Column

ایک مولانا۔۔۔۔ بڑا سیانا

رفیع صحرائی
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیمی بل پیش نہ کیا جا سکا اور سینیٹ و قومی اسمبلی کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئے۔ اکیلے مولانا فضل الرحمان نے حکومت اور مقتدرہ کو شکست دے کر اقتدار کے لیے لیٹ جانے والی بڑی سیاسی پارٹیوں کو قومی غیرت کا بہترین سبق دیا ہے۔
قومی اسمبلی اور سینٹ سے 20شقوں پر مشتمل مجوزہ آئینی ترامیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور ہوتے ہوتے موخر ہو گیا۔ پی ٹی آئی نے اپنی پوری کوشش کی کہ یہ بل منظور نہ ہونے پائے۔ اس کے لیے اس کے اعلیٰ سطحی وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر کے ان سے ساتھ دینے کی اپیل کی۔ مولانا نے انہیں انتظار کی کیفیت میں مبتلا کیے رکھا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور محسن نقوی کی مولانا کو منانے کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔ ہوئیں۔ اس سے پہلے صدر زرداری بھی چند روز قبل مولانا سے ملاقات کر چکے تھے۔ صدر زرداری میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ ناممکنات کو ممکن بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ مگر مولانا فضل الرحمان ان سے بھی بڑے کھلاڑی نکلے۔ ویسے بھی سیاست میں اپنے اور پارٹی کے مفادات دیکھے جاتے ہیں۔ سیاست میں کوئی کسی پر احسان نہیں کرتا۔ جو اس چکر میں پڑ جائے وہ اپنی سیاست تباہ کر بیٹھتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو پی ٹی آئی وہ مفادات نہیں دے سکتی تھی جو وفاق میں اتحادی حکومت سے انہیں مل سکتے تھے۔ مولانا گھاٹے کا سودا نہیں کر سکتے تھے لیکن بظاہر انہوں نے یہ گھاٹے کا سودا کر لیا ہے۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ مولانا نے حقیقت میں پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کی اپنے در پر ناک رگڑوا کر انہیں یہ باور کروا دیا کہ وعدہ خلافیوں اور بدتمیزیوں کا بدلہ کیسے لیا جاتا ہے۔
شنید ہے کہ کسی محبت اور عقیدت بھرے لمحے میں میاں نواز شریف نے مولانا کو صدر بنوانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ خبر بھی گرم ہوئی تھی کہ مولانا عبدالغفور حیدری کو چیئرمین سینٹ بنوایا جائے گا۔ شاید خیبر پختونخوا کی گورنر شپ کا وعدہ بھی کیا گیا تھا مگر ان میں سے کوئی بھی وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔ اب حکومتی اتحاد جب مولانا کے شکنجے میں آیا تو انہوں نے اسے خوب کس کس کر نچوڑ دیا۔ وہ اس کی حالت سے لطف اندوز ہوتے رہے حتیٰ کہ آئینی ترامیم کے لیے اتوار کو بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت بھی ساڑھے گیارہ بجے صبح سے تبدیل کر کے چار بجے سہ پہر کیا گیا کیونکہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی پارٹی کی شوریٰ سے مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا تھا۔ شوریٰ سے مشاورت دراصل اس لیے ضروری تھی کہ مولانا حمایت کے بدلے ملنے والی مراعات اور آئینی عہدوں کی پیشکش پر اپنی شوریٰ کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ جینوئن سیاسی پارٹیوں
کے سربراہان اپنی شوریٰ یا کور کمیٹی کو بائی پاس نہیں کیا کرتے بلکہ اپنی پارٹی کے اکابرین کو اہم فیصلوں پر اعتماد میں لیا کرتے ہیں۔ اس سے پارٹی کے اندر ڈسپلن قائم رہتا ہے۔ شکوے اور شکایات پیدا نہیں ہوتیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی ایسا ہی کرتی ہیں۔ حکومت یا مقتدرہ نے ایک اور بڑا کارڈ یہ کھیلا کہ ایک دوست ملک سے مولانا پر دبا ڈلوا دیا کہ وہ آئینی ترامیم کے بل کے حق میں ووٹ دیں۔ یہ چیز مولانا کو غصہ دلا گئی کہ ایک طرف منتیں اور ترلے کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ان پر دبائو ڈلوا کر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مولانا نے اپنے سب سے بڑے حمایتی ملک کی بات نہ مان کر درحقیقت جرات اور دلیری کا ثبوت دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کو پی ٹی آئی نے کے پی حکومت میں وزارتوں کی پیشکش کی۔ ماضی میں عمران خان اپنے جلسوں میں جس طرح لطف لے لے کر مولانا فضل الرحمان کی توہین کیا کرتے تھے وہ مجلسِ شوریٰ کے ارکان کے لیے قابلِ معافی نہ تھی۔ وہ عمران خان پر اعتبار کرنے کو بھی تیار نہ تھے کہ مطلب نکل جانے کے بعد خان نے ماضی میں ہمیشہ اپنے محسنوں کو ٹشو پیپر کی طرح پھینکا ہے۔ مولانا نے عمران خان کو یہ آفاقی سچائی بھی اچھی طرح سمجھا دی ہے کہ وقتی سیلاب چاہے جتنا بھی تند و تیز ہو مگر سیلاب اترنے کے بعد پانی ہمیشہ پلوں کے نیچے سے ہی بہتا ہے۔ سارا سال دریا میں طغیانی نہیں رہتی۔ اگر عمران خان یہ سبق سیکھ گئے تو ان کی آئندہ سیاست کے لیے یہ فائدہ مند ثابت ہو گا۔ دوسری طرف ن لیگ کی وعدہ خلافیوں پر بھی مولانا نے اسے انتظار کی سولی پر لٹکا کر اچھا سبق دیا ہے۔ مولانا نے اپنے
مشہورِ زمانہ لانگ مارچ اور تاریخی دھرنے کے ذریعے میاں نواز شریف کو جیل سے نکلوا کر علاج کے لیے بیرونِ ملک بھجوانے کی ڈیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میاں نواز شریف نے اپنی بے رخی سے انہیں ناراض کر کے مولانا کی سیاست کو کافی کمزور کر دیا ہے۔ اب مولانا جب حکومت اور اپوزیشن کے لیے اہمیت اختیار کر گئے تو انہوں نے بھی دونوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔
یہ حقیقت ہے کہ آئینی ترامیم کے بل کو پاس ہونا تھا۔ مقتدر حلقے اس کے پیچھے تھے۔ جب ایسے حالات ہوں تو 58ووٹوں والے ہار جایا کرتے ہیں اور 35ووٹوں والے صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ بن جایا کرتے ہیں۔ گو سپریم کورٹ کے آٹھ جج بروقت پی ٹی آئی کی حمایت کو آ گئے تھے اور انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بے دست و پا کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر جب مقتدرہ کچھ ٹھان لے تو پھر چیف جسٹس آف پاکستان اپنی پوری کوشش کے باوجود پنجاب میں الیکشن نہیں کروا پاتے۔
20 شقوں پر مشتمل اس آئینی ترامیم کے بل کی اہم شقوں میں مولانا نے اپنی مرضی کی ترامیم کروا کر حکومت کی بے بسی کا خوب امتحان لیا۔ ان میں ایک اہم ترمیم بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65سے بڑھا کر 81کرنا تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کر کے حکومت پانچ سنیئر ترین ججز کے پینل میں سے کسی ایک جج کے تقرر کی خواہاں تھی۔ مولانا نے پانچ کے بجائے تین سنیئر ترین ججز کو پینل میں شامل کرنے کی تجویز دی تو اسے بھی فوراً ہی مان لیا گیا۔
حکومت ہر صورت اتوار 15ستمبر کو ہی آئینی ترمیمی بل منظور کروانا چاہتی تھی۔ ادھر مولانا پکڑائی نہیں دے رہے تھے۔ ان کے آٹھ ایم این ایز اور پانچ سینیٹرز فیصلہ کن کردار کے حامل بن گئے تھے۔ مولانا نے حکومت اور اپوزیشن کو انتظار کی صلیب پر لٹکا کر انہیں ساری دنیا کے سامنے تماشا بنا دیا۔ دونوں طرف سے اعلیٰ ترین سطحی وفود نے مولانا سے چار چار ملاقاتیں کیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت بار بار موخر ہوتا رہا۔ مولانا کو تضحیک کا نشانہ بنانے والی پی ٹی آئی کے وفد نے مولانا کی اقتدا میں نمازِ مغرب ادا کر کے عملی طور پر انہیں اپنا ’’ امام‘‘ تسلیم کر لیا۔
مولانا ترمیمی بل کی اس قدر جلد اور افراتفری میں منظوری کے خلاف ہیں۔ ان کی ایما پر اتوار کو ہونے والا اجلاس سوموار دن ساڑھے بارہ بجے تک چلا گیا۔ اس دوران مولانا کو اپنے حق میں کرنے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں مگر مولانا کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ انہوں نے اتنی جلدی اور اتنی بڑی تعداد میں ترامیم کی منظوری کی حمایت سے انکار کر دیا۔ وہ ترمیمی بل کا مسوّدہ سب کے سامنے لا کر قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس پر بھرپور بحث کروانے کے حق میں ہیں تاکہ کل کو کوئی اٹھ کر موجودہ اسمبلی اور سیاستدانوں کو کٹھ پتلی ہونے کا طعنہ نہ دے سکے۔ حکومت نے جلد بازی کر کے اپنے لیے طعن و تشنیع اور تضحیک کا سامان خود پیدا کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے قومی غیرت کی لاج رکھ کر سیاست اور سیاست دانوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔
دیکھا جائے تو جہاں مولانا نے چوکے، چھکے لگا کر بہترین کھیل پیش کیا ہے وہیں پر اپنی اہمیت کا احساس بھی سب کو دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button