پیکا ایکٹ کے تحت سزائے موت پانے والی خاتون کون؟
اسلام آباد کی پیکا ایکٹ خصوصی عدالت نے سوشل میڈیا پر توہین رسالت کیس میں جرم ثابت ہونے پر ایک خاتون کو سزائے موت سنائی ہے۔ خاتون پر الزام تھا کہ انہوں نے چار برس قبل واٹس ایپ پر ایک گروپ میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز مواد شیئر کیا تھا۔
خاتون کو تعزیرات پاکستان 295 سی کے تحت سزائے موت اور 3 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جبکہ پیکا کی سیکشن 11 کے تحت سات سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔
پیکا ایکٹ کے تحت سزائے موت پانے والی خاتون کون ہیں؟
ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے ایک اہلکار کے مطابق مسیحی خاتون شگفتہ کرن اسلام آباد کی رہائشی ہیں اور انہوں نے ستمبر 2020 میں سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام سے متعلق نامناسب مواد شیئر کیا تھا۔
شہری شیراز احمد کی جانب سے شکایت موصول ہونے پر 29 جولائی 2021 کو میسحی خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرکے شگفتہ کرن کو گرفتار کرلیا گیا
عدالتی ریکارڈ کے مطابق شگفتہ کرن چار بچوں کی ماں ہیں۔ اسی ریکارڈ کے مطابق شگفتہ کرن کی جانب سے مارچ 2023 میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی جسے متعلقہ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مسترد کردی تھی۔
شگفتہ کرن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کے خلاف 30 دن کے اندر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی حقدار ٹھہرائے جانے والی آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن اکتوبر سنہ 2018 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ایک بینچ نے مقامی عدالت اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف آسیہ بی بی کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے ان پر عائد الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد آسیہ بی بی اپنے اہل خانہ سمیت بیرون ملک چلی گئی تھی۔