کیا ہم محفوظ ہیں؟

رفیع صحرائی
اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ ارکان کے زیر استعمال پیجرز میں ایک ساتھ دھماکے کروا دیئے۔ جن میں 25افراد شہید جبکہ ایرانی سفیر سمیت تین ہزار سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ زخمی ہونے والوں میں 200سے زائد افراد کی حالت نازک ہے۔ مزید درجنوں اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دھماکے سے پھٹنے والے پیجرز میں سے ہر پیجر میں تین گرام دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔ منگل کے روز ان پیجرز میں ایک کوڈ میسج آیا اور یہ دھماکے سے پھٹ گئے۔ ابھی یہ صدمہ کم نہیں ہوا تھا کہ بدھ کے روز دھماکوں میں مرنے والوں کے جنازوں میں شرکاء کے واکی ٹاکی پھٹ گئے جس سے 20کے قریب مزید شہادتیں ہوئیں اور درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ پتہ چلا ہے کہ شام میں بھی ان ڈیوائسز کے پھٹنے سے 14افراد زخمی ہوئے ہیں۔
امریکہ نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ ان دھماکوں میں ملوث نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ اور ایران سمیت متعدد ممالک نے اسرائیل کی طرف سے اس سائبر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ لبنان نے ان دھماکوں کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ لبنان میں سرکاری طور پر خبردار کیا گیا ہے کہ تائیوان ساختہ گولڈ اپالو 900پیجر کا استعمال فوری طور پر روک دیا جائے کیونکہ اسرائیل نے 5000یا اس سے زائد پیجرز میں میں بم پلانٹ کیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے اب تک سرکاری طور پر ان سائبر حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ان دھماکوں کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے۔
لبنان میں پیجر دھماکوں کے واقعات میں استعمال ہونے والے پیجرز سے متعلق یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ یہ پیجرز تائیوان میں تیار ہوئے یا ہنگری میں؟ پیجرز بنانے والی تائیوانی کمپنی نے پیجرز ہنگری کی کمپنی میں بننے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ ہنگری نے تائیوان کے دعوے کی تردید کی ہے۔ ہنگری کمپنی کا کہنا ہے کہ لبنان میں جن ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے وہ ہنگری میں کبھی بنے ہی نہیں۔ پیجر ڈیوائسز بنانے کے لیے جس کمپنی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک ٹریڈنگ کمپنی ہے اور اس کا پیجر بنانے کا کام نہیں ہے۔
سوال یہ نہیں کہ پیجرز تائیوان میں بنے یا ہنگری میں، واقعہ یہ ہے کہ پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے سے بہت سی قیمتی جانیں جا چکی ہیں۔ لبنان نے اس واقعے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ دنیا پھر میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے۔ کمزور لوگ معاملات کو انصاف کے لیے عدالت یا ڈیرے کی پنچایت میں لے جاتے ہیں، طاقت ور اپنا بدلہ خود لے لیتے ہیں۔ اگر امریکہ کو کسی سے ناراضی ہو جائے تو وہ شکوہ نہیں کیا کرتا بلکہ اس کے سامنے عراق ہو یا افغانستان، وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیا کرتا ہے۔ اسرائیل اس وقت امریکہ کی پشت پناہی کی بدولت طاقت ور بدمعاش بنا ہوا ہے جو فلسطین کے علاوہ اپنے ارد گرد بسنے والے دیگر ممالک پر بھی اپنی بدمعاشی کا سکہ جما رہا ہے جبکہ عددی اعتبار سے کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود مسلم ممالک اقوامِ متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں جس پر امریکہ کی اجارہ داری ہے۔
لبنان اور شام میں ہونے والے اسرائیلی سائبر اٹیک نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جن میں ایک اہم ترین سوال دنیا کے دیگر ممالک کی سلامتی کا بھی پیدا ہو گیا ہے۔ جو ڈیجیٹل ڈیوائسز خاص کر موبائل فونز استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان میں تو ہر چیز بے تحاشہ اور بے تُکی استعمال ہو رہی ہے۔ موبائل فونز سے ہٹ کر ہمارے ہاں ہر گھر میں ریموٹ سے چلنے والے کھلونے بہت بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ کمپیوٹرز ہر گھر کی ضرورت بن چکا ہے۔ جتنے افرادِ خانہ ہیں ہر ایک کے پاس اپنا ذاتی موبائل فون ہے۔ بعض کے پاس ایک سے زائد فون بھی موجود ہیں۔ ایل ای ڈی، ایل سی ڈی، ٹیلی وعن، ڈیجیٹل گھڑیاں اور کلاک، کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ ڈیجیٹل اور الیکٹرونک اشیاء اور ڈیوائسز کے انبار کے انبار گھروں میں لگے ہوئے ہیں۔ ریموٹ کنٹرول گاڑیوں کا استعمال ہماری ترجیح بنتی جا رہی ہے۔ اگر ان میں سے کچھ ڈیوائسز میں خصوصاً موبائل فونز میں دھماکہ خیز مواد چھپا ہوا ہو تو سوچیے! ہم کس قدر رسک میں ہیں۔ لبنان و شام میں ہونے والے سائبر حملوں نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ ’’ کیا ہم محفوظ ہیں‘‘؟۔





