ColumnTajamul Hussain Hashmi

بلقیس بانو بولتی رہی، ہندوستان سنتا رہا

تجمل حسین ہاشمی
21سالہ بلقیس بانو کو کیا پتہ کہ ہندو مسلم فساد کی وجہ سے اس کے خاندان کو کتنی بڑی قربانی دینی پڑے گی۔ گجرات فسادات میں 59 ہندوئوں کو روک کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس کو کیا پتہ کہ اب قیامت اس کے گھر کی طرف آ رہی ہے۔ بلقیس بانو کے پورے گھر کو جلا دیا گیا تھا۔ بلقیس بانو اپنی تین سالہ بیٹی کو لیکر گھر سے بھاگ نکلی۔ اس ایک رات میں کوئی 2500مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ابھی ان ہندوئوں کے مرنے کی سزا پوری نہیں ہوئی تھی کہ 13ہندوئوں نے بلقیس بانو کو پکڑ کر بے حرمتی کر ڈالی۔ اب بلقیس بانو نے خود کو قسم دی کہ وہ اب ان لاشوں پر بین نہیں کرے گی۔ وہ سیدھا تھانہ چلی گئی اور ان 14ہندوئوں کیخلاف کیس درج کرا دیا، جنہوں نے اس کی بے حرمتی کی تھی۔ کئی لوگوں نے اس کو روکا کہ اس کی کون سنے گا۔ جبکہ یہ سب کچھ وزیراعلیٰ مودی کے کہنے پر کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری، وہ بدلہ لینے کیلئے تیار تھی۔ اب اس کو کوئی خوف نہیں تھا۔ بلقیس بانو اپنی جنگ ہار چکی تھی۔ مشرقی معاشرے نے اسے جھوٹا قرار دیدیا تھا۔ گجرات کے کچھ ہندو سماجی کارکنوں کو بلقیس کی کہانی کا علم ہوا تو انہوں نے دہلی کی ایک ہندو وکیل کو اس کا مقدمہ لڑنے پر راضی کرلیا۔ یہ واقعہ بھارتی انسانی حقوق کمیشن کے نوٹس میں لایا گیا۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے بلقیس بانو کے کیس کی سماعت شروع کی اور سی بی آئی کو حکم دیا کہ اس کیس کو دوبارہ اوپن کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ سارا مقدمہ گجرات ریاست سے مہاراشٹر منتقل کر دیا۔ ججز ہندوئوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ وزیراعلیٰ مودی کے ہوتے ہوئے اس کیس کی غیر جانبدار تفتیش ممکن نہیں تھی۔ ان 6 سالوں میں بلقیس نے 200دفعہ اپنی رہائش بدلی کہ وہ قتل نہ ہو جائے۔ اس کا شوہر بھی ساتھ کھڑا رہا لیکن وہ گھبرایا ہوا تھا۔ آخرکار سی بی آئی نے 14ہندوئوں کا چالان پیش کر دیا۔ پورا بھارتی میڈیا، سول سوسائٹی بلقیس بانو کے پیچھے کھڑی تھی۔ کورٹ نے 11ہندوئوں کو عمر قید دی اور 7 کو شک کی بنیاد پر بری کر دیا۔ ایک پولیس افسر کو ثبوت
ختم کرنے کی بنا پر 3سال سزا دی۔ بھارتی میڈیا نے بلقیس کے کیس کو بھرپور کور کیا اور بلقیس بھارتی عورتوں کیلئے سمبل بن گئی۔ بلقیس کی جدوجہد نے پورے ہندوستان کو متاثر کیا۔ جب سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنا چکی تو بلقیس بانو نے کہا کہ "یہ میری نہیں، 15کروڑ مسلمانوں کی جیت ہے۔” بلقیس بانو بولتی رہی اور پورا ہندوستان سنتا رہا۔ "یہ اقتباس کتاب "شاہ جمال کا مجاور”سے ہے۔ اب آ جائیں اپنے ملک میں جہاں سیاست، جمہوریت کے ٹھیکے داروں نے وہ ہاتھ صاف کئے ہیں جو ناقابل تلافی نقصان ہے، آج کون محفوظ ہے کسی کو کوئی پتہ نہیں، کب کیا ہو جائے کسی کو خبر نہیں ۔ انسانی حقوق کا تحفظ دینے والے خود غیر آئینی کارروائیوں میں شامل ہیں۔ انسانیت میں خاص کر عورتوں کے احترام، ان کے تحفظ کی تلقین دوسرے مذاہب سے زیادہ مذہب اسلام نے کی ہے اور ہمارے ہاں آج بہنوں کو بے دخل کیا جاتا ہے، عورتوں کو ناجائز حرام مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ آج بھی وہ بے بسی کی تصویر ہیں۔ یہ افراتفری آمروں کی پیدا کردہ نہیں بلکہ ان جمہوری طاقتوں کی نااہلی، ان کی لوٹ مار اور بے انصافی، گندی سیاست کی مرہون منت ہے۔ کہتے ہیں سیاست ابھی میچور نہیں ہوئی، یو این وومن کی رپورٹ National report on the status of woman in pakistan 2023میں حکومتی کارکردگی افسوس ناک ہے۔ جس ملک کے جی ڈی پی کا 62فیصد قرضوں کے سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے، ان سیاست دانوں کے ویژن پر ماتم کرنا چاہئے۔ وزیراعلیٰ علی
امین گنڈاپور کل کے جلسہ میں یہ بتانا بھول گئے ہیں کہ ان کے صوبہ میں 47فیصد عورتوں کو اس بات پر مارا جاتا ہے کہ وہ گھر سے باہر بتاکر کیوں نہیں گئیں، 50فیصد عورتوں پر اس لئے ظلم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے بحث کرتی ہیں، 46فیصد عورتوں کو شوہر کی طرف سے اس لئے ظلم کا سامنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی درست پرورش یا تربیت نہیں کر رہیں، 21فیصد عورتوں کو اس لئے مارا جاتا ہے کہ اس نے سالن جلا دیا ہے۔ دوسرے صوبوں میں بھی ایسے ہی ظلم جاری ہیں۔ وزیراعلیٰ صاحب ان اعدادوشمار پر مشتمل اس رپورٹ پر فوکس کریں، یہ آپ کے صوبے کے حالات ہیں۔ تبدیلی کے دعوے کرنے آسان لیکن عمل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ عوامی ہمدردیوں کیلئے آپ کو حقیقی خدمت کرنی ہوگی، نعروں، بڑھکوں سے عوام کو ریلیف نہیں ملنا۔ یہ عوام کو بھی اب سمجھ جانا چاہئے۔ 76سال گزر گئے، سمجھ داری سے نعروں کا جواب دیں۔ نعروں سے صرف انتشار پیدا ہوگا۔ نواز، شہباز اینڈ زرداری حکومتوں نے غیر ملکی قرضوں سے روڈوں کی تعمیر کو ترقی کہہ کر خود کو قومی ہیرو بنا لیا لیکن اب شاید ایسا ممکن نہ ہو جو ماضی میں ہوچکا ہے۔ عوام اس جھوٹی ترقی پر پچھلے 76سال سے لبیک کہتے رہے ہیں۔ بظاہر اب عوام میں ہمت نہیں رہی۔ خود کو بڑی سیاسی، جمہوری جماعت کہنے والی تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ نے کل کے جلسہ میں جو غیر آئینی، غیر جمہوری بڑھکیں ماری ہیں، وہ کسی بھی طرح ملکی معیشت ملکی سلامتی کیلئے مناسب نہیں۔ کیا ہمارے آبائو اجداد نے اس لئے قربانیاں دی تھیں کہ تم ایک دوسرے کا جینا دوبھر کر دو؟ تفریق، نفرت کو ہوا دو؟ بدتہذیبی، لوٹ مار تمہارا ایجنڈا ہو، سیاسی جماعتوں کی کرپشن پر ان کی پشت پناہی کرنیوالوں کو اب سوچنا ہوگا، اپنے کردار پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ یہ وقت ہاتھ میں نہیں رہے گا اور یہ جمہوری چور نہیں رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button