انسان کی تخلیق

علیشبا بگٹی
اس کائنات میں سب سے بڑی حقیقت اور خالق کائنات کا شاہکار خود انسان کا اپنا وجود ہے۔ ہمارا جسم کئی ہزار کھرب ایٹموں کا مجموعہ ہے۔ ایٹم کائنات میں ہر شے کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف ایک سینٹی میٹر میں دس کروڑ ایٹم سما جائیں۔ یہ ایٹم پھر مختلف سالمات ڈی این اے، خامرے، پروٹین، چکنائی، کاربو ہائیڈریٹ بناتے ہیں۔ سالمات سے پھر جین اور خلیے بنتے ہیں۔ انسانی جسم میں 200اقسام کے خلیے ملتے ہیں۔ ایک انسانی جسم میں 39ٹریلین خلیے ہوتے ہیں۔ ہر ایک خلیے میں 46کروموسومز ہوتے ہیں اور ہر کروموسوم میں دو ڈی این اے ہوتے ہیں۔ ڈی این اے کے اندر ایک دھاگہ ہوتا ہے۔ اس دھاگے کی لمبائی چھ 6فٹ ہوتی ہے۔ اگر ایک انسان کے تمام خلیوں کے ڈی این اے کو زمین پر بالکل ایک سیدھی لائن میں رکھ دیں۔ تو یہ لمبائی 10ارب کلومیٹر بنتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے، روزانہ انسانی جسم کے 70تا 80ارب خلیے چل بستے ہیں۔ ان کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں۔ ہر خلیہ اپنے فرضِ منصبی کو جانتا ہے کہ کس طرح کیا کام سر انجام دینا ہے۔ اپنے حصے کا کام کرکے چلا جاتا ہے۔ قادر ِ مطلق نے روئے زمین پر آج تک کھربوں انسان پیدا کئے ہیں۔ اس طرح کہ سب کے خون کا رنگ ایک ہے۔ سب کے پاس ایک جیسا جسمانی ڈھانچہ ہے۔ سب کو دو آنکھیں، دو کان، دو ہاتھ، دو ٹانگیں، ایک ناک، ایک سر اور ایک منہ سے نوازا ہے۔ لیکن صناعی کا معجزہ ملاحظہ ہوکہ ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی۔ اربوں انسانوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی بالکل کاپی نہیں ہوتا۔ خلیوں کے اندر پورا نظامِ حیات ہے۔ جسے سائنس نے پچھلے 35سال میں ڈھونڈ نکالا ہے اور جس کے نتیجہ میں جینیات کی ایک پوری نئی سائنس اُبھر کر سامنے آگئی ہے۔ دادا، پردادا، نانا، پرنانا اور ماں باپ کے یہی جین بچے میں منتقل ہوتے ہیں۔ تو وہ کالا یا گورا ہوتا ہے، اس کی آنکھیں نیلی یا بھوری یا سیاہ ہوتی ہیں اور اُس کے بال کالے، بھورے یا سنہری ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ اثرات بچے تک اِس کے کئی پشتوں کے جین لاتے ہیں۔ ساری خصوصیات ان جین کے اندر پنہاں ہوتی ہے۔ جو ایک خلیہ اپنے اندر چھپائے ہوتا ہے۔ انسانی جسم کی انگلیوں کے لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں کھاتیں، گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں ہیں اور جو دنیا میں نہیں رہے ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کر کے یہ ثابت کرتا ہے ۔۔۔۔۔ کہ ہے کوئی مجھ جیسا ڈیزائنر ؟؟ کاریگر ؟؟ آرٹسٹ ؟؟ مصور ؟؟ تخلیق کار ؟؟؟ حیرانگی کی انتہا تو اس بات پر ختم ہوجاتی ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں۔
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔
ہر انسان کی تمام ممکنات اس دھاگے کے اندر سمائی Codedہوتی ہے۔ اس کیمیاوی سالمے کو DNAکے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جس کو زندگی کا دھاگا کہنا موزوں ہو گا۔ اس کے اربوں یونٹ ایک خلیے میں موجود ہوتے ہیں۔ DNA نہ صرف نسل اور جینیات کی کنجی ہے بلکہ یہی وہ قوت ہے جو خلیے اور جینیات دونوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہر فرد کی شخصیت کی پوری خصوصیات پہلے ہی سے DNAکی ٹیپ میں ریکارڈ ہوتی ہیں۔ جس کی تفصیلات اگر تحریر میں لائی جائیں تو بڑے سائز کے ایک لاکھ صفحات میں سمائیں۔ DNAجو اتنی چھوٹی سی ہوتی ہے۔ جس کو دیکھنے کے لئے ایک خوردبین کام نہیں کر سکتی، اس میں معلومات و ہدایات کا اتنا عظیم ذخیرہ محفوظ کر دینا اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا ایک عظیم کرشمہ ہے۔ انسانی دماغ میں 25ارب سے زیادہ نیورون ہوتے ہیں۔ یہ اپنا کام ہمہ وقت کرتے ہیں حتیٰ کہ نیند کے دوران بھی اُن کا کام اس طرح جاری رہتا ہے۔ جہاں تک اس کی ذہنی استطاعت کا تعلق ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انسان نے اپنے اسی ذہن کو استعمال میں لاتے ہوئے کائنات کی تسخیر کا لامحدود سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اور قلب کو دیکھئے جو خود تو چھوٹا سا ہوتا ہے۔ یعنی اندازاً نصف پونڈ کے برابر لیکن اس میں دو پمپ ہوتے ہیں۔ ایک پھیپھڑوں کو خون کی ترسیل کے لئے تاکہ وہاں سے آکسیجن جذب کر سکے۔ دوسرا اس صاف شدہ خون کو سارے بدن میں دوڑانے کے لئے۔ ایک آدمی کی اوسط زندگی میں دل 3لاکھ ٹن خون پمپ کرتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ یہ اپنی بجلی بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ایک آدمی ستر سال زندہ رہے تو دل 2کھرب دفعہ دھڑکتا ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے اور دیگر مخلوقات میں سب سے افضل و برتر ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کے اشرف ہونے کا ایک اہم راز اس کے دیکھنے، سننے کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کا صاحب عقل اور فہم و ادراک کا حامل ہونا ہے۔ ٔ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی، نیز اچھے برے کے درمیان تمیز کرنے پھر اپنے ارادہ سے کسی چیز کو اختیار کرنے کی وہ قوت و صلاحیت دی جو کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں ۔ اسی عقل و شعور پر انسان کو مکلف بنایا کہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے من مانی زندگی نہ گزارے بلکہ اپنے معبود حقیقی کو پہچان کر اسی کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ مگر انسان نے نفس خواہشات اور شیطان کی پیروی میں ہمیشہ اپنے فرائض ِ منصبی کو پس ِ پشت ڈالے رکھا۔ اسے جہاں ذرا اختیار ملا، کچھ شوکت نصیب ہوئی، یہ خدا کا شکر بجا لانے کی بجائے خود خدا بن بیٹھا۔
جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ۔۔ ’’ اور یقین والوں کیلئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی، کیا تم دیکھتے نہیں ہو‘‘۔
’’ بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘ ۔
’’ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کرینگے‘‘۔







