ColumnFayyaz Malik

بڑھتے حادثات، وجہ ٹریفک قوانین سے ناآشنائی

فیاض ملک
کوئی بھی نہیں چاہتا کہ سڑک پر صرف ایک منٹ میں گاڑی چلاتے ہوئے خود کو اگلے ایک خوفناک کار حادثے میں ملوث پائے اگرچہ یہ ایک خوفناک امکان ہے، خاص طور پر، یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہر ایک منٹ میں اوسطاً 13کار حادثات اکیلے امریکہ میں ہوتے ہیں جبکہ عالمی سطح پر روزانہ کی بنیاد پر کار حادثات کے نتیجے میں3000سے زیادہ اموات ہوتی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی عام نہیں بلکہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے، نیشنل اور سپر ہائی ویز، سڑکوں ، بازاروں، شاہراہوں پر روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالے خونیں ٹریفک حادثات اور ان کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی شرح تشویشناک صورتحال اختیار کر چکی ہیں اور اگر اس شرح پر غور کیا جائے تو ان کی مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں، ان میں لین لائن کی خلاف ورزی، اوور سپیڈنگ، ڈرائیورز کی جانب سے تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹریفک سگنل کا توڑنا، ون وے کی خلاف ورزی، دوران ڈرائیونگ سیٹ بیلٹ نہ لگانا، ٹریفک قوانین کے بارے میں ناقص معلومات اور ان پر عمل نہ کرنا، گاڑیوں میں ہونیوالی تکنیکی خرابیاں جیسے بریک کا فیل ہونا، ٹائر کا پنکچر ہونا، محدود مدت کے بعد ٹائروں کو تبدیل نہ کروانا شامل ہیں، اسی طرح ڈرائیورز کی لاپروائی بھی گاڑیوں کے تکنیکی خرابی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے اس وجہ سے 29.8 فیصد حادثات میں17فیصد اموات ڈرائیو ر ز کی تیز ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوتی ہیں، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھی اگر شہر لاہور کی بات کی جائے تو اس کی سڑکوں پر ہر روز تقریبا 90ہزار سے ایک لاکھ تک ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں ریکارڈ کی جاتی ہیں، صرف ریڈ سگنل کی خلاف ورزی، ون وے اور لین لائن کی خلاف
ورزی کے ساتھ اوور سپیڈنگ پر سیف سٹی کی جانب سے روزانہ 10 ہزار کے قریب ای چالان کئے جاتے ہیں اور اسی طرح لاہور ٹریفک پولیس بھی18سے20ہزار چالان کرتی ہے، میری ناقص رائے میں پاکستان کی تقریباً 90فیصد سے زائد آبادی ٹریفک کے بنیادی قوانین سے ناآشنا ہے، ہمارے تعلیمی نظام میں ٹریفک کے بنیادی اصولوں اور قوانین کی تعلیم پرائمری سے لیکر اعلی تعلیمی ڈگریوں تک نہیں دی جارہی، نصاب میں آپ کو کبھی ٹریفک کے متعلقہ کسی سکول، کالج، یونیورسٹی میں کوئی کتاب، کلاس پریڈ، کلاس ٹیسٹ، ماہانہ، ششماہی یا سالانہ امتحانات دیکھنے کو نہیں ملیں گے، پاکستان کے بڑے شہروں پر 84فیصد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور پگڈنڈی سرے سے موجود ہی نہیں ہے، سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں، غلط پارکنگ، بنا ہیلمٹ کے موٹر سائیکل اور بنا سیٹ بیلٹ پہنے کار چلانا، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال عام بات ہے اور انکی خلاف ورزی پر ٹریفک پولیس اہلکاروں کو لوگوں کے چالان کاٹتے اور الجھتے دیکھتے ہیں، منچلوں میں ون ویلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان بھی حادثات کا باعث بن رہا ہے، اس کے ساتھ مقررہ حد رفتار سے زیادہ سپیڈ سے گاڑی چلانا بھی حادثات کی وجوہات میں
سے ایک وجہ ہے یہی وجہ ہے کہ 80سے 90 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے غیر محتاط رویئے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں ،اگر ٹریفک کے نظام پر تھوڑی سی توجہ دی جائے اور لین، لائن اور اسپیڈ کا بالخصوص خیال رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹریفک حادثات کی شرح میں نمایاں کمی واقع نہ ہو۔ ٹریفک حادثات میں کمی لانے کیلئے کم عمر ڈرائیوروں کو سڑکوں پر گاڑیاں لانے کی اجازت نہ دی جائے جبکہ بسوں، کوچز، ٹرالرز اور ڈمپروں کی حد رفتار مقرر کی جائے، شاہراہوں پر سپیڈ چیک کرنیوالے کیمروں کی استعداد کار کو بڑھانا ہوگا، مقررہ رفتار کی خلاف ورزی یا خطرناک طریقے سے اوور ٹیک کرنیوالی گاڑیوں کا روٹ پرمٹ منسوخ کرکے ان کے ڈرائیوروں کوجرمانے کیساتھ قید کی سزا کو بھی یقینی بنانا ہوگا ، نشہ آور اشیا استعمال کرنیوالے ڈرائیوروں کے لائسنس منسوخ کر کے ان کے ڈرائیونگ کرنے پر تاعمر پابندیاں عائد کرنی ہوگی۔ مثال کی طور پر قومی ہائی ویز سیفٹی آرڈیننس 2000کے مطابق باقاعدہ لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص حد سے زیادہ تیز گاڑی چلائے جس سے دوسروں کی جان و مال کو خطرہ ہو تو اس کو ایک مہینے کیلئے گرفتار کر لیا جائے اور اس پر عائد کردہ جرمانہ ایک ہزار ہوگا،یہ ایک اچھا قانون ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کہیں بھی اس پر عمل نہیں ہوتا، ہمارے ملک ہر شہری جہاں خود کو ایک منجھا ہوا سیاستدان اور ایک اچھا کرکٹر سمجھتا ہے وہیں اسے یہ گمان بھی ہے کہ اس کو ٹریفک قوانین پر بھی دسترس حاصل ہے، یہی نہیں زیادہ تر خود کو، ڈیڑھ ہوشیار، سمجھنے والے موٹر سائیکل سوار ٹریفک سگنل پر کھڑے وارڈنز کے پاس آ کر ہیلمٹ پہنتے ہیں اور بعض گاڑی چلانے والے بھی سیٹ بیلٹ پہنے کا دکھاوا کرتے ہیں، یقین جانئے ایسے لوگ پولیس والوں کو نہیں بلکہ خود اپنی زندگی اور اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا کلچر عام ہوتا جا رہا ہے اور گاڑیوں سمیت موٹرسائیکل اور پیدل چلنے والے اپنے بنائے گئے اصول و ضوابط کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں، ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں طبقاتی نظام بہت عام ہے ، ترقی یافتہ ممالک میں حادثات سے بچنے کیلئے موثر اقدامات کیے جاتے ہیں اور مزید حادثات کی روک تھام کیلئے نئے ٹریفک کے قوانین مرتب کر کے ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969اور قومی وہیکل آرڈیننس 2000ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے بنائے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا۔ یہ تمام آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کیلئے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہو چکے ہیں ان میں موجود اکثر و بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیا جاتا اور یہ صرف ان آرڈیننس کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 24فیصد وہ افراد ہیں جو بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں جبکہ 41فیصد وہ لوگ ہیں جو 21سال سے کم عمر ہیں، واضح رہے کہ پاکستان میں بچوں کے گاڑی و موٹرسائیکل نہ چلانے کے حوالے سے قانون موجود ہی نہیں ہے، ذرا سوچیں7سال کی عمر سے لیکر 13،14سال تک کے کم عمر بچوں کا سڑکوں اور گلی
کوچوں میں گاڑی، موٹر سائیکل چلانا بلکہ یوں کہہ لیں کہ ہوا میں اڑانے کی کوشش کرنا، ون وِیلنگ کرنا، لوگوں کو خوفناک کرتب دِکھانا حتی کہ حادثات میں اپنے ساتھ دیگر افراد کو لے ڈوبنا ( جن میں عورتیں، بوڑھے اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہوتے ہیں) لمحہ فکریہ ہے ان والدین کیلئے جو اپنے بچوں کو روکنے کے بجائے ان کے گاڑی چلانے کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں، یاد رہے!18سال سے کم عمر افراد کا بائیک ( موٹر سائیکل) اور کار وغیرہ چلانا قانونا جرم ہے، ہم سب گلی محلوں اور شاہراہوں پر دیکھتے ہیں کہ بچوں کا گاڑی و موٹرسائیکل چلانے کا سلسلہ عام ہوتا جا رہا ہے،اکثر بچے اپنے والدین کو پیچھے بیٹھا کر موٹرسائیکل یا گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں جس یہ بات تو واضح ہے کہ بچے اپنے والدین کی رضامندی سے یہ کام کرتے ہیں، جن بچوں کے پائوں بمشکل گیئر اور کک تک پہنچ رہے ہوتے ہیں، ان کو بغیر تربیت اور لائسنس کے گاڑی و موٹرسائیکل کی اجازت کس ملک میں ہے؟ لوگوں کو اس شعور کی ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ دوسروں کے بچوں کی سلامتی کا بھی سوچیں، ٹریفک قوانین کی پیروی کریں اور دوسروں کی سلامتی بھی یقینی بنائیں اور سڑک پر آنے سے پہلے روڈ سیفٹی اور قوانین کا مکمل علم لے کر آئیں۔

جواب دیں

Back to top button