Column

آنسوئوں کی کہانی

آصف اشرف

وہ بڑے گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود عام سی بلکہ بہت ہی عام سی اور سادہ سی تھی گو کہ اس نے پی ایچ ٗڈی کر رکھی تھی لیکن لگتی وہ عام سی ہی تھی ڈاکٹر والد کی ڈاکٹر بیٹی ہونے کے باوجود اس نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کوئی خاص ہے حالانکہ وہ خاص الخاص تھی عام سے گھرانے کی اس خاتون نے وہ مردانگی دکھائی کہ دنیا واہ واہ کرنے کے بجائے اس کی معتقد ہو چلی سیاسی نہ ہونے کے باوجود وہ ایسے سامنے آئی کہ انقلابی ہو چلی مشرف کی آمریت کے وقت جب سب چپ تھے اور بہت سارے پرندے نئے گھونسلوں کی تلاش میں تھے وہ آمر سے ایسے ٹکرائی کہ سب کو حیران کر دیا عام سی گھریلو خاتون ایک باغی بن کر سامنے آئی آج جب سب اس کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ سوچا جائے کہ وہ ایسے کیوں کر خود کو ثابت کر گئی میں نے جب تاریخ کے دریچوں کو کھولا تو مجھ پر راز کھلا کہ وہ کل کلثوم بٹ تھی اور آج کلثوم نواز ہوئیں وہی ماضی اس کا اسے سربلند اور سرخرو کر گیا بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کا تعلق بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے اننت ناگ کے محلے ویری ناگ سے تھا اس کا حسب نسب مقبول بٹ کے خاندان سے تھا وہی مقبول بٹ جو ایک غریب کاشت کار عبدالقادر بٹ کا لخت جگر تھا عام سے گھرانے سے اٹھ کر اس نے جب آزادی کا نعرہ لگایا تو وہ چڑھتی جوانی میں پھانسی چڑھ کر ہمیشہ کے لئے نہ صرف امر ہوگیا بلکہ چار حصوں میں بٹے کلثوم نواز کے آبائی وطن جموں کشمیر کی یکجہتی کی علامت بھی بنا اور جموں کشمیر کا بابائے قوم بھی ٹھہرا آج مجھے اس کی موت پر نوحہ لکھنا پڑا دکھ موت کا نہیں کیونکہ مرنا ہر ایک نے ہے دکھ اس بات کا ہے کہ وہ موت کن حالا ت میں ہوئی کون سے صدمے موت پانے والی اور موت کا سامنے کر نے والوں کو ملے وہ اس تسلسل کا نام تھا جس کی شروعات فاطمہ جناح نے آمر ایوب کے خلاف کی تو نصرت بھٹو اور بے نظیربھٹو شہید نے ضیاء آمر کے خلاف اسے آگے بڑھایا دختر کشمیر نے آمر مشرف کے خلاف یہ جدوجہد کی اس نے گھریلو زندگی کی ذمہ داریاں چھوڑ کر اپنے دوپٹے کو پر چم بنا دیا ایک کامیاب مزاحمت کار ثابت ہوئی جس طرح بیگم نسیم ولی نے اپنے خاوند کی گرفتاری کے بعد جدوجہد کی وہ تقلید کلثوم نواز نے کی اور اب اس کی جی دار بیٹی اس کو منطقی انجام کی طرف لے جا رہی ہے برسوں بعد بیٹی کے روپ میں حالات کا ادراک کرنے والی لیڈر شپ پاکستان کو ملی وہ شوہر کی تقریریں بھی تحریر کرتی تھیں تو اس کی مشیر اول بھی تھی جب سارے مرد اور مفادات پرست خوف میں چلے گئے تو وہ خوف توڑ کر باہر آئی اگر یہ کہا جائے کہ مشرف کے خلاف بغاوت کرنے والی مجاہدہ اول تھیں جب اس کو گرفتار کرنے اس کی کار کو کرین کے ذریعہ فضا میں گھنٹوں لٹکائے رکھا تو اس نے جر ات کا مظاہرہ کر کہ خود کو گرفتار نہ ہونے دیا وہ خود لکھتی ہیں جب انہیں اس بات سے روکنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنی بڑی بہن اور والدہ کے ساتھ باہر نہیں جا سکتی میجر ان کے راستے میں رکاوٹ بن گیا تو انہوں نے کہا کہ میں اکیلی یہاں اپنی بیٹی کے ساتھ نہیں رہوں گی میں بھی ساس اور سسر کے پاس راہے ونڈ جائوں گی روک سکتے ہو تو مجھے روک لو میجر دیکھتا رہ گیا اور وہ گاڑی پر امی اور بڑی بہن کے ساتھ باہر نکل گئیں میجر گیٹ
تک نہ بند کر سکا کلثوم نواز نے ثابت کیا کہ وہ مادر جمہوریت نہیں بلکہ مادر جرات تھیں۔ کلثوم نواز کے آئینہ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کون کتنا صاحب ظرف ہے اس آئینے میں ہر چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا یقینا یہ آخری مارشل لاء ہے کلثوم نواز کی کتاب ’’ جبر اور جمہوریت‘‘ گو کہ اشاعت ہوتے ہی فروخت کے ساتھ ختم ہو گئی لیکن اس میں لکھا کلثوم نواز کا یہ دردناک موضوع کہ سقوط ڈھاکہ، کارگل، دراس، بٹالک سیکٹر میں شکست کو جس طرح مشرف نے چھپایا اور اصل حقیقت نہ آنے دی اس قومی جرم کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔
وقت ہر چیز کی تقدیر بدل دیتا ہے
میں نے دیکھا ہے محبت کا فنا ہو جانا
انہوں نے مشرف کو مخاطب کر کے کہا تمہاری حکومت مدارس، جہادی اور تبلیغی مراکز کے خاتمے کے لئے جو کر رہی ہے شاید تمہیں گمان ہے کہ تم فرعون سے زیادہ طاقتور ہو لیکن تمہیں شکست ہو گی وہ اگر میدان میں نہ نکلتی تو آج ن لیگ کا وجود کہیں نہ ہوتا نہ شریف خاندان پاکستان کا مقبول اور ہردل عزیز خاندان ہوتا بڑے خلق والی بیگم کلثوم کی زندگی کے کئی چھپے گوشے ہیں شریف خاندان کے گھر میں برسوں پہلے گیس دھماکہ ہوا کچھ جانیں بھی ضائع ہوئیں شاید وہ غریب ملازم تھے انکے گھروں کی خاموشی سے دختر کشمیر کلثوم نواز کفالت کرتی رہیں 6،7یتیم خانوں کی کفالت پس پردہ رہ کر کرتی رہیں ہر ہفتی ان مراکز میں کم از کم ایک بار پر تکلف کھانا الگ سے بھجواتی منی آرڈرز کے ذریعے پاکستان بھر میں ضرورت مند گھرانوں کے لیے امداد بھجواتیں، باپ دادا کی سر زمین کشمیر کا درد انکے دل سے کبھی نہ گیا مہاجرین کی مالی معاونت تعلیمی اخراجات بھی ممکنہ حد تک خاموشی سی کر تیں شاید یہی وجہ تھی کہ انکی موت پر ان کے آبائی گائوں ویری ناگ مقبوضہ کشمیر میں سوگ برپا ہے۔ مشرف دور میں جب جلا وطن ہوئیں تو ایئر پورٹ پر بڑا درد ناک منظر تھا جب انہوں نے کہا ہم وہاں جارہے ہیں جہاں خدا نے ہمیں بلایا ہے۔
در و دیوار پر حسرت سے نظر کرتے ہیں
اہل وطن خوش رہو ہم تو سفر کرتے ہیں
ان کا المیہ بھی بھٹو خاندان جیسا تھا بھٹو کی بیٹی بھی اپنے باپ کی شہادت کی درد ناک خبر سن کر رو پڑی تھی تو کلثوم کی موت پر مریم کا سوگ بھی کربلا کی یاد تازہ کر رہا تھا اس کے بھائی بھی ویسے ہی سوگ میں تھے جیسے بھٹو کی موت پر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو بھی وطن سے دور رو پڑے تھے وصیت کے باوجود بھی ماں کو لحد میں نہ اتار سکے جہاں 71ء میں ملک دولخت کرنے والے سلامیاں لے رہے ہیں جہاں درانی جیسے پاکستان کے راز افشاء کرنے والے سزا سے محروم ہیں وہاں اگر ان کے بیٹوں کو آنے کی اجازت دی جاتی کون سا کعبہ اپنی جگہ سے ہل جاتا مگر؟ اس تاریخی شخصیت کی موت کے محض چند دن بعد ان کے خاندان کو جیل منتقل کر دیا گیا۔ ’’ انصاف‘‘ کا یہ معیار اپنانے والے بھٹو کو پھانسی دینے والے جج مولوی مشتاق کا انجام بھول گئے۔ جس کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ ان کی موت سے اقدار کا بھی جنازہ نکلا انکی بیماری کو ڈرامہ کہنے والے سیانے اور با خبر آج شرمندگی میں برصغیر میں انگریز کے خلاف جدوجہد کے دران ابوالکلام آزاد بھی قید تھے جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا۔ سنا ہے اُس رُت کو دیکھ کر تم بھی رو پڑے تھے۔۔۔۔ سنا ہے بارش نے پتھروں پر اثر کیا ہے۔
ایسے ہی کلثوم نواز کی موت سے نواز شریف کے ساتھ ہوا خاموش طبع اور متاثر کن کلثوم روایتی سرکاری دوروں میں بھی خاتون اول بن کر پروٹوکول کی دلدادہ نہ تھیں۔ کارکنان خواتین کے ساتھ نیچے زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے اور گفتگو کرنے سے گریز نہ کرتی تھیں کٹھن حالات میں انہوں نے جرات کا ثبوت دیا آج ان کی موت پر جو دکھ اس خاندان کو ہے اگر وہ یہ منظر دیکھ رہی ہوتیں تو خاندان کے لیے کوفہ والوں کے خلاف نئی توانائی کا سامان بنتی۔ کلثوم نواز ہر صورت اپنے خاوند کے ساتھ چٹان بن کر کھڑی رہیں تب ہی نواز شریف تمام امتحانوں میں خود بھی سرخرو ہوئیں پہلے وہ اہلیہ کی صورت خاوند کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور اب بیٹی باپ کے ساتھ کھڑی ہے وفا کی تصویر کلثوم تھیں اب انکی موت کے بعد مریم ہیں جو چاہتی تھیں انکی موت سے نوازشریف ٹوٹ جائیں اب وہ خود اپنی اہلیہ کو قبر میں اتارنے گاڑی چلا کر لے گے تو دشمن شرم سار ہوا یہ اعزاز کلثوم نواز کو جاتا ہے جن کے لیے شاعر نے کہا ہے:
لوگ اچھے ہیں بہت دل اتر جاتے ہیں
ایک برائی ہے بس کہ مر جاتے ہیں

جواب دیں

Back to top button