Columnمحمد مبشر انوار

فیصلہ ہو گیا!!! (حصہ دوم)

محمد مبشر انوار(ریاض)
گزشتہ تحریر کا اختتام اس فقرے پر کیا تھا کہ ’’ رہی بات ان خطرات سے بذریعہ سفارت کاری بچا جا سکتا تھا تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جو معاشی صورتحال ہے، اس میں پاکستان سفارت میں کس قدر موثر ہو سکتا ہے اور جو سیاسی رہنما اس کا تقاضہ کر رہا ہے، اس کے دور حکومت میں پاکستان سفارت کاری کے معاملے میں کہاں کھڑا تھا؟‘‘۔ عمران خان کے مخالفین اس پر الزام دھرتے ہیں کہ اس شخص نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا اور اس کے دوستوں کو متنفر کیا، اس حقیقت میں کتنی صداقت ہے اور کتنا مبالغہ ہے، قارئین اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں تاہم عمران خان کے ووٹرز و سپورٹرز اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ عمران خان کی وجہ سے پاکستان سفارتی سطح پر اپنے دوستوں سے دور ہوا ہے۔ بطور سیاسی طالبعلم کسی بھی لکھاری کا یہ فرض منصبی ہے کہ حقائق کو بلا کم و کاست، اس طرح ضبط تحریر میں لائے کہ اظہار بھی ہو جائے اور کسی کے دامن پر چھینٹا بھی نہ پڑے، مراد اپنا مطمع نظر بیان کر دیا جائے، عوام کو آگاہی دی جائے، پاکستانی مفادات کا اظہار کیا جائے، باقی ووٹرز سپورٹرز کی اپنی مرضی ہے کہ وہ جس سیاسی جماعت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، جائیں، جسے ووٹ دینا چاہتے ہیں، ووٹ دیں۔ میں نے اپنی ایک گزشتہ تحریر ’’ ایک سال۔۔۔‘‘ میں تفصیلا لکھا تھا کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں ’’ بہرکیف ریاست صرف ان دو امور پر بروئے کار نہیں آتی بلکہ اقوام عالم میں عزت و وقار قائم رکھنے کے لئے اور محاذ بھی ہوتے ہیں، جن پر گرفت ہونا ازحد ضروری ہے۔ ریاستوں کے مابین تعلقات شخصیات کی مرہون منت نہیں ہوتے البتہ شخصیات اپنی گفتگو، رکھ رکھائو اور سفارتی گفتگو سے ان تعلقات کو مسلسل تقویت بخشتے ہیں جبکہ کسی ایک شخص کے منظر سے ہٹنے پر، دو ریاستوں کے تعلقات کبھی متاثر ہوتے دکھائی نہیں دئیے البتہ اتنا ضرور ہوتا ہے کہ کچھ وقت کے لئے تعلقات میں گرمجوشی کا عنصر مفقود ہو جاتا ہے۔ ریاست پاکستان میں خارجہ امور اور دفاع کے حوالے سے، یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ دونوں محاذ ایک عرصہ سے مقتدرہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں اور سویلین حکمرانوں کے لئے یہ شجر ممنوعہ ہی ہے، ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو کہ جن کا اپنا سیاسی قد کاٹھ اس قدر بڑا تھا کہ وہ ان دونوں معاملات میں عالمی سطح پر بخوبی بروئے کار آتے ہوئے، پاکستانی مفادات کا تحفظ کر رہے تھے، علاوہ ازیں، کسی دوسری حکومت کو یہ ذمہ داری کاملا تفویض نہیں ہوئی۔ مقتدرہ کس طرح ان تعلقات کو سنبھالے ہوئے ہے، یہ حقیقت بھی سب پر واضح ہے، لوگوں کی اس پر مختلف رائے ہے کہ مقتدرہ کا یہ منصب نہیں ہے کہ ان معاملات کو دیکھے تو کئی ایک ایسے بھی ہیں، جو مقتدرہ کے اس کردار کو بھرپور سپورٹ کرتے ہیں، تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ یہ انتہائی نازک معاملات ہیں اور ان سے عہدہ برآء ہونے کے لئے کسی بھی شخصیت کو ان کی نزاکت سے بہرہ مند ہونا انتہائی ضروری ہے کہ ان معاملات میں معمولی سی غلطی بھی ریاستی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کسی سربراہ مملکت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان امور پر انتہائی سوچ سمجھ کر، ناپ تول کر بات کرے تا کہ دو ریاستوں کے درمیان تعلقات پر آنچ نہ آئے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے پر پاکستان کے بہت سارے دوست ممالک نے خوشی کا اظہار کیا تھا، اس کی وجہ عمران خان کی اپنی شخصیت کے علاوہ ان کی پاکستان سے محبت اور ایمانداری کو تصور کیا جاتا تھا، دوست ممالک سمجھتے تھے کہ عمران خان کے آنے سے پاکستان درست سمت میں گامزن ہو جائیگا اور مسائل سے نکل آئے گا۔ اس حوالے سے مشرق وسطی کے دوست ممالک نے دیدہ و دل بچھائے، تمام سہولتیں فراہم کی لیکن بدقسمتی سے عمران خان سفارتی آداب کے منافی گفتگو کر کے نہ صرف ان دوست ممالک کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی بلکہ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ تارکین وطن کو نکالنے کی دھمکی تک دے ڈالی، عمران خان نے اس حد تک سفارتی آداب کی توہین کی کہ ایک دوسرے سربراہ حکومت کو اس سے آگاہ کرکے، سبکی کا باعث بنے۔ یہ معاملات کس طرح سنبھالے گئے، کون کون اس میں مدد کو پہنچا، کس نے ریاستی مفادات کو محفوظ بنایا، اس سے ہر کوئی واقف ہی ہوگا کہ پس پردہ کون ان معاملات کو سنبھال سکتا ہے، سو انہوں نے سنبھال لیا۔ آج عمران خان کی اسیری کو ایک سال ہو گیا، تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود، مقدمات میں قوانین کی دھجیاں اڑنے کے باوجود، بظاہر یوں دکھائی دے رہا ہے کہ ایک طرف اقتدار کی عملی سیاست میں عمران خان کی موجودگی ممکن نہیں تو دوسری طرف آزاد فضائوں میں سانس لینا بھی عمران کے لئے بظاہر ممکن نہیں ہے تاوقتیکہ مقتدرہ کو یقین دہانی نہ کروائی جائے کہ مستقبل میں مزید ایسی غلطیوں کا امکان نہیں ہوگا۔ تاہم اس کے باوجود یہ کہنا کہ عمران خان کا فوری طور پر آزاد ہونا اور پھر اقتدار کا حصول، ایک سہل مرحلہ ہو گا ،مشکل ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں البتہ معجزات کا ہونا بھی بعید از قیاس ہرگز نہیں کہ ابھی تو صرف ایک سال گزرا ہے۔۔۔۔‘‘
یہاں تحریک انصاف کے ورکرز یقینا عمران خان کی شخصیت کی مضبوطی کا حوالہ دیں گے کہ نہ صرف وہ ایک مضبوط بلکہ سحر انگیز شخصیت کے حامل ہیں، جس پر کسی کو بھی نہ اعتراض ہے اور نہ انکار ہے لیکن ایسی سحر انگیز ، کرشماتی و مضبوط شخصیت سے اگر ملکی مفادات کے لئے فائدہ نہ اٹھایا جا سکے بلکہ ملکی مفادات کو زک پہنچے تو ایسی شخصیت انفرادی طور پر جو مرضی کرے لیکن کسی ریاست کی نمائندگی کرنے کی اہل تصور نہیں ہوتی۔ پاکستان جن مسائل کا شکار ہے، کیا وہ کسی ایک شخص کی انفرادی شخصیت سے باہر نکل سکتے ہیں یا اس کے ساتھ ساتھ خارجہ امور پر دسترس اور سفارتی آداب سے آشنائی و واقفیت بھی ضروری ہے کہ جن کی عدم موجودگی فائدے کی بجائے نقصان پہنچا سکتی ہے؟ بہرکیف اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مضبوط تعلقات نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ ریاستی سطح پر بھی انتہائی مشکل مراحل سے گزر کر تخلیق کئے جاتے ہیں اور کسی بھی صورت ان تعلقات کو غیر سنجیدہ او رنا تجربہ کاری کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا بالخصوص پاکستان جیسی ریاست کے لئے یہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں کہ جس کا انحصار کئی ایک معاملات میں ایسے دوستوں پر ہو۔ لہذا یہ سمجھنا کہ عوامی طاقت یا عوامی حمایت کے بل بوتے پر ان تعلقات کو نقصان پہنچنے دیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے۔ میری دانست میں یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں اکثریت رکھنے کے باوجود، تحریک انصاف کو اقتدار حاصل نہیں کرنے دیا گیا کہ ایک طرف عالمی سطح پر تعلقات کو مستحکم کرنے کی سوچ موجود ہے تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ عمران خان اپنی افتاد طبع کے باعث، ممکنہ طور پر اپنے رجیم چینج میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ یہ امر برمحل ہے کہ رجیم چینج میں ملوث افراد کو، جمہوری طرز حکومت میں اس کی اجازت قطعی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ سیاست میں ملوث ہوں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ افق سیاست پر چمکنے والوں کی اکثریت بشمول عمران خان اسی نرسری سے نمودار ہوئی ہے گو کہ عمران خان کی اپنی سیاسی جدوجہد سے انکار نہیں لیکن اقتدار تک رسائی بہرطور ’’ قبولیت‘‘ کی سیڑھی کے بعد ہی ممکن ہوئی تھی، جس کی تصدیق شہباز شریف کے انٹرویوز میں موجود ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل ہی وفاقی کابینہ پر مقتدرہ سے بات چیت ہو چکی تھی لیکن نواز شریف کی حتمی اجازت نہ ملنے کے باعث، اقتدار عمران خان کو ملا تھا۔ یہ کہنے میں بھی مضائقہ نہیں کہ ایک طرف تو عمران خان کی ناتجربہ کاری یا ضرورت سے زیادہ خود پر اعتماد، عالمی تعلقات کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا تو دوسری طرف موجودہ حکمرانوں کی فدویانہ و ملتجیانہ انداز فکر بھی پاکستانی حیثیت کے لئے کسی بھی طور فائدہ مند نہیں ہے کہ عالمی تعلقات برابری کی سطح پر ہی چلتے ہیں جبکہ موجودہ حکمرانوں کی ناقص ترین معاشی پالیسیوں کے باعث بھی پاکستان اپنی حیثیت عالمی سطح پر کھو چکاہے۔
اس سارے پس منظر میں تحریک انصاف کا موجودہ جلسہ اور بعد ازاں اقدامات اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ مقتدرہ کی جانب سے نرمی کے پس پردہ خواہشات کچھ اور تھی ، ایک اور نو مئی کی توقعات پوری نہ ہونے کے باعث فقط زبانی جارحانہ طرز تکلم بھی قابل قبول ثابت نہیں ہوا اور تحریک انصاف کے خلاف سخت کارروائی ہو چکی ہے ۔ تحریک انصاف کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے اور انہیں یہ سوچنے کی سخت ضرورت ہے کا ’’ حقیقی آزادی‘‘ کے لئے ان کا لائحہ عمل نظرثانی کا متقاضی ہے کہ مقتدرہ کے ساتھ اس طرح براہ راست بروئے کار آنے سے حقیقی آزادی کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ بہرحال پاکستان کے سفارتی تعلقات میں مقتدرہ کا گہرا اور وسیع تر کردار موجود ہے۔ لہذا اپنی جگہ بنانے کے لئے ایک طرف ان امور میں پختگی و بالغ نظری و سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا تو دوسری طرف بہرصورت مقتدرہ کونہ صرف اعتماد بلکہ ہر لمحہ تبدیل ہوتے عالمی معروضی حالات میں باہمی ہم آہنگی پیدا کرکے پاکستانی مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ تاہم بہت سے دوست اس پر چین بہ جبیں ہیں کہ اگر ریاست پاکستان پر اعتماد ہو اور تعلقات کے حوالے سے حکمران طبقہ و اعلی حکام متفکر ہوں تو ان کے اثاثے بیرون ملک کی بجائے پاکستان میں کیوں نہیں ہیں بہرکیف حقائق اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ مقتدرہ کی جانب سے اس وقت تک قبولیت نہیں ہو گی جب تک مذکورہ بالا معاملات پر یقین دہانی و تسلی و تشفی نہیں ہو جاتی۔

جواب دیں

Back to top button