نئے تین کپتان دستیاب
تحریر : سیدہ عنبرین
پہلے آئینی ترامیم ٹیسٹ میچ میں حکومتی ٹیم کی بدترین پرفارمنس پر اس کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر نعرے لگانے والوں ، بھنگڑے ڈالنے والوں اور طوطیاں بجا بجا کر ملک بھر کے بسنے والوں کی نیندیں حرام کرنے والوں میں مایوسی پھیل گئی ہے، وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ شکست نوشتہ دیوار ہے، امپائر کی مدد کے بغیر سیریز بچانا ناممکن ہے۔ میچ میں ٹاس کئے بغیر ہی پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اپنی نگرانی میں پیچ تیار کرائی گئی، جو بے حد سلو تھی، حکمت عملی یہ تھی کہ روایتی اوپنر سے اننگز شروع کرانے کی بجائے مڈل آرڈر بیٹسمین سے کھیل کا آغاز کرایا جائے گا، جہاں اپوزیشن کے تیز بائولر بھاگ بھاگ کر پانچویں اوور میں ہانپنے کے بعد کانپنے لگ جائیں گے، اس کے بعد تیز کھیلنے میں مشہور کھلاڑی چوکے اور چھکے لگا لگا کر ایک بڑا سکور کھڑا کر دیں گے، جیسے مخالف ٹیم کیلئے حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا، تمام تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں، میچ کے پہلے اوور کی پہلی گیند پر اس کے شہرہ آفاق کھلاڑی کلین بولڈ ہو گئے، اس کے بعد آنے والے بمشکل ایک اوور کھیل سکے۔ بعد ازاں آنے والے تمام کھلاڑی بس آنے اور جانے کا تکلف ہی کرتے نظر آئے، کوئی کھلاڑی ایک سکور بھی نہ لے سکا، پوری ٹیم صفر کے سکور پر آئوٹ ہو گئی۔ آئینی ٹیسٹ میچوں کی تاخیر میں اس سے بری پرفارمنس آج تک نہیں دیکھنے میں آئی، پہلی اننگز میں میچ کا پہلا دن ختم ہوا ہی چاہتا تھا کہ میچ ٹائم بڑھانے کی درخواست کی گئی، لیکن اس کا فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ کھلاڑی ٹک ٹک کر کے کھیلتے رہے، سکور نہ کر سکے، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میچ ’’ مڈ نائٹ‘‘ کے بعد روک دیا گیا۔ آئندہ روز کھیل شروع ہوا تو آخری وکٹ کا کھیل شروع ہوا، مخالف ٹیم کی بہترین فیلڈنگ کے باعث کوئی سکور نہ ہو سکا، یوں سکور بورڈ پر پہلے روز صفر لکھا تھا، پوری ٹیم کے آئوٹ ہونے کے بعد صفر کو سکور بورڈ سے نہ ہٹایا جا سکا۔ ٹیم آئوٹ ہو کر ڈریسنگ روم میں پہنچی تو ٹیم کے منیجر اور بیٹنگ کوچ منتظر تھے، دونوں نے ہر کھلاڑی کو باری باری بلایا اور وہ حسن سلوک کیا جس کے بعد ہر کھلاڑی کی ڈریسنگ کی گئی، ٹیم کے سولہ کھلاڑیوں کا اعلان کیا گیا تھا، کھیلنا تو گیارہ کھلاڑیوں نے تھا وہ بھی اس صورت اگر مخالف ٹیم بھی بیٹنگ کیلئے میدان میں اترتی، پہلے باری لینے کی خوشی میں صرف دس کھلاڑی کھیلتے ہیں، گیارہواں کھلاڑی تو دیگر سب کو کھیلتے ہوئے ہی دیکھتا ہے، دیگر پانچ کھلاڑی دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ کھیلنے والے کسی کھلاڑی کا مسل پل ہو، کسی کا سر پھٹے، کسی کا ٹخنہ ٹلے تو اسے اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملے، پہلے میچ میں کوئی ایسا موقع نہیں آیا لیکن اس کے باوجود پویلین میں بیٹھ کر کسی ایسے موقع کے منتظر کھلاڑی بہت خوش ہیں کہ انہیں کھیل کر رسوائی ملنا تھی، نہ کھیل کر وہ اس سے محفوظ رہے ہیں، یہ تمام کھلاڑی اپنے نہ کھیلنے پر اب محفوظ ہو رہے ہیں۔ حکومتی ٹیم کوئی سکور نہ کر سکی لہٰذا مخالف ٹیم کو کوئی ہدف نہ ملا، یوں اپوزیشن ٹیم نے یہ میچ دس وکٹوں سے بنا کھیلے ہی جیت لیا۔ آپ اسے ایک اننگز سے فتح بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک اننگ پر مشتمل میچ میں شکست کے بعد ٹیم کے کپتان اپنے اوپنرز کے ساتھ امریکہ تشریف لے گئے ہیں۔ امریکہ میں کرکٹ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے علاوہ بہت کچھ ہے، پس اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے وہاں سے دوسرے میچ کیلئی کوئی ٹپ تو نہ مل سکے گی لیکن دیگر امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ درپیش آئی ایم ایف میچ میں سہولت کے حوالے سے ’’ تھوڑا سا لو اور بہت کچھ دو‘‘ کے اصول کے تحت معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگلا میچ قریباً دس روز بعد اسلام آباد میں اسی میدان میں کھیلا جائے گا۔ وہی پچ ہو گی ، وہی کرائوڈ ہو گا، وہی موسم، کچھ بھی مختلف نہ ہو گا، البتہ میچ میں ان کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے جو اس سے قبل پویلین میں بیٹھے تھے یا ٹیم میں اپنی شمولیت کے منتظر تھے۔ اننگز کا آغاز اب بلاول بھٹو صاحب کریں گے، انہیں تاکید کی گئی ہے کہ اس دس روزہ وقفے میں بیٹنگ پریکٹس جاری رکھیں، انہوں نے اس کا آغاز کر دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے کھلاڑیوں کی ڈیوٹی لگائی ہے جو کھیل میں نظر تو نہیں آتے لیکن کھیل میں ان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، انہیں کہا گیا بلکہ ان کی منت سماجت کی گئی ہے کہ آئندہ میچ کی اہم ترین اننگ میں اہم ترین کردار کو اپنا کردار ادا کرنے کیلئے راضی کریں، اپوزیشن ٹیم کو بھی اس کھلاڑی کی اہمیت کا احساس ہے، یہ کھلاڑی اگر حکومتی ٹیم کی طرف سے کھیلنے پر راضی ہو گیا تو سمجھ لیجئے میچ شروع ہونے سے قبل ہی اس اطلاع کے ساتھ ہی میچ کا فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ میچ حکومت جیت جائے گی۔ اس اہم کھلاڑی نے اپوزیشن ٹیم کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا تو جیت اپوزیشن ٹیم کا مقدر ہو گی، اس اہم کھلاڑی کی مارکیٹ ریپوٹیشن اس اعتبار سے اچھی نہیں کہ وہ کڑ کڑ کہیں اور کرتا ہے، انڈے کہیں اور دیتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہوا تو اس کھلاڑی کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچے گا، البتہ منعفت اور معنوں میں حاصل ہو گی لیکن اگر اس کھلاڑی نے دنیا کمانے کی بجائے آخرت کمانے کا فیصلہ کیا تو ماضی کے تمام داغ دھل جائیں گے۔ کھیل کو سمجھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کے طرز عمل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، اپوزیشن ٹیم کا ساتھ دینے پر انہیں نو نقد تو نہ ملیں گے لیکن ان کے اس فیصلے سے اہم فیصلوں کی طرف جاتے تمام راستے بند ہو جائیں گے، جس کے بعد حکومتی ٹیم، اس کے کپتان اور خصوصاً ٹیم منیجر کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ میچ امپائر کے حوالے سے ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ اس نے کسی قسم کی مزید مدد دینے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کی مدد کرتے کرتے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں، آپ کیلئے مزید کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم امپائر نے حکومتی ٹیم کو اشارہ سمجھایا ہے میچ کس طرح جیتا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پر یہ بھی واضع کر دیا ہے کہ تمام تر سہولتوں کے باوجود اگر وہ میچ نہیں جیت سکتے تو پھر کوئی نئی ٹیم میدان میں اترے گی، جس کا کپتان بھی نیا ہو گا۔ مارکیٹ میں اس وقت تین کپتان دستیاب ہیں۔