Column

علامہ اقبالؒ اور عشق ِ رسولؐ

تحریر : رفیع صحرائی
علامہ اقبالؒ کی تعلیم و تربیت ایسے اسلامی اور دینی ماحول میں ہوئی تھی کہ نبی مکرمؐ کی محبت ان کی شریانوں میں خون بن کر گردش کرتی تھی۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری محبت تمہارے دل میں تمہاری اولاد، والدین اور پورے انسانی کنبے کی محبت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس حدیث کے واضح مفہوم پر ایمان رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ حب نبویؐ اور عشق رسولؐ کو ایمان کی بنیاد اور اساس تصور کرتے تھے۔
کی محمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آپؐ کا نام مبارک زبان پر آتے ہی یا کانوں میں پڑتے ہی اقبالؒ کے احساس و شعور میں سوز و گداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اور پُرنم آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی۔ ذکرٍ حبیبؐ لکھتے وقت قلم چلتا تو روح پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔
وہ دانائے سبُل، ختم الرّسُل، مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یاسیں، وہی طٰہٰ
یوں تو علامہ اقبالؒ کا سارا کلام عشق و مستی میں ڈوبا ہوا ہے مگر جو ذوق و شوق اور وجد آفرینی ان کی نعت ’’ ذوق و شوق‘‘ میں موجود ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ حضورؐ کی مدح سرائی کا کیا خوب صورت انداز ہے
لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہِ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب
شوق اگر تیرا نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
علامہ اقبالؒ کارزارِ حیات میں عشق اور محبت کی تاثیر کے قائل تھے۔ عشق ہی آدابِ خود آگاہی سکھاتا ہے، اسی سے خودی کو استحکام ملتا ہے اور ہر عمل کو عشق ہی دوام بخشتا ہے۔ عشق سے ہی زندگی کو آب و تاب ملتی ہے اور اسی سے ہی زندگی کی تاریک راہیں روشن ہوتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ عشق کی تاثیر اور پاکیزگی کے حوالے سے کہتے ہیں۔
عشق دمِ جبرائیل عشق دلِ مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
علامہ اقبالؒ کا دل عشقِ رسول سے معمور تھا۔ عشقِ نبویؐ کی روشنی سے ان کے دل کی پوری کائنات منوّر تھی۔ ذاتِ رسالت مآبٔ کے ساتھ انہیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشمِ نمناک اور دیدہِ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے ان کے سامنے حضورؐ کا نام لیا ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے بے اختیار سیلِ رواں جاری ہو گیا۔ آپٔ کا نام آتے ہی یا ذکر چھڑتے ہی اقبالؐ بے قابو ہو جاتے تھے۔ اقبالؒ کی شاعری کا خلاصہ، جوہر یا لُبِ لباب عشقِ رسولؐ اور اطاعتِ رسولؐ ہے۔
علامہ اقبالؒ نے عشقِ رسولؐ کا اظہار اپنی شاعری میں بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اپنی اردو شاعری میں انہوں نے حضور اکرمؐ کو بہت سے ناموں سے یاد کر کر کے اپنی والہانہ عقیدت اور چاہت کا اظہار کیا ہے۔ چند اسمائے مبارک ملاحظہ ہوں۔
مُحَمَّد، احمد، رسولِ عربی، رسولِ ہاشمی، دانائے سبُل، ختم الرّسل، مولائے کُل، مولائے یثرب، قرآں، فُرقاں، یاسیں، طٰہٰ، مدفونِ یثرب، میرِ عرب، بدرو حنین کے سردار، نئیِ مرسل، شہِ یثرب، رسولِ امیں، رسولِ مختار، نبیِ عفت، حضور رسالت مآب، رحمتہ اللعالمین، صاحبِ مازاغ، حضور سرورِ عالم، رفعت شان، ورفعنا لک ذکرک۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے اسماء ہیں، جنہیں اقبالؒ نے اپنی شاعری میں استعمال کر کے عقیدت کے پھول بحضور سرورِ کونین، محمدِ مصطفٰیؐ، احمدِ مجتبٰیؐ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ان اسماء اور القاب مبارکہ کے استعمال سے جہاں علامہ اقبالؒ کی شاعری کے حُسن میں اضافہ ہوا ہے وہاں علامہ اقبالؒ کی حضورؐ سے عقیدت و محبت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ حضورؐ کے اسم مبارک مُحَمَّدؐ کا استعمال دیکھیں۔
قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
ہر میں اسمِ مُحَمَّدؐ سے اجالا کر دے
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ مُحَمَّدؐ اس کے بدن سے نکال دو
علامہ اقبالؒ کا یہ شعر تو زبانِ زدِ عام ہے
کی مُحَمَّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبالؒ نے یورپ میں ایک طویل عرصہ گزارا۔ وہاں قدم قدم پر بہکنے اور صراطِ مستقیم سے ہٹنے کے تمام تر لوازمات اپنی پوری چمک دمک کے ساتھ موجود تھے۔ مگر یہ عشقِ نبیؐ کا فیض ہی تھا کہ اقبالؒ نہ تو دینِ محمدی سے منحرف ہوئے اور نہ ہی افرنگی جلووں کی چکا چوند انہیں متاثر کر سکی۔ ان کی اقدار اور افکار میں ذرا بھر بھی تبدیلی نہ آئی۔ اسی لیے جب وہ یورپ سے لوٹے تو پہلے ہی کی طرح عشقِ رسولؐ سے سرشار تھے۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button