سانحہ پارلیمنٹ، سپیکر اور مولانا فضل الرحمان

امتیاز عاصی
پارلیمنٹ ہائوس کے ناخوشگوار واقعہ نے سیاسی جماعتوں کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ ہائوس میں پیش آنے والا سانحہ کوئی نیا نہیں تھا لیکن ایک لحاظ سے انوکھا واقعہ تھا جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین نے نہ ہائوس کے تقدس کا خیال رکھا نہ پارلیمنٹ جیسے آئینی ادارے کی حساسیت کی پروا کی۔ سیاسی تاریخ میں اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی مرتبہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا جس میں اسپیکر کے حکم پر سارجنٹ ایٹ آرمز نے بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کو ایوان سے نکال باہر کیا تھا۔ اسی طرح کا دوسرا واقعہ مسلم لیگ نون کے دور میں پیش آیا جب شہید بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر تھیں، جس میں پیپلز پارٹی کے کارکن ایوان کے اندر داخل ہو گئے تھے۔ تاہم تازہ ترین واقعہ نے ماضی میں پیش آنے والے تمام واقعات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عجیب تماشا تھا ارکان اسمبلی کو ایوان کے اندر سے گرفتار کرکے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جایا گیا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے ایوان کا کسٹوڈین ہونے کے ناطے اپنا بھرپور کردار ادا کرکے اپوزیشن رہنمائوں سے داد حاصل کی۔ خصوصا ایاز صادق نے اپوزیشن رہنمائوں کو اپنی ذاتی جیب سے پرتکلف عشائیہ دے کر ماحول کو ٹھنڈا کرکے خوب داد حاصل کی۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے ایوان میں دھواں دار تقریر کرکے ارکان سے داد حاصل کی۔ مولانا کی تقریر کا ہدف آئینی ادارے تھے ان کا کہنا تھا جب ملک کے آئینی اداروں کے تقدس کا خیال نہیں رکھا جائے گا اور ارکان پارلیمنٹ کی بے توقیر ی کی جائے گی تو ایسے ایوان کے ارکان عوام کے مسائل کیسے حاصل کریں گے۔ جیسا کہ آج کل ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کی باز گشت ہے جے یوآئی کے امیر نے حکومت پر واضح کر دیا ہے ان کی جماعت کسی غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کی ہر گز حمایت نہیں کرے گی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو یاد دلایا ماضی قریب میں انہوں نے ججز کی مدت ملازمت کی مخالفت کی تھی لیکن اب حکومت میں رہتے ہوئے وہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کی کس منہ سے حمایت کر رہے ہیں۔ یہ ناچیز مولانا فضل الرحمان کو ناقد تھا لیکن ایوان میں ان کے خطاب نے ہمیں مولانا کی مداح سرائی پر مجبور کر دیا۔ مولانا واقعی زیرک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں وہ کئی حکومتوں کے ساتھ رہ چکے ہیں سیاسی حالات پر انہی گرفت مضبوط ہے۔ ایوان بالا میں مولانا کی جماعت کا حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے آئینی بل کی حمایت نہ کرنے کا اعلان حکومت پر بجلی بن کر گرا ہے۔ خبروں کے مطابق حکومت کو ایوان بالا میں صرف تین ارکان درکار ہیں لیکن حالات سے پتہ چلتا ہے حکومت ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کا بل پیش کرکے دلدل میں پھنس گئی ہے۔ ایک طرف حکومت جمہوری ہونے کی دعویدار ہے دوسری طرف اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ ناروا سلوک نے ان کے جمہوری ہونے کی قلعی کھول دی ہے۔ اپوزیشن کو جلسہ کی اجازت دینے کے بعد جلسہ گاہ میں آنے والے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے سے حکومت کی عوام میں مقبولیت سامنے آگئی ہے ورنہ اگر حکومت کو عوام کی حمایت حاصل ہوتی وہ پی ٹی آئی کے جلسہ میں آنے والوں کو نہ روکتی۔ گو ملک کے عوام مسلم لیگ نون سے پہلے سے نالاں تھے پی ٹی آئی کے جلسہ کو ناکام بنانے کی کوشش کرکے عوام کو مزید نالاں کر لیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی ارکان کی گرفتاری کے بعد جو تذلیل کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ مسلم لیگ نون وفاق اور ملک کے بڑے صوبہ پنجاب میں حکمرانی کر رہی ہے پی ایم ایل نون کی مقبولیت پنجاب کے ضمنی الیکشن میں سامنے آگئی تھی شائد اسی لئے انتخابات میں منصوبہ بندی سے فارم 47کے بل بوتے پر حکمرانی کرنے کی ضرورت پڑی ہے۔ مسلم لیگ نون کو عوام کے حمایت حاصل ہوتی وہ انتخابات میں مبینہ گڑ بڑ سے گریز کرتے۔ سوال ہے پی ٹی آئی کو جلسہ کی کھلی اجازت دینے سے کون سی قیامت آجاتی۔ حکومت میں جمہوری روایات کی ذرا پاسداری ہوتی وہ پی ٹی آئی کو کہیں بھی جلسہ کرنے سے نہ روکتی بلکہ انہیں بغیر اجازت جلسے کرنے کی اجازت دے کر جمہوریت پسند ہونے کا ثبوت دیتی۔ بعض سیاست دان سیاسی امور میں اداروں کی مداخلت کا رونا روتے ہیں اللہ کے بندوں اداروں کو سیاست میں لانے والے آپ لوگ ہی تو ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء لگانے کے لئے خطوط سیاست دانوں نے لکھے تھے۔ دراصل اداروں کی مدد سے اقتدار میں آنے والے کبھی جمہوری روایات کے امین نہیں ہوسکتے۔ سیاسی رہنمائوں میں ملک اور عوام کی ترقی کی فکر ہو وہ کبھی اداروں کی مدد کے خواہاں نہیں ہوتے۔ ہم اس لحاظ سے عمران خان کے ناقد ہیں اسے صاف ستھری سیاست کرنی چاہیے تھی اداروں کی مدد سے اقتدار میں آکر اسے کیا حاصل ہوا۔ عمران خان نے ملک کے عوام کو کچھ نہیں دیا البتہ ملک کو لوٹنے والوں کو بے نقاب کرکے اس نے عوام کی بڑی حمایت حاصل کی ہے۔ اقتدار میں رہتے ہوئے اس کے چند ایک اقدامات نے اسے رسوا کیا۔ اسے اقتدار میں لانے والوں کو یہ امید نہیں تھی وہ ان کی بات نہیں مانے گا ورنہ وہ ان کی خواہشات کے مطابق کام کرتا رہتا تو اسے اقتدار سے محروم نہیں ہونا پڑتا۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا آغاز تبھی شروع ہو گیا تھا جب اس نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ عثمان بزدار کے حوالے کی۔ وہ عبدالعلیم خان کو وزارت اعلیٰ سونپ دیتا اسے کبھی اقتدار سے محروم نہ ہونا پڑتا۔ عمران خان کے بہت سے قریبی ساتھیوں نے اس کے ساتھ وفاداری کی بجائے بے وفائی کی وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے رہے۔ چنانچہ یہی چند باتیں ایسی تھیں جن کی بنا اسے وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا ۔





