Column

زور آور انقلاب

سیدہ عنبرین
اسلام آباد سے قریباً 20کلو میٹر دور جلسہ ختم ہوئے کئی روز بیت گئے ہیں لیکن زمین سے بہت اوپر ایک جلسہ جاری ہے اور شاید لاہور میں ہونے والے جلسے تک جاری رہے گا، اپوزیشن کو جلسوں، جلوسوں کی اجازت نہ دینا، دے کر اسے منسوخ کر دینا سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے، جلسے کی منسوخی ہوتی تو نظریہ ضرورت کی بنا پر ہے لیکن کہا جاتا ہے یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کی گئی ہے۔ جلسے سے قبل جلسہ نہ ہونے کیلئے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کرنا جدید فیشن ہے، جس میں لیڈران اور کارکنان کی پکڑ دھکڑ ضروری سمجھی جاتی ہے، جبکہ جمہوریت کے حسن کو چار چاند لگانے کیلئے جلسہ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل جلسہ گاہ کے قریب ایک مشتبہ بیگ ضرور برآمد ہوتا ہے، جس میں بارودی مواد ہوتا ہے۔ جمہوریت کے حسن سے نگاہیں خیرہ کرنا مقصود ہو تو ایک مشتبہ شخص گرفتار کیا جاتا ہے جس سے قبضے سے پستول برآمد ہوتا ہے، بارودی مواد سے بھرے بیگ اور مشتبہ مسلح شخص کی اس قدر تشہیر کی جاتی ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ یہی دونوں جلسے کے مہمان خصوصی ہیں اور دونوں کی آمد ہو چکی ہے۔ یہ تمام اہتمام اس لئے کیا جاتا ہے کہ لوگ جلسے میں مارے خوف کے نہ آئیں، لوگ پھر بھی آ جاتے ہیں، پنڈال بھر جاتا ہے، جلسہ کامیاب رہتا ہے، جس میں ہزاروں افراد بھی شامل ہوں تو صبح کے اخبار، ایک دو کو چھوڑ کر سبھی خبر دیتے ہیں کہ جلسے میں 5ہزار افراد تھے، خفیہ ایجنسیاں بتاتی ہیں یہ تعداد ساڑھے 4ہزار تھی جبکہ سرکاری ترجمان یہ بتانا فرض اولین سمجھتے ہیں کہ جلسے میں دیہاڑی دار افراد کو پیسے دے کر لایا گیا تھا، پیسے لیتے یا دیتے ہوئے پہلے سے ریکارڈ کردہ کلپ ریلیز کئے جاتے ہیں۔ سرکاری ٹی وی یا سرکار کی طرف سے خصوصی ہدایت یافتہ ٹیمیں ایسے ریکارڈ کردہ کلپ خاص اہتمام سے بار بار چلاتی ہیں، جن میں جلسہ گاہ میں موجود خواجہ سرائوں کے کلوز اپ دکھائے جاتے ہیں، ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ یہ پارٹی خواجہ سرائوں کی پارٹی ہے یا ان میں بہت مقبول ہے۔ پی ٹی آئی نوجوانوں اور خواتین کی پارٹی ہے، جس میں بزرگ بھی نظر آتے ہیں، یہ الگ بات کہ یہ بزرگ نوجوانوں جیسا جذبہ اور ان جیسا لائف سٹائل رکھتے ہیں، جسے کیمرے آنکھ سے پوشیدہ رکھنا محال ہوتا ہے۔ بزرگ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ ’’ ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ شوخ رنگوں کے کپڑے پہنے رقص میں پیش پیش نظر آتے ہیں اور خواتین کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، خواجہ سراء اس رونق میں اضافہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، ان کے خیال کے مطابق ان کے حقوق کا خیال اگر کسی سیاسی جماعت نے کیا ہے تو وہ صرف پی ٹی آئی ہے، جبکہ نوجوان طبقہ اسے اپنی امیدوں کا مرکز قرار دیتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اقتدار کی چار، چار باریاں لے کر قوم کی تقدیر بدلنے کی خواہش رکھنے والوں کو چار سو باریاں بھی دے دی جائیں تو وہ اپنی تمام تر توجہ اپنی اور اپنے خاندان کی تقدیر بدلنے میں لگائیں گے، ان کے کاسہ گدائی میں عوام کیلئے کچھ بھی نہیں ہے، ایسی سیاسی جماعتوں، ان کی قیادتوں اور خاندانوں سے نفرت بڑھ رہی ہے، جنہیں اپنے خاندان کے افراد کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا، نفرت کا ووٹ بڑھ رہا ہے، انتخابی نتائج اس کے گواہ ہیں، یہی ووٹ پی ٹی آئی کی طرف پلٹتا ہے، انہوں نے اپنا طرز عمل، سوچ اور اقربا پروری کا چلن نہ بدلا تو آئندہ انتخابات میں تمام تر ظلم، جبر ، پکڑ دھکڑ، اغوا برائے مقصد خاص، انتخابی نشان کی ڈکیتی اور دیگر جملہ انتظامات کے باوجود صفایا ہوتا نظر آتا ہے ۔ نئی آئی جی آئی بھی بنا لی گئی تو یہ پرانا انتظام نئی نسل کے سیلاب میں بہہ جائے گا۔ اقتدار کی آخری باری لینے والوں کیلئے آخری موقع ہے، عوام کو ریلیف دیں، پارٹی اور حکومتی عہدے اپنے اہل خاندان سے واپس لیں، طرز زندگی سادہ بنائیں، عوام کو احساس دلائیں کہ وہ ان میں سے ہیں، ان کے حاکم نہیں ہیں، قول و فعل کے تضاد کو ختم کریں، اپوزیشن کو برداشت کریں، صرف آپ کی عورتیں قابل عزت نہیں ہیں ملک میں بسنے والی ہر عورت قابل احترام ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا کسی بھی طبقے سے ہو، یہ احترام مردوں کیلئے بھی نظر آنا چاہئے، اپنے دامن پر لگے کرپشن کے داغ دھوئیں، غلطیوں کا اعتراف کریں، لوٹ مار سے توبہ کریں، جو اربوں ڈالر لوٹ کر بیرونی ممالک کے اکائونٹس میں جمع ہیں وہ رضاکارانہ واپس لائیں، لہو نچوڑنے والے ٹیکس ختم کریں، بنیادی اشیائے ضروریہ کو عام آدمی کی قوت خرید کے قریب پہنچائیں، اللے تللے چھوڑیں، قرض لینا بند کریں ،اپنے وسائل میں زندگی گزارنے کا سبق پڑھیں اور پڑھائیں، سیاسی اور سماجی انکروچ منٹ ختم کریں، قبضہ گروپوں کے سر پر پارٹی نہ چلائیں، فراڈیوں اور انٹرنیشنل فراڈیوں کی خدمات پر انہیں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز دے کر ان قومی اعزازات کی بے عزتی نہ کریں۔ علم حاصل کرنے والوں اور علم تقسیم کرنے والوں کی قدر کریں، استاد کے وقار میں اضافہ کریں، قوم کو حقیر نہ سمجھیں، اسے فقیر نہ بنائیں، حکومتی وسائل کو اجاڑتے ہوئے اسے لیپ ٹاپ، سکوٹیوں کی رشوت نہ دیں، سیاسی رشوت کے بدلے کوئی کسی کو ووٹ نہیں دیتا، ایسا ہوتا تو آج حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوتی، اسے تانگہ پارٹیوں کی بیساکھیوں کی ضرورت پیش نہ آتی۔ افواج پاکستان کے خلاف اپنے دل سے بغض اور کینہ ختم کریں، ہمارے بیٹوں اور بھائیوں کی قربانیوں سے پاکستان قائم ہے، ان کے لہو کا سودا نہ کریں، اس بات پر ناز کرنا چھوڑیں کہ آپ عقل کل ہیں، آپ نے اپنے وژن سے اپنی لڑائی پی ٹی آئی کے گلے ڈال دی ہے۔ یاد رکھیں تماشا دیکھنے والے کبھی خود تماشا بن جاتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی کوششیں کریں کہ مائینس ون نہیں ہوا مائینس ٹو ہوا ہے، احمقانہ فیصلے جاری رکھے گئے، لوٹ مار کا کلچرل جای رہا، اقتصادی حالت کو بہتر نہ بنایا جا سکا، قرضوں کے انبار بڑھتے رہے تو مائینس آل ہو سکتا ہے۔ حالات تیزی سے اسی رخ پر جا رہے ہیں، ہر آنے والے دن کو بونس سمجھیں، بغیر کچھ کئے بونس سمیٹنے کی کوششیں خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ خطروں کے کھلاڑی نہ بنیں، خطروں کے پیش نظر تیار جہاز شاید عین وقت پر پرواز نہ کر سکیں، کرپشن کے مقدمات ختم کرنے کیلئے قانون نہ بدلیں، جنہیں اس مقصد کیلئے بدلا گیا ہے انہیں مجرموں کو پکڑنے کیلئے ایک مرتبہ پھر بدلیں، جعلی انقلابیوں کو اپنی صفوں سے نکالیں، جو معصوم انسانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کر رہے ہیں، نوشتہ دیوار بڑھنے کی بجائے آنکھیں بند رکھی گئیں تو حقیقی انقلاب اچانک آ جائے گا، جو بنگلہ دیشی انقلاب سے زیادہ زور آور ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button