دو ہفتے کی مہلت
رفیع صحرائی
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا جناب علی امین گنڈا پور نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مخصوص جوشیلے انداز میں حکومت کو وارننگ دی ہے کہ دو ہفتے میں ان کے لیڈر عمران خان کو رہا نہ کیا گیا تو پھر وہ خود ان کو رہا کروا لیں گے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایک صوبے کے منتخب وزیرِ اعلیٰ نے یہ الفاظ کہے ہیں جو اپنے منصب کے لحاظ سے قانون کی حکمرانی کا ناصرف خود پابند ہے بلکہ اپنی پورے صوبے میں قانون کی حکمرانی پر عمل درآمد کروانے کا ذمہ دار بھی ہے۔ اس کی زبان سی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جیل توڑ کر کسی شخص کو رہا کروانے کا بھرے جلسے اور میڈیا کے سامنے اعلان کرنا قانون کی گرفت میں آتا ہے یا نہیں، اس کا پتا تو قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کو ہو گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ واقعی ایسا کر گزریں گے یا یہ محض دعویٰ اور دھمکی ہے۔
چند ہفتے پہلے بھی جناب علی امین گنڈا پور اڈیالہ جیل پر چڑھائی کر کے اپنے لیڈر کو آزاد کروانے کا دعویٰ کر چکے ہیں جس کا جواب بھی انہیں ریاست کی طرف سے فوراً ہی دے دیا گیا تھا کہ وہ ضرور تشریف لائیں، ان کا ’’ شایانِ شان‘‘ استقبال کیا جائے گا۔ شایانِ شان ہم نے اپنی طرف سے مہذب زبان میں لکھا ہے ورنہ ادھر سے تو بہت سخت الفاظ استعمال کیے گئے تھے جن میں منہ اور تھپڑ کا ذکر بھی آتا ہے۔
گزشتہ ہفتے اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان کی رہائی کے لیے ایک کروڑ سٹوڈنٹس کے دھرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ انہی دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں پی ٹی آئی کا جھنڈا اٹھائے کل چھ عدد سٹوڈنٹس کو دکھایا گیا تھا جو نعرے مارتے ہوئے غالباً پشاور کے کسی بازار سے گزر رہے تھے۔ یقینی طور پر ان کا رخ اڈیالہ جیل کی طرف ہی ہو گا مگر جانے کس ناہنجار نے منت ترلا کر کے یا زبردستی انہیں راستے ہی میں روک لیا اور وہ ’’ منزلِ مقصود‘‘ تک نہ پہنچ پائے۔
ہمارے شہر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گائوں بونگہ صاحبہ میں ’’ بوہگی‘‘ نام کا ایک میر عالم رہا کرتا تھا۔ قریباً پچاس سال پہلے کا مبینہ واقعہ ہے۔ وہ غربت و افلاس سے بہت تنگ تھا۔ اس نے اپنی غربت دور کرنے کی ایک ترکیب سوچی کہ تمام برادری کی دعوت کر کے ان
سے مالی امداد حاصل کی جائے۔ اس نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت پر بلوا بھیجا۔ مقررہ روز ساری برادری اس کے گھر اکٹھی ہو گئی۔ دن کے تین بج گئے۔ بھوک سے سب کا برا حال تھا مگر کھانا نظر نہیں آ رہا تھا۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ بوہگی ایک پلیٹ میں ابلے ہوئے دیسی چاول لایا اور تمام مہمانوں کی ہتھیلی پر چند دانے چاولوں کے رکھ کر بولا۔
’’ بھائیو! انہیں چند دانے نہ سمجھنا، مکمل کھانا سمجھ کر کھا لو۔ میرا ہاتھ بہت تنگ ہے۔ آپ سب لوگ میری مدد کرو‘‘۔
مہمانوں کو جتنا بھی غصہ آتا کم تھا۔ خیر انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے ایک بزرگ کو اپنا نمائندہ چنا۔ اس بزرگ نے ایک تنکا لیا، اسے پلیٹ میں رکھا اور بوہگی میر عالم کو پیش کرتے ہوئے بولا
’’ لے ایہہ ساڈے ولوں امداد ای۔ ایہنوں ککھ نہ سمجھیں، لکھ سمجھیں‘‘۔
( ہماری طرف سے یہ امداد ہے۔ اسے ایک تنکا نہیں بلکہ ایک لاکھ روپے سمجھنا)۔
ہم بھی ان چھ عدد طلبہ کو ایک کروڑ سمجھنے میں ذرا بھی متامل نہیں ہیں۔ افسوس انہیں اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے اڈیالہ نہیں پہنچنے دیا گیا۔
اب ایک مرتبہ پھر بھرے مجمعے میں اور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے جناب علی امین گنڈا پور نے دو ہفتے بعد جیل توڑ کر اپنے لیڈر کو رہا کروانے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ اپنی دھمکیوں، دعووں اور باتوں کے برعکس ابھی تک تو جناب علی امین گنڈا پور محض ’’ درشنی پہلوان‘‘ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس مرتبہ وہ واقعی سلطان راہی کا روپ دھارتے ہیں یا حسبِ سابق کامیڈین ثابت ہوتے ہیں۔ سنا ہے ماضی قریب میں انہیں اپنے صوبے کے چیف سیکریٹری سے سخت شکایات پیدا ہوئی تھیں مگر وہ کوشش اور خواہش کے باوجود اسے تبدیل نہیں کروا سکے تھے۔ مقتدر حلقی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب کبھی میٹنگ میں یا بلوائے جانے پر جناب علی امین گنڈا پور ان کے پاس تشریف لاتے ہیں تو بڑے شریف بچے بنے ہوتے ہیں۔ سر جھکا کر خاموشی سے سب کچھ سن لیتے ہیں۔ انہیں غصہ آنا تو دور کی بات ہے کبھی کچھ ناگوار بھی نہیں گزرتا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر پی ٹی آئی کے ورکرز ان کے دبنگ خطاب کو زیادہ سیریس نہ لیں۔ یہ خطاب ان کی مجبوری تھی کہ مقتدرہ سے میل جول نے پارٹی کے اندر ہی ان کی پوزیشن کو مشکوک بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے اس داغ کو گہرا ہونے سے پہلے ہی مٹانے کی کوشش کی ہو گی جسے یار لوگ دبنگ خطاب کا نام دے کر اڈیالہ جیل پر ان کی چڑھائی کے منتظر ہیں۔ ادھر وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری صاحبہ نے علی امین گنڈا پور کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے دو ہفتے کی بجائے انہیں بیس دن دے دئیے ہیں کہ اس عرصے میں ہمت پکڑیں اور اڈیالہ کی طرف روانہ ہوں۔ اب ایک خاتون نے چیلنج دے دیا ہے تو علی امین صاحب اس چیلنج کو کس طرح پورا کریں گے، اس کا انتظار کرتے ہیں۔