ٹریفک قوانین ، حادثات، موٹر ویز پر ایمرجنسی ٹراما سینٹرز

تحریر : چودھری فرحان شوکت ہنجرا
ملک میں روزانہ ٹریفک حادثات میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو رہے ہیں اور ان حادثات میں روز بروز اضافہ حکومت، سرکاری اداروں، ٹریفک پولیس اور متاثرہ خاندانوں کیلئے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ ذرا کھلے دل سے اس کا مشاہدہ کریں تو قصور وار ہم عوام نہیں ہیں ؟۔ حکومت اور ٹریفک پولیس متعدد بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ والدین بچوں کو موٹر سائیکل و گاڑی نہ چلانے کیلئے دیں، کیا والدین نے اس پر عملدرآمد کیا، جواب ہے ہرگز نہیں۔ ٹریفک پولیس ہر سطح پر عوام کو ٹریفک قوانین کی پابندی کی پاسداری کرنے کا کہتی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بطور سزا جرمانہ بھی کیا جاتا ہے لیکن عوام تعاون نہیں کر رہے۔ لاہور میں ٹریفک قوانین کی روزانہ ہزاروں خلاف ورزیاں ریکارڈ پر ہیں لیکن عوام کو کوئی پروا نہیں۔ چھوٹے شہروں، قصبوں، دیہی علاقوں میں تو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی ات مچی ہوئی ہے، لوگ اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں ہیں۔ عجیب قوم ہے، ہم بیرون ملک ہر قسم کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں، اپنے ملک واپس آکر بیرون ملک قوانین پر عملدرآمد کرنے کی اس ملک کی تحسین اور دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں، لیکن اپنے ملک کی بے توقیری کرتے ہیں۔ کھلے عام قوانین کی خلاف ورزی پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں، اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر دھر لیے جائیں تو منت سماجت اور ترلوں پر اتر آتے ہیں۔ ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے ملک میں موٹر ویز اور جی ٹی روڈز پر ٹریفک قوانین کی تقسیم نظر آتی ہے۔ جی ٹی روڈ پر نہ ٹریفک پولیس اور نہ ٹریفک قوانین کی پاسداری جبکہ موٹر ویز پر ٹریفک قوانین کی بہت حد تک پابندی نظر آتی ہے۔ حکومت ادارے چاہیں تو سب نظام ٹھیک ہو سکتا ہے۔
ریسکیو 1122کی پنجاب بھر میں روزانہ ٹریفک حادثات کی روزانہ کی رپورٹس رونگھٹے کھڑے کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگر ٹریفک حادثات میں خطرناک رحجانات کو روکنے کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی نہ کی گئی تو پاکستان کی آبادی کا خاص حصہ معذوری کی طرف جائے گا، جس سے غربت میں اضافہ اور خاندان پسماندگی کی طرف جائینگے۔
ہماری تجویز ہے کہ ٹریفک قوانین اور حادثات کے سدباب کیلئے قومی و صوبائی سطح پر کانفرنس بلائی جائے اور اس میں تمام سٹیک ہولڈرز شرکت کریں اور جو فیصلے ہوں ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
ملک بھر میں موٹر ویز پر گاڑیوں کی سپیڈ لمنٹ کے اصول وضع ہیں اور گڈز ٹرانسپورٹ کیلئے وزن لے جانے کیلئے بھی قواعد و ضوابط شامل ہیں، اس کے باوجود ٹریفک حادثات لاپرواہی کی وجہ سے ہو رہے ہیں، جس سے بہت زیادہ جانی مالی نقصان ہو رہا ہے۔ انسانی جانوں کو بچانے کیلئے موٹرویز کے ہر انٹر چینج پر ایمرجنسی ٹراما سینٹرز بنائے جائیں تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت میں بروقت متاثرہ افراد کو موٹر ویز کے ٹراما سینٹرز سے بروقت طبی امداد دے کر ان کی زندگیوں کو بچایا جا سکے، کیونکہ کسی قریبی شہر سے ریسکیو اداروں کے پہنچنے اور پھر مریضوں کو ہسپتال پہنچانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ اگر موٹر ویز پر ایمرجنسی رسپانس ہوگا تو بہت سود مند ثابت ہوگا، اس کے بعد مریضوں کو ریسکیو کرنے کیلئے ایئر ایمبولینس کے ذریعے ہسپتالوں میں شفٹ کیا جا سکتا ہے لہٰذا حکومت اور موٹر وے پولیس منصوبہ بندی کرکے ایمرجنسی رسپانس ٹراما سینٹرز بنانے کے عمل کا آغاز کریں۔
یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ موٹر سائیکل سوار کا لائسنس اب 42دن کی بجائے اسی روز بن جائے گا، بہت ہی قابل تحسین اقدام ہے، اس اقدام سے بائیک رائیڈرز کیلئے انتظار کی گھڑی ختم، وقت کی بچت اور انہیں ذہنی سکون میسر آئے گا۔ سوشل میڈیا پر بھی ٹریفک وارڈنز اس کی اچھے انداز میں پروجیکشن کر رہے ہیں، جو قابلِ ستائش ہے۔ عوام الناس کا بھی قوی، اخلاقی، سماجی فرض بنتا ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کی پابندی کو اپنا شعار بنائیں۔ ہماری ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام سے درخواست ہے کہ وہ ضلع شیخوپورہ کے ٹائون نارنگ میں ڈرائیونگ لائسنس سینٹر بنائیں، اس سے عوام الناس کو شیخوپورہ شہر کی مسافت سے نجات ملے گی، بلکہ ڈرائیونگ ٹیسٹ اور ڈرائیونگ لائسنس سینٹر سے ضلع نارووال۔سیالکوٹ۔گوجرانوالہ کے رہائشیوں کو نارنگ قریب پڑنے سے وہ بھی ڈرائیونگ لائسنس بآسانی بنوا سکیں گے۔







