انجام نااہلی ہو سکتا ہے

تحریر : سیدہ عنبرین
امانت، دیانت، صداقت، فراہمی انصاف، عام انسان کی حالت زار اور انداز حکمرانی کے اعتبار سے ہم کس منزل پر کھڑے ہیں تمام دنیا اس سے باخبر ہے۔ مقام افسوس کہ ہم کسی بھی شعبے میں نیک نام نہیں، دنیا بھر میں ’’ نورا کشتیاں‘‘ ہوتی ہیں، اس لحاظ سے کبھی درجہ بندی نہیں کی گئی کہ کون کس سے کتنا آگے یا کون کس سے کتنا پیچھے ہے، اگر درجہ بندی ہو جائے تو ہم اس میں سرخرو ہوں گے اور وکٹری سٹینڈ پر سب سے اونچے نظر آئیں گے۔
جاپانی پہلوان انوکی اور پاکستان کے جھارا پہلوان کی کشتی ’’ نورا‘‘ تھی لیکن اس انداز میں ختم ہوئی کہ اس پر اصلی کا گمان ہوتا تھا، اس میں دو باتیں نوٹ کرنے والی تھیں، کشتی ختم ہوئی تو جھارا پہلوان، اس کے حمایتی اور آرگنائزز سوالیہ انداز میں انوکی کی طرف سے دیکھنے لگے، جس پر انوکی کو یاد آیا اب کشتی ختم ہونے کے بعد اسے کیا کرنا ہے، وہ آگے بڑھا اور اس نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر جھارا کا ہاتھ فضا میں بلند کر دیا، جس پر یہاں بھنگڑے ڈلنا شروع ہو گئے اور یقین کر لیا گیا کہ انوکی نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس تھی، جھارا ہانپ رہا تھا جبکہ انوکی آخر دم تک تازہ دم نظر آیا، جھارا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا، یہ کشتی اناکی اور اکرم پہلوان کی کشتی کے کافی عرصہ بعد ہوئی تھی، جس سے پہلے بتایا گیا تھا کہ جھارا پہلوان، انوکی سے اکرم پہلوان کی شکست کا بدلہ لے گا، اس کشتی میں اکرم پہلوان کے کندھے کا جوڑ اتر گیا، وہ اکھاڑے میں درد سے بلبلاتا نظر آیا، یوں یہ کشتی ختم کر دی گئی۔ اکرم پہلوان کو انوکی نے اپنا مشہور دائو انوکی لاک لگایا، جسے اکرم پہلوان چھڑا نہ سکا ،آج پاکستان میں حکومت جھارا خاندان کی ہے، پاکستان میں آج دو حقیقی زور آور پہلوانوں کے درمیان کشتی شروع ہے، یہ کشتی نورا نہیں ہے، سینئر صحافی اور کالم نگار ناصر شیرازی کا کہنا ہے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے حکومت کو ’’ انوکی لاک‘‘ لگا دیا ہے، کچھ عجب نہیں زور آزمائی میں حکومت کا کندھا نکل جائے، کوئی بھی حکومت جب بھی ذرا کمزور پڑتی نظر آئے تو باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ جی کا جانا ٹھہر گیا، صبح گیا یا شام گیا، بیساکھیوں پر کھڑی حکومتیں کمزور ہی ہوا کرتی ہیں، لیکن جب حکومت کی طرف سے اچانک اعلان ہو جائے کہ فلاں جگہ پر تیل کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جو دنیا میں پائے جانے والے ذخیروں میں تیسرا بڑا ذخیرہ ہے یا فلاں جگہ سے سونے کی کانیں دریافت ہوئی ہیں جہاں کئی ہزار ٹن سونا موجود ہے اور اب ان ذخائر کی بنیاد پر قوم کی کایا پلٹنے والی ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ حکومت پلٹنے والی ہے اور مزید دو، تین برس کیلئے نئے جھانسے دیئے جا رہے ہیں کہ بس تھوڑا سا اور صبر کر لیں۔
ماضی گواہ ہے آج سے چار برس قبل خبر سنائی گئی کہ ہمارے سمندر کی تہہ میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے، تیل تو نہ نکالا جا سکا، حکومت کا تیل نکل گیا، اس سے قبل شریف حکومت میں سونے کے ذخائر دریافت کئے گئے، جو بعد ازاں جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا، سوئی گیس کی دریافت ہوئی تو تب بھی یہی کہا گیا تھا کہ ملک قسمت بدل جائے گی ، سندھک سے سونا تو ضرور نکلا لیکن پھر 2ہزار روپیہ تولہ سے ریٹ بڑھ کر آج 2لاکھ روپیہ تولہ سے بہت آگے جا چکا ہے، یہاں سے تیل کا ذخیرہ برآمد ہو یا تیل کے دریا بہہ نکلیں، اس کے ثمرات عام آدمی کو نہیں ملیں گے، ہمارے معدنیات کے خزانے لوٹنے والے، ان پر عیش کرنے والے اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ آئی پی پیز کی تفصیلات دیکھ لیں، گزشتہ برس 979ارب ڈالر کی ادائیگیاں کیپسٹی پیمنٹ کے نام پر کی گئیں۔ گزشتہ 10برس میں 12ہزار ارب ڈالر انہیں دیئے گئے، 1994ء کے بعد سے کی گئی ادائیگیوں کا حساب کریں تو 50ہزار ارب ڈالر انہی کے پیٹ میں چلے گئے۔ کل پاکستان کی کمائی یہ ایک گروپ کھا گیا، قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ ہماری معیشت اس وجہ سے تباہ ہوتی کہ اس پر پینشنر کا بوجھ بہت زیادہ، اندازہ کیجئے گریڈ ون میں بھرتی ہونے والا 40برس کی نوکری کے بعد جب ریٹائر ہوتا ہے تو اسے 20ہزار پنشن نہیں ملتی جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جن کی تنخواہ 10سے 15لاکھ ماہوار اور کم از کم پنشن 10لاکھ ماہانہ ہے۔ گریڈ ون میں کام کرنے والے کو پٹرول، گیس اور بجلی مفت میں نہیں ملتی وہ بھوکا رہے یا کچھ کھائے، زندگی کی بنیادی ضروریات خرید کر ہی استعمال کرتا ہے جبکہ لاکھوں روپے پنشن حاصل کرنے والوں کو مفت پٹرول، بجلی اور گیس کی سہولت دی جاتی ہے۔ خزانے پر بوجھ صاحبان اقتدار اور اشرافیہ ہے، غریب آدمی کی پنشن نہیں۔
گزشتہ 2برس کے دوران پارلیمنٹ میں ایک بھی ایسا بل پیش نہیں کیا گیا جس سے عوام کو کوئی ایک سہولت ملی ہو ، تمام بل، تمام ترامیم اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے پیش کی گئیں۔ جناب نواز شریف اس وقت تک ملک واپس نہ آئے جب تک من پسند چیف جسٹس نہ آئے، وہ آئے تو ریلیف در ریلیف ملنا شروع ہوا، کرپشن کی گرفت کے قوانین بدلے گئے تاکہ نیب سے بچ سکیں۔ تازہ ترین ترامیم کا مقصد بھی خاص ہے، چیف جسٹس کے تقرر میں سینیارٹی کا قانون موجود ہے، اسے تبدیل کر کے 5ججوں کے پینل سے انتخاب کرنے کی خواہش ہے۔ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60برس، ہائیکورٹ کے جج کی عمر ریٹائر منٹ کچھ اور جبکہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی عمر ریٹائرمنٹ 65 برس ہے، اسے بڑھا کر 68کرنے کی خواہش ہے۔ سپریم کورٹ کے 2حصے کرنا بھی پیکیج کا حصہ ہے۔ آئینی معاملات کو دیکھنے والے اور ہوں جبکہ دیگر مقدمات دیکھنے والے اور، کہانی یہ تراشی گئی ہے کہ 60ہزار سے زائد مقدمات فیصلہ طلب ہیں لہٰذا عوامی اور عمومی بہتری کیلئے یہ ترامیم کی جانی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ مقدمات کا یہ انبار کیا انہی دو، چار ماہ میں لگا ہے، اس کے پیچھے تو 30برس کی کہانی ہے، ان 30برسوں میں کون کتنی مرتبہ اقتدار میں آیا یہ کسی کو کیوں یاد نہیں۔
آج ہر شعبہ زندگی میں ہر مرض کا علاج ’’ ایکسٹینشن‘‘ کو سمجھ لیا گیا ہے۔ کچھ قانون روئے زمین پر انسان بناتا ہے، کچھ تبدیلیاں آسمانوں پر ہوتی ہیں، ایسا نہ ہوں ایکسٹینشن کا ایکس ہاتھ سے نکل جائے اور پیچھے صرف ٹینشن ہی رہ جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے والی حکومت اپنے فیصلوں پر عوام سے کس طرح عمل کرائے گی بلکہ کس منہ سے عمل کرائے گی۔ نوشتہ دیوار پڑھنے کی ضرورت ہے، طاقت اور ہٹ دھرمی کے زور پر سب کچھ ہر ایک سے نہیں منوایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد سے اجتناب توہین عدالت کی طرف لے جا سکتا ہے، انجام نااہلی ہو سکتا ہے۔





