فلم، ڈرامہ کے پاکستانی معاشرے پر اثرات

تحریر : یاسر دانیال صابری
آج کل کے ڈرامے دیکھے جائیں تو نظر شرم سے جھک جاتی ہے، حیا سوز مناظر ایک طرف اور جو رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے وہ ایک طرف، ماں باپ، بہن بھائی، شوہر بیوی غرض کسی بھی رشتے کا تقدس و احترام رہا ہی نہیں ہے۔ انسان کی تربیت کا پہلا ادارہ اس کا گھر اور گھر کے افراد ہوتے ہیں، دادا دادی، نانا نانی کے زیر سایہ جو تربیت انسان کو ملتی ہے اس کا کوئی مول ہی نہیں ہے مگر موجودہ دور کے ڈراموں میں ان بزرگوں کو باعث زحمت دکھایا جاتا ہے، موجودہ دور کے ڈراموں کا سب سے برا اثر خاندانی نظام پر پڑا ہے، مغرب کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہی ہمارے ہاں کا خاندانی نظام ہے جو ان کے ہاں ناپید ہے وہاں بوڑھوں کے لیے اولڈ ہائوس اور بچوں کے لیے ڈے کیئر ہیں وہاں کسی رشتے کا کوئی نام نہیں اس لیے وہ مشرق سے بھی خاندانی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں اسی لیے میڈیا کے ذریعے ایسے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں جس کی ضرب اور برا اثر سیدھا سیدھا خاندان پر پڑ رہا ہے۔ ہر رشتے کو اتنا مکس اپ کیا ہوا ہے، کہیں سالی بہنوئی کے پیچھے، تو کہیں بہنوئی سالی کے پیچھے، کہیں بیوی مر جائے تو اس کی چھوٹی بہن سے شادی کر دی جاتی ہے، جبکہ اسی گھر میں لڑکی کا سابقہ منگیتر موجود ہو۔ کہیں لڑکی کی شادی اس کے منگیتر کے بھائی سے ہو رہی ہے، آخر دکھانا کیا چاہتے ہیں؟؟؟ ان سب چیزوں سے صرف اور صرف رشتوں میں نفرت بدگمانی پیدا ہو رہی ہے اور جو چیزیں میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں اس کا اثر حقیقی زندگی پر پڑتا ہے۔ جس سے خاندان کے خاندان تباہ ہورہے ہیں اور معاشرے میں انتشار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ہر چیز کے اچھے اور برے اثرات ہوتے ہیں۔
یہاں بھی اچھے اور برے اثرات رکھتے ہیں۔ ہم ٹی وی فلم ڈرامہ میں وہی چیز دیکھیں جن میں سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش ہو اور اچھی سوچ پیدا ہو ہمیں معاشرے کے اچھے لوگوں کی مثال بنا کر لوگوں کو کو جینا سیکھنا چاہیے۔ ہم نوجوان نسل کو بے حیائی اور منفی سوچ اور غلط کاموں کو پروموٹ کروا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم ان کو برائی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جس سے ان کو ہر کام صحیح لگ رہا ہے جو غلط ہے۔ ہم نوجوان نسل کو برباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کو روکنا ضروری ہے ورنہ ہمارے بچے نوجوان غلط ہاتھوں میں ہوگا اور ان کا مستقبل برباد ہو گا۔
کافی عرصے سے پاکستانی ڈرامے ہماری تہذیب، روایات اور اخلاقیات کے منافی کام کر رہے ہیں۔ جس میں بنیادی ٹارگٹ حیا کا خاتمہ اور رشتوں کے تقدس کا خاتمہ ہے۔ باپ اور شوہر یہ وہ رشتے ہیں جو عورت کے سب سے بڑے محافظ اور سائبان ہیں اور انہی دونوں کو سب سے زیادہ گندا کیا جارہا ہے۔ بے اعتبار کیا جارہا ہے۔ ہر دوسرے ڈرامے میں باپ کو ظالم، بے حس اور حد سے زیادہ سخت گیر دکھایا جاتا ہے اور اس کے برعکس بوائے فرینڈ کو ہمدرد ! شوہر جھوٹا اور بیوفا یا نشئی اور نکما جبکہ بوائے فرینڈ سچا ، وفادار اور ہمدرد !، دوسری جانب قریبی رشتوں پر بھروسہ اور اعتبار ختم کیا جارہا ہے۔
رہی سہی کسر ویب سیریز چڑیلز نے پوری کردی، جس میں اسلامی شعار اور حیا کی علامت حجاب کو نشانہ بنایا گیا ، اس کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ تمام کام مسلسل اور بہت پلاننگ کے ساتھ کئے جا رہے ہیں۔
ڈرامے ایک ایسی تفریح ہیں جو کہ تفریح کے ساتھ ساتھ ذہن سازی کا کام بھی کرتے ہیں انہی کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کو نہ صرف ایک مقصد دے سکتے ہیں بلکہ انھیں اپنی تاریخ سے بھی جوڑ سکتے ہیں جیسے کہ ترکی کی مشہور ڈرامہ سیریل ارتغل غازی نے کیا۔ ہمیں اس تباہی کو روکنا ہوگا۔ اپنی نسلوں کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرنا ہوگی اپنی تہذیب اور روایات کی حفاظت کے لئے عملی قدم اٹھانا ہوگا۔
اسلام تمام اعلیٰ اقدار کے پھولوں کا ایک چمن آراستہ کرتا ہے اور بداخلاقی کے تمام کانٹوں کو پھونک کر راکھ بنا دیتا ہے، اصلاح معاشرے میں سب سے اہم چیز حکومت کی اصلاح ہے۔ اگر حکمران بداخلاق ہوں، لیٹرے اور غاصب ہوں اور برائی کی نشرواشاعت کرنے والے ہوں تو کبھی معاشرے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
ہمارا فرض ہے کہ نیک لوگوں کی شہر شہر اور قریہ قریہ ایک جماعت بنائیں، جس کا پروگرام ہی اصلاح معاشرہ ہو۔ وہ ایک ایک محلے سے بدی کی تمام گندگ اور اخلاقی خیانتیں دور کرنے کا فریضہ انجام دے۔ وہ جوئے، شراب، چرس اور ہیروئن کا قلع قمع کرے۔ وہ حکام کے ساتھ مل کر بدمعاشی کا خاتمہ کرے۔ علمائے دین کو اُبھارے کہ وہ برائی کے خلاف لوگوں کو اُبھاریں۔ وہ یتموں، بیوائوں اور محتاجوں کی دستگیری کرے، وہ اپنے بیت المال سے پسے ہوئے لوگوں کو اوپر اٹھائے اور دبے ہوئے لوگوں کے بوجھ کو اتار کر انہیں معاشرے میں اونچا مقام دلائے، وہ ایک مشینری جذبے سے کام کرے اور لگاتار اور مسلسل محنت سے اخلاق عالیہ کی فصل اگانے اور برائی کے کانٹے چننے میں اپنا سب کچھ نثار کر دے۔





