مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد صرف حکومت کو تحفظ دینا تھا: مولانا فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت کسی قسم کا مسودہ دینے کے لیے تیار نہیں ہو رہی تھی۔ حکومت بغیر تیاری کے ایوان سے توقع کررہی تھی کہ اس سے تعاون کیا جائے۔
انھوں نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’پارلیمنٹ بدقسمتی سے عوام کی کم اور طاقتور کی زیادہ خدمت کر رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’پارلیمانی کمیٹی میں اپنی تجویزبیان کیں، حکومت نے ایک کاپی پیپلزپارٹی کو اور ایک ہمیں دی ہے۔ حکومت سے کہا کہ ہمیں آئینی ترمیم کا مسودہ دکھائیں، مسودہ دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں فرق ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے نظریات، اصول اور قوم کی آواز کو تقویت دینے کی سیاست کی اور ہر ایسی تجویز کو مسترد کردیا جو مفاد عامہ کے خلاف تھی۔ مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد صرف حکومت کو تحفظ دینا تھا۔ حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی ان کا انحصار جے یو آئی اراکین پر تھا،‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا ’آئین میں وفاقی عدالتوں کا تصور ہے اور ہم نے یہ تجویز اس لیے دی ۔سپریم کورٹ میں عام لوگوں کے اس وقت 60 ہزار کیسز زیر التوا ہیں جبکہ پورے ملک کی عدالتوں میں اس وقت 24 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’بلاول بھٹو سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ وہ بھی تجاویز بنائیں ہم بھی مسودہ تیار کرتے ہیں، ہم چاہتے کہ اتفاق رائے پیدا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ متبادل تجاویز کے لیے کام شروع کردیا گیا ہے اور کچھ دنوں کے بعد اس کا مسودہ تیار کیا جائے گا، ہمارا آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق رائے موجود ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا بدقسمتی سے پارلیمان ایک ایسا کردار ادا کررہی ہے جس میں عوام کی خدمت کم اور طاقتوروں کی خدمت زیادہ ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکتی اور مہنگائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے عوام کے اندر ناراضگی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔







