاونت حاصل ہوگی جبکہ انفرادی طور پر جن افراد کو سکولز الاٹ کئے گئے ہیں اس کی وجہ سے 70ہزار سے زائد نوجوانوں کو روزگار میسر آ رہا ہے۔
صوبے میں تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے بڑے اور مشکل فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ مریم نواز کی حکومت ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کی بجائے فیلڈ میں رہ کر اقدامات اٹھانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ بلاشبہ یہی ویژن ملکی ترقی کا بھی ضامن ہے۔ پاکستان معاشی طور پر جن حالات اور چیلنجز سے گزر رہا ہے، ایسے میں محکموں کو آئوٹ سورس کرنا اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہی مسائل کا حل ہے۔ مجھے یقین ہے ہم جلد وہ وقت بھی دیکھیں گے جب پاکستان مستحکم ہو کر دوبارہ سے اپنے پاں پر کھڑا ہوگا اور آئوٹ سورس کئے گئے تمام ادارے پھر سے حکومت کے زیر انتظام ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button