تحریر: سی ایم رضوان
ان دنوں ماہتاب نبوت کے مادر گیتی میں ظہور کا جشن پوری دنیا میں مکمل مذہبی عقیدت و احترام اور ملی جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ آپؐ نے انسانیت کی دنیوی اور اخروی فلاح کے نایاب اصول اور قابل صد تقلید نمونے اس طرح متعارف کروائے کہ کوئی مصلح اور مفکر نہ پہلے اور نہ بعد میں آج تک پیش ہی نہیں کر سکتا۔ آج بھی انسانیت کی عبادت، ریاضت بندگی اور اطاعت کے نادر نگینوں سے آپؐ کی آپؐ حیات طیبہ کا ایک ایک گوشہ بھرا ہوا ہے۔ اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی آپ کی قائم کردہ اصلاحات و ترغیبات کا کوئی ثانی نہیں۔ آپؐ کی حیات طیبہ کے سیاسی مقاصد کے دم قدم سے تا قیامت خیر و برکت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اگر انسانیت یا انسانوں کا کوئی بھی معاشرہ یا ملک اس فلاح کے حصول کی نیت اور کوشش ہی نہ رکھتا ہو تو اس کی بدبختی کا کیا کیا جائے۔
عام طور پر سیاست کا لفظی مطلب عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی حکومت کا قیام اور حکومت کے ذریعے عوام کی حقیقی فلاح و بہبود اور سچی خدمت کا فریضہ انتہائی ایمانداری، محنت اور دیانت سے سرانجام دینا ہے۔ اس نظام حکومت میں پارلیمنٹ کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور پارلیمان میں بیٹھے مشنری لوگ خوبصورت پارلیمانی اور جمہوری روایات قائم کرتے ہیں۔ انہی روایات کے تحت دن بدن، سال بہ سال اور دور بہ دور عوامی و ملکی فلاح کا مشن جاری رہتا ہے۔ ایک دیگر اصطلاح کے مطابق حکومت کرنے کے فن اور لوگوں کو فساد سے دور اور اصلاح کے قریب کرنے کو سیاست کہا جاتا ہے۔ ایک اور تعریف کے مطابق لوگوں کی اصلاح اور بہبود کے لئے بند رستوں کو کھولنے اور نئے رستے تلاش کرنے کو سیاست کہا جاتا ہے۔ علی ہذا القیاس سیاستدان وہ شخص ہوتا ہے جو حکومت اور اقتدار کے ذریعے خلق خدا کی بہبود اور اصلاح کے لئے ہمہ وقت بدقت تن کوشاں و سرگرداں رہتا ہے اور اس اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کے لئے بہترین ماحول اور سازگار فضا پیدا کرتا ہے لیکن اگر سیاستدان راشی، مفاد پرست اور جمہوری روایات کا قاتل ہو تو پھر وہ صورت حال پیدا ہوتی ہے جو آج وطن عزیز میں پیدا ہو چکی ہے۔ یعنی سیاستدان خود ہی جمہوری و اخلاقی روایات کی راہ میں روڑے اٹکاتے نظر آ رہے ہیں۔ قدم قدم پر نظام کو مفلوج اور عوام کو محبوس کرنے کا مذموم کام جاری ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ بھی اسی ڈگر پر گامزن ہے اور اب تو وکلاء بھی اس گھڑمس میں کود چکے ہیں۔ گو کہ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اس نام کی نسبت سے ہمیں سیاست بھی وہی کرنی چاہیے تھی جو عین اسلام ہو یا پھر اسلام کے قریب تر ہو۔ ہمارے لئے مزید اعزاز اور فلاح ابدی کی بات تو یہ تھی کہ اسلامی سیاست کے بانی آقائے دو جہاں خاتم النبیین نبی محترم جناب محمد الرسولؐ اللہ کی ذات بابرکات ہے۔ آپؐ کی انقلابی سیاسی قیادت کو بدترین مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں اور جدید ترین سیاسی سائنس بھی انگشت بدنداں ہے کہ کس طرح ایک دریتیم نے چند ساتھیوں کی مدد سے چند سال میں دنیا کی عظیم ترین اسلامی مملکت کا قیام کر لیا اور اپنے وقت کی سپر طاقتوں کو سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا اور امن و آشتی اور اصول پسندی کو بھی مقدم رکھا بلکہ عام معافی کا وہ نمونہ پیش کر دیا کہ آج تک کوئی فاتح یہ مثال قائم نہیں کر سکا۔ ہم پاکستانی دعوے دار ہیں کہ ہم نے یہ ملک کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا مگر افسوس کہ اس ملک میں نہ تو ہم مدنی نظام حکومت کے فلاحی نظام کو قائم کر سکے اور نہ ہی مغربی جمہوریت کی ان خوبصورتیوں کو اپنا سکے جو کم از کم ایک ذمہ دار نظام تو قائم کرتی ہیں۔ نتیجتاً آج ہم بیچ منجدھار کے پھنس چکے ہیں اور اس شعر کی صورت ہم پر صادق آتی ہے کہ کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لئے سوال یہ ہے کہ کتابوں نے کیا دیا مجھے۔
جب ہم مدنی سیاست کا مطالعہ کرتے ہیں تو بعد از اعلان نبوت دو سیاسی ادوار سامنے آتے ہیں۔ تیرہ سالہ مکی دور اور دس سالہ مدنی دور۔ مکی دور ابتلاء و مصائب کا دور تھا جس میں روزانہ کی بنیاد پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بدترین ذہنی و جسمانی تشدد برداشت کرنا پڑا۔ وہ منظر بھی دیکھنا پڑا جس میں بلال حبشی جیسے کمزور غلاموں کو گرم ریت کے اوپر لٹا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ نبی مکرم اور ان کے پیروکاروں کو بھوک اور افلاس کی چکی میں پیس کر معیشت تنگ کر دی گئی تھی۔ خود آقائے نامدارؐ کو طائف کی وادی میں بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بننا پڑا اور پھر مکہ کے لوگ اکٹھے ہو کر آپؐ اور آپ ؐ کے خاندان کا بائیکاٹ کر کے ان کو شعب ابی طالب جیسی تنگ و تاریک گھاٹی میں محبوس رہنے پر مجبور کرتے ہیں مگر آقائے کریم دشنام طرازی نہیں کرتے بدترین مخالفوں کی بھی عزت نفس مجروح نہیں کرتے۔ کسی بھی صورت انتقامی سیاست کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ مخالفین کے لئے بھی ہدایت کی دعا کرتے ہیں اور جب سر زمین مکہ پر حالات کی تنگی اپنی انتہائوں کو چھونے لگتی ہے تو ساتھیوں کو سر زمین مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیتے ہیں۔ مدینہ منورہ میں پہلا سیاسی عمل لوگوں کو بھائی چارے کی لڑی میں پرونا تھا۔ سب سے پہلا کام مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات مدینہ کا قیام تھا۔ پھر اہلیان مدینہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مدینہ میں آباد مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ میثاق مدینہ تحریر کرنا تھا جس کے مطابق مدینہ پر جب بھی کوئی بیرونی قوت حملہ آور ہوئی تو آپ نے اس معاہدے پر سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنایا۔ لیکن یہاں پاکستان میں ان کے زبانی کلامی ماننے والے اور نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے جھوٹے حامی اور فرضی داعی ہونے کے دعویدار پہلے زرداری اور پھر شہباز شریف کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں اور پھر مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملے پر یوٹرن لے لیتے ہیں اس پر بھی کوئی اصول یا انقلاب مشورہ نہیں کرتے بلکہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اخبار اور میڈیا چیخ رہا ہے کہ ملکی سیاست کے ایک طرف جغادری مولانا نے ایک طرف اپوزیشن سے محبت کی پینگیں بڑھا رکھی ہیں اور دوسری طرف حکومت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
حالانکہ تاریخ گواہ ہے اور خود مولانا بارہا یہ بیان کر چکے ہیں کہ نبی کریمؐ نے امن و جنگ دونوں حالتوں میں اصول و ضوابط کو اولیت دی اور کبھی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آپ ؐ نے جنگ کو بھی اصول کی بنیاد پر لڑا اور زمانہ امن میں بھی اصول و ضوابط کا وہی معیار برقرار رکھا۔ آپ نے ہمیشہ عہد کی پابندی کی۔ مشرکین مکہ کے ساتھ ہونے والے صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی ناقابل عمل شقوں پر بھی عمل کر کے بتایا کہ اسلامی سیاست کسی صورت بھی عہد شکنی کو قبول نہیں کرتی اور پھر فاتح کی حیثیت سے جب مکہ میں واپسی ہوتی ہے تو انتقام کی بجائے ’’ لا تثریب علیکم الیوم‘‘ کہہ کر عام معافی کا اعلان کر دیا اور بدترین سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی رحم دلانہ برتائو کر کے ایک ناقابل یقین سیاسی انداز دنیا کو سمجھایا۔ اسلامی سیاست میں جھوٹ، عہد شکنی، تکبر، گالم گلوچ، دشنام طرازی، الزام تراشی، مخالفین پر کیچڑ اچھالنے، نفرت پھیلانے، قوم کو تقسیم کرنے اور سیاست کو دشمنی میں بدلنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
اسلامی سیاست کے تناظر میں جب ہم ملکی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس میں جابجا ذاتی مفادات اور قدم بہ قدم خود غرضی نظر آتی ہے۔ تکبر، خود پسندی اور انانیت نظر آتی ہے۔ نفرت اور تقسیم نظر آتی ہے، ملکی سیاست گالم گلوچ، بداخلاقی، بدتمیزی اور بدتہذیبی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جھوٹ در جھوٹ اور فریب در فریب پر مبنی اس سیاست کاری کا اسلامی سیاست سے دور دور کا بھی واسطہ دکھائی نہیں دیتا۔ سیاسی مخالفین کو انتقام کی چکی میں پیسنا آج کی پاکستانی سیاست کا وتیرہ بلکہ باعث فخر طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ہماری رائج سیاست کی بے رحمی دیکھئے کہ ایک سخت ترین مخالف بھی جب میری کشتی میں سوار ہو جائے تو ماضی میں دی گئی اس کی گالیاں بھی گلاب بن جاتی ہیں اور اگر سب سے قریبی بھی اگر مخالفانہ رائے کا اظہار کرے تو وہ بھی راندہ درگاہ ٹھہر جاتا ہے۔ القصہ وطن کی سیاست کا کوئی اصول نہیں رہا۔ باہمی احترام سے کوسوں دور اس سیاست کا اسلامی سیاست سے کوئی تعلق نہیں نظر نہیں آتا۔ یہ جھوٹ اور فریب کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ گالی اور گولی کی سیاست ہماری شان بن گئی ہے۔ بے اصولی اور بے ضابطگی ہماری سیاست کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ سیاسی مخالفت جانوں کے درپے دشمنی میں بدل چکی ہے۔ باہمی تعلقات کا معیار سیاسی خیالات اور پسند و نا پسند بن چکا ہے۔ مخالف رائے کا احترام ناپید ہو چکا ہے۔ اب گھروں میں ہی نہیں ذہنوں کے درمیان بھی قد آدم دیواریں بن چکی ہیں۔ اب سیاست اصلاح کا نام نہیں بلکہ مکمل بگاڑ کا طریقہ بن گئی ہے۔ اب اس میں لوگوں کو جوڑا نہیں جاتا توڑا جاتا ہے۔ اب محبتیں بانٹنے کا نہیں نفرتوں کی تقسیم کا وقت چل رہا ہے۔ نظام کو مفلوج کر دینے کی نہ صرف باتیں بلکہ عملی کوششیں ہو رہی ہیں ہو رہی ہیں اور برملا فخر کے ساتھ اس کا اعتراف و اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔
تازہ صورت حال یہ ہے کہ وہ جن پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا ہے اگر وہ مداخلت کر رہے ہوتے تو مولانا کی کیا جرات تھی کہ وہ مجوزہ آئینی ترامیم سے ذرا سا بھی انحراف کرتے۔ وہ اگر مداخلت کرتے تو عدلیہ بار بار یک طرفہ فیصلے نہ دیتی وہ اگر مداخلت کرتے تو حکومتی اتحاد کا اس قدر تماشا نہ لگتا جس طرح کہ پیپلز پارٹی نے لگایا ہوا ہے کہ حکومت کے مزے بھی لوٹو، ن لیگ سے ماضی بعید کے بدلے بھی لو اور دامن بھی داغدار نہ ہو۔ وہ اگر مداخلت کرتے تو جو بحران اس وقت چل رہا ہے یہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ وہ اگر مداخلت کر رہے ہوتے تو وہ پارٹی جو چند ماہ قبل جن مولانا کو ڈیزل ڈیزل کہہ کر پکارتی تھی آج ان ہی کی اقتداء میں اس پارٹی کے قائدین نماز نہ پڑھ رہے ہوتے۔