راست باز سیاسی رہنمائوں کا فقدان

امتیاز عاصی
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقاء کی جدوجہد کے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آیا تو سیاسی رہنمائوں کی جو کھیپ ہمارے ہاں آئی ان کی راست بازی بے مثال تھی۔ اس دور کے سیاسی رہنمائوں کو لوگ آج بھی شاندار الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ مال و دولت کی ہوس نے سیاسی رہنمائوں کو ملک و عوام کی خدمت سے دور کر دیا۔ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمارا ملک طویل عرصے تک مارشل لائوں کی زد میں رہا جس سے ملک میں سیاسی عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔ رفتہ رفتہ بعض سرمایہ دار آمروں کا سہارا لے کر سیاست میں وارد ہو نے کے بعد اقتدار میں شرکت دار بن گئے۔ بھٹو نے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد انتخابات میں ایسے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیئے جن کی کوئی مالی حیثیت نہیں تھی۔ راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے جن لوگوں کو ٹکٹ دیئے گئے ان میں خورشید حسن میر، جاوید حکیم قریشی ، نذر کیانی ایسے لوگوں کی مالی حالت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ملک کے دیگر علاقوں سے جن لوگوں کو بھٹو نے پارٹی ٹکٹ دیئے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کی مالی حالت حوصلہ افزاء نہیں تھی۔ 1985ء کے بعد سیاست میں آنے والے کرپشن کے بھونچال سے سیاسی رہنمائوں کی موجیں لگ گئیں۔ وقت کے ساتھ سیاسی رہنمائوں نے عوام کی خدمت کی بجائے مال و دولت کو مطمع نظر بنا لیا۔ موجودہ دور کی سیاست کا گزشتہ ادوار کی سیاست سے موازنہ کیا جائے تو انتخابات میں زیادہ تر وہی لوگ سامنے آرہے ہیں جن کا ماضی مبینہ طور پر کرپشن سے آلودہ ہے۔ آج ہمیں دور دور تک کوئی سیاسی رہنما ایسا نہیں دکھائی دے رہا ہے جو مالی اعتبار سے غیر مستحکم ہو۔ سیاست دانوں نے اقتدار میں آکر قومی بنکوں سے قرضے لے کر بڑے بڑے کارخانے لگائے اور انہیں خسارے میں ظاہر کرکے قرضے معاف کرا لئے۔ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں جہاں قوم کے پیسوں سے کارخانے لگانے والوں نے قرض کی رقوم حکومت کو واپس نہ کی ہو۔ ہمیں اسی حوالے سے نواب زادہ نصراللہ خان یاد آرہے ہیں جو اپنی اراضی بیچ کر سیاست کرتے تھے ۔ آج نواب زادہ صاحب کے پائے کا سیاست دان دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ عام طور پر سیاست دان طاقتور حلقوں کی سیاست میں مداخلت کا طعنہ دیتے
ہیں ۔ سوال ہے جو لوگ طاقتور حلقوں کی آشیر باد سے سیاست میں آئے اور اقتدار میں شراکت دار بنے ہیں وہ اداروں کی خواہشات کے برعکس ریاست کا نظام کیسے چلا سکتے ہیں۔ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد ابھی تک کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو اداروں کی آشیر باد کے بغیر اقتدار میں آئی ہو۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون او عمران خان سبھی طاقتور حلقوں کی حمایت سے اقتدار میں آئے۔ سیاسی رہنما راست باز ہوتے اور ان میں جذبہ حب الوطنی ہوتا وہ بغیر کسی سہارے کے الیکشن میں حصہ لیتے اور عوام کے حقیقی نمائندے کے طور پر اقتدار میں آتے تو نہ صرف عوام میں ان کی قدر و منزلت ہوتی بلکہ وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے۔ ایک سیاسی رہنما کی چوری کے مقدمہ میں حوالات میں بند تصویر دیکھ کر افسوس ہوا ۔ وہ صاحب نہ صرف پارٹی عہدیدار ہیں بلکہ صوبائی اسمبلی کے رکن تھے۔ سیاسی رہنمائوں میں راست بازی اور اخلاقیات ناپید ہوں وہ ملک وقوم کے لئے کیا خدمات انجام دیں گئے۔ عجیب تماشا ہے سیاسی جماعتوں نے احتساب کے ادارے بنائے اور خود سیاسی رہنما احتساب قوانین میں ترامیم کرکے احتساب سے بری الذمہ ٹھہرئے۔ ہمارا ملک کیوں مقروض ہوا ہے عوام کی اکثریت مالی معاملات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے لاعلم ہے۔ آئی پی پیز کی بات کریں تو رونا آتا ہے وہ بجلی بنائیں نہ بنائیں قومی خزانے سے اربوں روپے انہیں ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ کسی اور سیاسی جماعت کو آپی پی پیز کا معاملہ اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہم امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے آئی پی پیز کا مسئلہ اٹھا یا ہے ورنہ تو عوام بعض سیاسی رہنمائوں اور سرمایہ داروں کی مبینہ بددیانتی سے ناواقف تھے۔ ہم مہنگائی کا ذمہ دار آئی ایم ایف کو ٹھہراتے ہیں حالانکہ یہ عالمی مالیاتی ادارہ حکومت کو
اپنے اخراجات کم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ملک اسی صورت ٹھیک ہو سکتا ہے کرپشن کرنے والے خواہ کوئی ہوں ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہو۔ احتساب عدالتوں میں سیاسی وابستگی نہ رکھنے والے ججز کو لگایا جائے تو سیاسی رہنمائوں کی بہت بڑی تعداد جیلوں میں ہوگی۔ دراصل سیاست دانوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا وہ اداروں کے بل بوتے پر سیاست میں آنے کے بعد اقتدار میں شراکت دار بننے کے بعد کھرب پتی بن گئے۔ یورپ اور متحدہ امارات میں ان کی بڑی بڑی جائیدادیں ہیں وہ پیسہ کہاں سے لائے ہیں ۔ یہی وجہ ہے لوگ امیر ہیں اور ملک غریب ہے۔ یورپی ملکوں کے قوانین ایسے ہیں کوئی ان سے کرپشن کی دولت جمع کرانے والوں بار ے باز پرس نہیں کر سکتا۔ ایک دور میں سوئس بینکوں میں پاکستانی سیاست دانوں کی دولت کا بڑا چرچا تھا۔ آج عوام سوئس بینکوں کو بھول کر اپنی روٹی کے چکر میں پڑے ہیں۔ عدالتی نظام کی بساط الٹنے کی کوشش جاری ہے۔ امیر جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کا بھلا ہو جو آئینی ترامیم کے آگے آئینی دیوار بن گئے ہیں ورنہ تو سپریم کورٹ کے متبادل فیڈرل کورٹ بن چکی ہوتی۔ جے یوآئی کے امیر نے آئینی ترامیم بارے حکومت اور ان کے سہولت کاروں کے خواب چکنا چور کر دیئے ورنہ رات کی تاریکی میں جمہوریت کی طرح عدلیہ پر شب خون مارنے کی تیاری مکمل تھی۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین راست باز ہوں تو انتخابات میں منتخب ہو کر آنے والے سیاسی رہنما کرپشن کی جرات نہیں کر سکتے۔ یہاں تو مفادات کی سیاست رواج پکڑ چکی ہے۔ اخلاقیات اور راست بازی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اخلاقی جرائم میں ملوث سیاسی لوگوں کو پارٹی ٹکٹوں سے نوازنے کی رسم ختم ہونے تک ہمارا ملک درست سمت نہیں چل سکتا۔ سیاست دانوں نے ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے ذاتی مفادات کا حصول سیاست کا مقصد بنا لیا ہے۔ اے کاش ہمیں قائد اعظمؒ اور شہید ملت لیاقت علی خان جیسے سیاسی رہنما آج کے دور میں میسر ہوتے جو ذاتی جاگیریں چھوڑ کر وطن عزیز میں آئے تھے۔





