عدلیہ پر شب خون، وکلا کی تحریک کا امکان

امیتاز عاصی
جمہوری نظام پر کئی بار شب خون مارنے کے بعد اب عدالتی نظام کی باری ہے۔ جمہوری نظام پر شب خون مارنے کے نتیجہ میں جمہوریت برائے نام کی رہ گئی ہے اور اب عدالتی نظام پر شب خون مارنے کی کوشش جاری ہے۔ کمزور جمہوری نظام ہونے کے باعث ہمارا ملک ترقی یافتہ ملکوں کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ آئین میں واضح کر دیا گیا ہے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گی جہاں پارلیمانی طرز حکومت ہوگا جس کی عدلیہ آزاد ہو گی۔ بدقسمتی سے طویل عرصے تک مارشل لاء کی زد میں رہنے کے بعد مملکت میں لولی لنگڑی جمہوریت ہے لیکن اس جمہوری نظام میں حکمرانی کرنے والے عدلیہ کی آزادی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی طرف گامزن ہیں جس کے نتیجہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ عجیب تماشا ہے آئین میں ترمیم کی جا رہی ہے اور ارکان اسمبلی کو نئی ترامیم سے بے خبر رکھا جا رہا ہے۔ باوجود قومی اسمبلی کا اجلاس کئی مرتبہ موخر کرنے کے آئینی مسودے کو مخفی رکھ کر شکوک و شبہات پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان کا جو حکومتی ترامیم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے ہیں۔ مولانا اور ان کے ساتھیوں کو موقف بڑا واضح ہے حکومت کو آئینی ترامیم کی اتنی جلدی کیوں ہے
جس کا حکومت کے پاس شافی جواب نہیں تھا۔ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے حکومت کو مولانا کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑھ رہے ہیں ورنہ عام حالات میں آئینی ترامیم کے لئے اتنی تگ ودو کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سلام اپوزیشن کو جو آئینی ترامیم کے آگئے دیوار بن گئی ہے۔ رات گئے جب حکومت کو مطلوبہ ارکان کی حمایت میں ناکامی ہوئی تو اجلاس کو اگلے روز کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ ایک اردو معاصر کی خبر کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے آئینی مسودے کے مطالعہ کے لئے ایک ماہ کا وقت مانگا ہے۔ وفاقی وزیر قانون کا بیان ہے انہیں آئینی مسودہ رات پونے دو بجے ملا ہے جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا حکومت عدلیہ پر پورا کنٹرول کرنے کی خواہاں ہے۔ آئینی ترمیم میں ہائی کورٹس کے ججز کا دوسری ہائی کورٹس میں تبادلے سے یہ ثابت ہو گیا ہے حکومت ناپسندیدہ ججز کو دوسری ہائی کورٹس میں بھیج کر من پسند ججز سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کی جدوجہد میں لگی ہے جس میں بظاہر کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔ کالم تحریر کرنے تک ایوان کا اجلاس نہیں ہو ا تھا۔ آئینی ترامیم منظور ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹس کے ان ججز کو دوسری ہائی کورٹس میں تبدیل کرنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو بعض اداروں کی عدلیہ کے امور میں مداخلت بارے شکایت کی تھی۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں بلوچستان اسمبلی میں ارکان کی تعداد میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ سوال ہے ایوان میں ارکان کی تعداد کا تعین آبادی کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اگر ایسا ممکن ہوا تو صوبہ بلوچستان جو این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حصہ آبادی کی بجائے رقبے کے اعتبار سے مطالبہ کر رہاہے کو مزید تقویت ملنے سے ان کا کیس اور مضبوط ہو جائے گا۔ دراصل حکومت آئینی ترامیم میں عجلت سے کام لے کر پھنس گئی ہے۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس شرط پر آئینی ترامیم میں حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے اگر وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کر دے جو حکومت کی دسترس سے باہر ہے۔ اختر مینگل نے پی
ٹی آئی حکومت سے انہی مطالبات کا پورا نہ ہونے پر علیحدگی اختیار کی تھی جس میں انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے ساتھ کئی لاکھ افغان پناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی کی تھی لیکن عمران خان ان کے دونوں مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ چنانچہ یہی صورت حال موجودہ حکومت کی دور میں ہے حکومت اختر مینگل کے دونوں مطالبات پورا نہیں کر سکتی نہ سردار اختر مینگل آئینی ترامیم میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ آئینی ترامیم کے خلاف وکلا برادری اٹھ کھڑی ہوئی ہے چنانچہ ملک بھر کے وکلا کا ایک کنونشن19ستمبر کو لاہور میں طلب کرلیا گیا ہے جس میں ملک بھر کے وکلاء کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ معروف قانون دان حامد خان کا کہنا ہے عدلیہ کی آزادی پر شب خون مارنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ حامد خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا وکلا برادری کسی متبادل فیڈرل کورٹ کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی نہ عدلیہ کی آزادی پر آنچ آنے دے گی۔ انہوں نے یاد دلایا مشرف کے خلاف وکلا کی تحریک جس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی بالکل اسی طرح آئینی ترامیم کے خلاف وکلا برادری متحد ہے۔ انہوں نے اٹھارویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے چیف جسٹس کی تقرری کے لئے جو طریقہ کار طے ہو چکا ہے وہ اس سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حامد خان نے حکومت کو خبردار کیا حکومت وکلا برادری کو underestimate نہ کئے وکلا برادری عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس وقت حکومت کا فوکس جے یو آئی پر ہے۔ جے یو آئی کے امیر آئینی ترامیم میں حکومت کا ساتھ دیتے ہیں تو عدلیہ کی آزادی بری طرح متاثر ہونے کا قومی امکان ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے مسلم لیگ نون کی حکومت میں ہی اعلیٰ عدلیہ سے کھلواڑ کیوں کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے سابق چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ جیسے راست باز جج کی عدالت پر حملہ کرکے عدلیہ پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اب آئینی ترامیم کرکے عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کی کوشش جاری ہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں اور وکلا برادری کا امتحان ہے۔ کون عدلیہ کی آزادی کے لئے ججز کے ساتھ کھڑا ہے اور کون عدلیہ پر شب خون مارنے کی اجازت دے کر ملک کے عدالتی نظام پر بیڑا غرق کرنے کی طرف گامزن ہے جس کا جلد قوم کو علم ہوجائے گا۔ حالات و واقعات سے پتہ چلتا ہے حکومت آئینی ترامیم میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی جے یو آئی کے امیر سے صدر مملکت کا منصب دینے کے وعدے سے انحراف کر تو گئی آج انہیں جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان کی قدم بوسی کرنی پڑ رہی ہے، وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔





