CM RizwanColumn

لفظی بے حیائی

سی ایم رضوان
کوئی کتنا بھی شعلہ نوا اور تند مزاج ہو بات کرتے ہوئے کبھی بھی کسی نے عملی طور پر اپنے منہ سے آگ، تیزاب، پٹرول یا زہر نہیں نکالا البتہ اس قبیل کے لوگ اپنی زبان سے زہر میں بجھے تیر، تیزاب سے بدتر الفاظ اور سننے والے کے تن بدن میں آگ لگا دینے کی صلاحیت رکھنے والے الفاظ ضرور پھینک رہے ہوتے ہیں یعنی وہ معنوی لحاظ سے اپنے منہ سے تیزاب نکالتے ہیں، پٹرول بھی پھینکتے ہیں اور آگ بھی اگلتے ہیں جس سے متاثرہ اور متحارب عناصر کا کلیجہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔
مجموعی تاثر کی بات ہے کہ یہ جو باہمی گفتگو میں طنز اور طعنے ہوتے ہیں یہ معاشرے کو نفرت اور رقابت جیسی تباہ کن کیفیات سے دو چار کر رہے ہیں۔ ان کیفیات نے پاکستان میں پچھلے 76سالوں میں نہ جانے کتنی قیمتی جانوں کو خودکشی، کتنی جانوں کو تختہ دار پر لٹکانے اور کتنے خاندانوں کی برسوں کے باہمی مراسم کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس نفرت، حقارت اور عداوت کی جنگ نے ملک کا کتنا قیمتی وقت ضائع کیا ہے اور ہمارا کس قدر قومی اور اخلاقی نقصان ہو چکا ہے۔ خاص طور پر سیاست کے میدان میں آپ اگر کوئی بھی مشکل سے مشکل تر بات کرنا چاہتے ہیں تو بھی اس کا سلیقہ اور
طریقہ اگر آپ کو نہیں آتا تو آپ کو سیاست کرنے یا سیاست میں حصہ لینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اگر آپ کا لہجہ آپ کے کم عقل، بدخواہ اور متکبر ہونے کی چغلی کھاتا ہے تو آپ کسی سیاسی جلسے سے خطاب تو کیا کسی ایک مہذب شخص سے روبرو اور دوبدو گفتگو کرنے کا حق اور سلیقہ بھی نہیں رکھتے۔ یہ چیز بھی اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ بعض مرتبہ سیاسی کارکن اپنی لیڈر شپ کو خوش کرنے کے لئے اخلاق سے گری ہوئی تقاریر کرتے ہیں تو یہ بھی ایک مکروہ حرکت ہے۔ ایک لمحہ کے لئے سوچیں کہ بالفرض اگر آپ نے اپنے لیڈر کو خوش کرنے کے لئے ایسا کچھ کر دیا اور اس کی وجہ سے آپ کو کوئی سرکاری عہدہ مل گیا۔ معاشی استحکام میسر آ گیا، سیاسی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا، کار بنگلہ، دولت اور شہرت یا کوئی بھی وابستہ غرض پوری ہو گئی لیکن یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آپ سننے والے لوگوں کے دل و دماغ میں عزت و احترام کے مقام سے گر چکے ہیں۔
اس حوالے سے اللہ پاک کا فرمان ہے کہ
ترجمہ: ’’ اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو‘‘۔ ( پ 26، الحجرات: 11)
یعنی قرآن پاک کا حکم ہے کہ اس کے ماننے والے دوسرے لوگوں کو اپنی گفتگو سے زخمی نہ کریں۔ اپنی بات چیت سے کسی کو دکھی نہ کریں۔ ایسا کر کے آپ تو ہنس کر، مسکرا کے، قہقہہ لگا کر آگے چلے جائیں گے لیکن وہ شخص کس قدر متاثر ہو گا، اس کا آپ کو اندازہ ہی نہیں اور متاثرہ عنصر کوئی خاتون ہے تو آپ نے ایک فرد کو نہیں بلکہ ایک خاندان اور ایک نسل کو اپنی بد خواہی کا شکار کر دیا ہے۔ کسی باضابطہ تقریر، اخباری بیان کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی گفتگو میں بھی کسی کو طعنہ دینا اور اس کا تمسخر اڑانا ہر گز درست نہیں کیونکہ اس تمسخر اور طعنہ زنی کے شکار شخص کو بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں ہم اس قدر گر چکے ہیں کہ ہم ملک کے
وزیراعظم ہی کیوں نہ بن جائیں ہم کسی کو طعنہ دینے سے باز نہیں آتے۔ بلکہ ہم نے تو معیار پسندیدگی ہی یہ رکھا ہوا ہے کہ جو ہمارے مخالفین کو زیادہ گالیاں دے گا وہ ہمارے زیادہ قریب اور بڑے عہدے کا حقدار قرار پائے گا۔
ہمارے ہاں کی سیاست میں صرف مردوں کی جانب سے مردوں کو ہی نہیں بلکہ مرد سیاستدانوں کی جانب سے مخالف خواتین سیاستدانوں کو بھی صنفی حوالوں سے تنقید اور طعن و تشنیع کا شکار کیا جاتا ہے۔ بعض سیاسی یتیم تو اپنے دلاتل میں جان ڈالنے کے لئے مخالف عورتوں کی کردار کشی تک کا سہارا لیتے ہیں۔ اب تو ایک بزعم خود مقبول جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے یہ فیورٹ ٹرینڈ بن چکا ہے کہ وہ اپنی سیاسی مخالف وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مرہم نواز کی ہمیشہ کردار کشی کرتے ہیں۔ ہماری سابقہ سیاسی اور غیر سیاسی تاریخ بھی ایسی بیہودہ مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جہاں آپ کسی مضبوط سیاسی مخالف عورت کا سیاست میں کچھ نہیں بگاڑ سکے وہاں آپ نے مجبوراََ اس کی صنفی کردار کشی شروع کر دی یوں آپ کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔ یعنی جس طرح کی باتیں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی جانب سے مرہم نواز سے متعلق گردش کرتی رہی ہیں اور کر رہی ہیں۔
وہ کسی بھی طرح تہذیب اور شرافت کے دائرے میں نہیں آتیں۔ جس طرح کی باتیں اور فیک ویڈیوز مریم نواز شریف سے متعلق گردش کرتی رہی ہیں وہ بیان بھی نہیں کی جا سکتی۔ اس سے قبل بھی اس طرح کی باتیں مریم سے شروع ہوئیں اور حمزہ کی ماں کے کردار پر جا کر ختم ہوئیں۔ اسی طرح بلاول بھٹو کو بھی طعنے دینے گئے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہے جو ماضی میں اس کی ماں کو پیلی ٹیکسی اور بری عورت کہتے تھے۔ حالانکہ ان لوگوں نے کبھی عمران خان کو یہ نہیں کہا کہ آپ اس شخص کے ساتھ بیٹھ گئے تھے جس نے آپ کی کردار کشی کی، آپ کی ناجائز بیٹی والا سکینڈل بنانے والی ٹیم میں رہا جی ہاں وہی شخص جسے وہ اپنا چپڑاسی بھی نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ اور تو اور مریم اور بلاول کی تصاویر کو لے کر گندی ذہنیت نے ایک نکاح شدہ عورت کا مذاق اڑایا۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ گندی ذہنیت آج 2024ء میں بھی زندہ ہے حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جو سابقہ دور میں پیدا ہوئے لیکن پلے بڑھے آج کے نئے دور میں۔ پھر بھی گزشتہ روز پی ٹی آئی کے آٹھ ستمبر کے جلسے میں ان کی خاص طور پر مراد سعید کا آڈیو پیغام اور دیگر کی تقاریر سن کر اور خاص طور پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی تقریر سن کر ان میں جنریشن گیپ نہیں محسوس ہوا۔ اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ باتیں کرنے والے وہ افراد ہیں جنہوں نے آئندہ سیاست کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اور جس پارٹی سے ان کا تعلق ہے وہ تبدیلی کی برانڈ ایمبیسڈر ہے۔ ان کا اخلاق دیگر جماعتوں سے بہتر ہونے کی بجائے زیادہ خراب ہے کیونکہ تب بات نواز شریف اور بھٹو کی والدہ تک پہنچی تھی، کوئی صحافی خواتین کو یہ نہیں کہتا تھا کہ مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے۔
اسی طرح اس پارٹی کے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بھی اسی گراوٹ کا شکار ہیں۔ کیا وہ اچھے اور برے، گالی اور دلیل، طنز اور سوال اور الزام اور تنقید کے درمیان فرق کو نہیں پہچانتے۔ کیا ان کی ساری علمیت اسی حد تک محدود ہے کہ ان کی پوسٹ پر کتنے لائیکس آئے ہیں اور کتنی مرتبہ آگے شئیر ہوئی ہے، اس سیاسی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم سیاسی سکورنگ کے لئے گمراہ کن پوسٹیں بناتی ہے اور بہت فخر سے آگے بڑھاتی ہے اور اگر آپ کی بدقسمتی آ ہی گئی ہے تو آپ ان کے کسی دعوے کا ثبوت مانگ لیں تو پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ اس سیاسی جماعت کے اپنے خادم رضوی ہیں اور سب سے بڑھ کر ہیں۔ یہ ایسی ایسی گالیوں سے تواضع کرتے ہیں کہ آپ خود ہی شرما جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی اپنی گفتار سے ایسا ریپ کرتا ہے کہ الحفیظ الامان۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس پارٹی کے بڑے قائدین بھی اس لفظی زیادتی میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ کبھی کسی پبلک فورم پر آ کر انہوں نے اپنے سپورٹرز کو اس فعل سے نہیں روکا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ انہیں شاباش دیتے ہوں گے کہ بھئی تم نے تو مخالف کو اڑا کے رکھ دیا ہے۔ ہو سکتا ہے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیاست کے یہی ڈھنگ ہوں لیکن کیا یہ لفظی بے حیائی اپنانا، یہ لغو طرز سیاست اپنانا ہمارے لئے بحیثیت ایک اسلامی اور مہذب ملک کے درست ہے۔ کیا ہم سب مل کر سیاست کو صنفی تعصب سے پاک نہیں کر سکتے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہمارے پاس سیاسی دلائل ختم ہو جائیں تو ہم اپنی گفتگو یا تنقید ختم کر دیں۔ کسی بحث میں پڑنے سے قبل کچھ مطالعہ ہی کر لیں تاکہ گفتگو کے پلڑے میں دلائل ڈال سکیں نہ کہ عورتوں کی کردار کشی۔ ٹھیک ہے آپ کو مریم نواز سے اختلاف کرنا ہے آپ کریں، ان کے سیاسی شعور پر تنقید کریں۔ ان کے نظریات سے اختلاف کریں مگر ان کی ذاتی زندگی پر بلا تحقیق جملے کسنا اور لفظی بے حیائی کا مظاہرہ کرنا کون سی سیاست ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس گندی سیاست کا بانی کون تھا، ہمیں اپنی سیاست کو اس گراوٹ سے نجات دلانا ہو گی۔ اک زمانہ تھا کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن جیالے، متوالے اور پیارے پکارے جاتے تھے۔ آج پٹواری، یوتھیے اور نونیے پکارتے جاتے ہیں۔ احترام اب ختم ہو گیا ہے۔ باہمی رواداری مفقود ہو گئی ہے۔ اب بھی اگر اپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے لیڈر اور جماعت کا احترام کریں تو آپ کو چاہئے کہ آپ بھی دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کا احترام کرین۔ سیاسی جماعتوں کو سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ اپنے سیاسی کارکنان کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں مطالعے کی عادت کے لئے سٹڈی سرکل کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے لئے بہرحال علم درکار ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو صنفی معاملات پر حساسیت کو ہر حال میں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور ایسے معاملات پر بالغ سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنی جماعتوں میں عورتوں کو فیصلہ سازی کی سطح پر لا کر صنفی تعصب پر مبنی سوچ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ اسمبلیوں میں بھی ایک دوسرے سے اسی احترام سے ملا کریں جیسے نجی محفلوں میں ملتے ہیں۔ نظریاتی اختلاف کو نظریاتی ہونا چاہئے اور نظریات کی لڑائی علمی محاذ پہ کرنی چاہیے۔ جھوٹے پروپیگنڈے اور صنفی تعصبات پر نہیں۔ براہ مہربانی اپنے حامیوں تک یہ پیغام پہنچائیں ورنہ آئندہ نسلیں بھی اسی غیر شائستہ لفظی بے حیائی پر مبنی سیاست کی بھینٹ چڑھ جائیں گی۔

جواب دیں

Back to top button