Column

مطالعہ

علیشبا بگٹی

امام غزالیؒ ان دنوں جس مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ بادشاہِ وقت بھیس بدل کر انکے مدرسہ میں پہنچ گیا۔ اس نے طلبہ سے دریافت کرنا شروع کر دیا کہ ’’ علم سے تمہارا کیا مقصود ہے؟‘‘، سب نے مختلف جواب دیئے۔ کسی نے منصب قضاء اور کسی نے منصب افتاء کیلئے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ جب بادشاہ نے امام غزالیؒ سے پوچھا۔ تو آپؒ نے سب سے پہلے بادشاہ کو اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا وجود اور وحدانیت دلیل و عقل سے ثابت کیا۔ انہوں نے یہ بات اس لئے کی کہ یہ شخص کہیں منکر نہ ہو۔ پھر بادشاہ کے سوال کا جواب دیا ’’ میں علم اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نامرضیات معلوم کروں اور مرضی الٰہی کے مطابق عمل کروں‘‘۔۔۔ بادشاہ ان کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس نے اپنا آپ ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’ میں بادشاہ ہوں اور میں نے اور لوگوں کے جوابات سے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج سے اس مدرسہ کو بند کردوں گا۔ اس لئے کہ کوئی بھی اللہ کے لئے علم حاصل کرنے والا نہیں ہے۔ روپیہ فضول ضائع ہو رہا ہے۔ مگر آپ جیسے طالب علم جب اس مدرسہ میں موجود ہیں۔ تو میری محنت وصول ہو گئی۔ اب آپ کی وجہ سے اس مدرسہ کو باقی رکھوں گا ‘‘۔
کہتے ہیں اگر آپ کے پاس دنیا گھومنے کے وسائل نہیں ہیں۔ تو آپ پر لازم ہے کہ آپ کتابیں پڑھیں۔ کتب بینی وہ امرت ہے جو ہمارے فارغ وقت کو امر کر دیتا ہے۔ کتب بینی کا شوق انسان کے شعور کو وسعت دیتا ہے۔ اسے نئی دنیائوں سے روشناس کراتا ہے۔ اور اس کے خیالات میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔ جب ہم کسی کتاب کے صفحات میں کھو جاتے ہیں۔ تو وقت گویا تھم سا جاتا ہے۔ اور ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ جہاں خیالات کے دیپ جلتے ہیں۔ عقل کی روشنی بکھرتی ہے اور دل کے گوشوں میں نئے افق کھلتے ہیں۔ کتابیں ہمیں ماضی کے گزرے ہوئے زمانوں کی کہانیاں سناتی ہیں۔ حال کے حالات کی تصویریں دکھاتی ہیں اور مستقبل کے خواب بناتی ہیں۔ ایک اچھی کتاب کا ساتھ ہمیں تنہائی میں بھی دوستوں کا احساس دیتا ہے۔ شاعر نے کہا کہ۔
کتابوں سے ہے دل بہلانے کا ساماں
ورنہ یہ تنہائی کہاں ہم کو گوارا تھی
اور کتابیں علم کا وہ خزانہ عطا کرتے ہیں۔ جو دنیا کی کوئی دوسری دولت نہیں دے سکتی۔ فارغ وقت کو کتب بینی میں صرف کرنا دراصل خود کو نئے تجربات اور خیالات سے مالا مال کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف انسان کے علم میں اضافہ کرتا ہے۔ بلکہ انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ اور انسان کی سوچ کو بلند کرتا ہے۔ اس لیے جب بھی فرصت کے لمحات میسر آئیں۔ تو انہیں ضائع نہ کریں۔ بلکہ ایک کتاب اٹھائیں اور اس کے سفر پر روانہ ہو جائیں۔ یقین جانیں یہ سفر انسان کی زندگی کو نئی معنویت اور خوشیوں سے بھر دے گا۔
کتابیں عملی طور پر کسی بھی موضوع پر علم کا ایک وسیع ذخیرہ پیش کرتی ہیں۔ تاریخ، سائنس، فلسفہ، شاعری، جو بھی موضوع ہو۔ باقاعدگی سے پڑھنا ذخیرہ الفاظ کی وسیع رینج سے روشناس کراتا ہے۔ بات چیت کی مہارت اور فہم کو بہتر بناتا ہے۔ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پڑھنے سے یادداشت اور علمی افعال کو تیز کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دماغ کو متحرک اور مصروف رکھا جا سکتا ہے۔ مطالعے سے روزمرہ کی پریشانیوں سے عارضی طور پر چھٹکارا ملتا ہے۔ خلفشار سے بھری آج کی تیز رفتار دنیا میں کچھ پڑھنے سے انسانی توجہ تھوڑی دیر کے لیے مسئلے مسائل سے ہٹ کر مطالعہ پر مرکوز کرنے کی صلاحیت کو تقویت دیتا ہے۔ مطالعہ نئے آئیڈیاز اور سوچ کے عمل سے آشنا کرتا ہے۔ ممکنہ طور پر تخلیقی صلاحیتوں اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔ خود کو نثر میں غرق کرنے سے تحریری انداز جملے کی ساخت اور مجموعی طور پر رابطہ و مواصلات کی وضاحت بہتر ہو سکتی ہے۔ سونے سے پہلے کتاب پڑھنے کی پرسکون فطرت آرام کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ بہتر نیند کے معیار کو فروغ دیتی ہے۔
ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’ جب آدمی 10کتابیں پڑھتا ہے، تو وہ 10ہزار میل کا سفر کر لیتا ہے‘‘۔ گورچ فوک کہتے ہیں۔۔ ’’ اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کر دیں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں۔ زندگی کو جاننے کی بھوک ‘‘۔۔ ائولس گیلیوس کہتے ہیں۔۔۔ ’’ کتابیں خاموش استاد ہیں ‘‘۔۔ فرانس کافکا نے کہا کہ’’ ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے ‘‘ ۔۔ گوئٹے نے کہا کہ ’’ بہت سے لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم ہے کہ مطالعہ سیکھنا کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہے۔ میں نے اپنے 80سال لگا دئیے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ میں صحیح سمت کی جانب ہوں‘‘۔۔ جین پائول نے کہا کہ’’ کتابیں ایک طویل ترین خط ہے جو ایک دوست کے نام لکھا گیا ہو‘‘۔۔ حکیم ابو نصر فارابی کہتے ہیں’’ تیل کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا‘‘۔۔ سمر سٹ ماہم کا کہنا ہے ’’ مطالعے کی عادت اختیار کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے گویا دنیا جہاں کے دکھوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرلی ہے‘‘۔۔ وائٹی نے کہا ’’ مطالعے کی بدولت ایک طرف تمہاری معلومات میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرف تمہاری شخصیت دلچسپ بن جائے گی‘‘۔۔ مطالعہ مسقبل کو سنوار دیتا ہے۔
پاکستان میں تو جوتے شو کیس میں دیکھے جاتے ہیں۔ اور کتابیں سڑک کنارے فٹ پاتھ پر زمین پر پڑی نظر آتی ہیں۔ جس معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا شوق نہ ہو وہ کبھی شعور حاصل نہیں کر سکتا۔ امر جلیل نے کہا یہ قوم دو ہزار کی کتاب نہیں خریدتی مگر دس ہزار روپے کا جوتا خرید لیتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قوم کو کتابوں کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔ جبکہ نیدر لینڈز میں ہر بچے کو بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور سکولوں میں عام دلچسپی کی کتابیں پڑھنا اور ان پہ بحث کرنا ایک معمول ہوتا ہے اسی لیے یہاں لوگ بچپن سے بڑھاپے تک کتابوں کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں نئی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ 18سال کی عمر تک لائبریری کی ممبر شپ فری ہوتی ہے۔ ہر گاں قصبے اور شہر میں لا تعداد لائبریریاں ہوتی ہیں۔۔
نواب اکبر خان بگٹی ایک کتاب دوست انسان اور مطالعہ کے شوقین تھے۔ اکثر ڈیرہ بگٹی میں کُھلی کچہری میں بھی کتابوں کا تذکرہ کرتے بلکہ روزانہ ایک دو بندے سے کتاب پڑھاتے سنتے اور تبصرے کرتے تھے۔
کامیابی کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ علم و حکمت کے سمندر میں سفر کرنے کے لئے مطالعے کی نائو لازمی ہے۔ مطالعے کے ذریعے دل و دماغ کے بند دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ شعور پختہ ہوتا ہے اور فکر کو وسعت ملتی ہے۔ اعلیٰ نظریات، تصورات، خیالات اور تخیلات، یہ سب مطالعے ہی کی دین ہیں۔ مطالعہ ہی انسان میں وسعت قلبی، رواداری اور روشن خیالی کو پروان چڑھاتا ہے۔ پڑھنے والا دوسروں کے تجربات سے مستفید ہوتا ہے اور بلند پایہ مصنفین کا ذہنی ہمسفر بن جاتا ہے۔ مطالعہ سے سمجھنے کی صلاحیت بہتر بنتا ہے۔ اگر آپ اپنے شعور کو وسیع اور گہرا کرنا چاہتے ہیں، تو کتابیں آپ کی بہترین رفیق بن سکتی ہیں۔ کتابیں انسان کو مختلف جہتوں میں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مختلف تجربات اور نظریات سے روشناس کراتی ہیں۔ اور دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ علم کے دروازے کتابوں کے ذریعے کھلتے ہیں۔ جہاں ہر صفحہ ایک نیا سبق ہر باب ایک نیا خیال اور ہر کتاب ایک نیا جہان ہوتا ہے۔ کتابوں سے دوستی نہ صرف ذہنی ترقی کا باعث بنتی ہے بلکہ انسان کو ایک نئی فکری دنیا سے بھی روشناس کراتی ہیں۔ کتابیں پڑھنا دراصل اپنے آپ کو بہتر جاننے اور دنیا کی گہرائیوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ کتابیں نہ صرف علم کا خزانہ ہوتی ہیں۔ بلکہ وہ زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب آپ فلسفے کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ تو آپ وجود اور شعور کے معانی پر غور کرتے ہیں۔ ادب کی کتابیں انسان کے جذبات اور رویوں کی گہرائی کو عیاں کرتی ہیں۔ اور تاریخ کی کتابیں آپ کو ماضی کے واقعات کی روشنی میں حال اور مستقبل کو سمجھنے کا موقع دیتی ہیں۔ انسانی شعور کا سفر کتابوں کے بغیر نامکمل ہی۔ ہر کتاب ایک نئے دروازے کی چابی ہے۔ جو آپ کو خود آگاہی دوسروں کے تجربات سے سیکھنے اور دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ شعر ہے کہ
وفا کے تذکرے بس رہ گئے کتابوں میں
ستم تو یہ کہ کتابوں کا دور بھی نہ رہا
بہترین قسم کی کتاب وہ کتاب ہے۔ جو آپ کو حیران کر دیتی ہے۔ کہ مصنف کو میرے بارے میں یہ سب کیسے معلوم ہوا۔ اور ہاں۔۔ ’’ صرف یہ مت کہیں کہ آپ نے کتابیں پڑھی ہیں، اپنے طرزِ عمل سے دکھائیں۔ کہ ان کے ذریعے آپ نے بہتر سوچنا بھی سیکھا ہے‘‘۔

جواب دیں

Back to top button