پی ٹی آئی کا پاور شو اور حکومتی رکاوٹیں
امتیاز عاصی
عجیب تماشا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کا انعقاد کرنے کی اجازت اور 30راستوں میں سے 29 راستوں پر کنٹنیر کھڑے کرنے کے باوجود عوام کا جم غفیر جلسہ گاہ میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جو اس امر کا غماز ہے عوام موجودہ حکمرانوں سے عاجز آئے ہوئے ہیں۔ تعجب ہے جلسہ کی اجازت دینے کے بعد جلسہ کا مقام تبدیل کرنے کا مقصد کسی طریقہ سے پی ٹی آئی کے جلسہ کو ناکام بنانا تھا لیکن چاروں صوبوں سے آئے ہوئے عوام نے یہ ثابت کر دیا وہ آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے ہر قسم کی رکاوٹوں کی پروا کئے بغیر جلسہ گاہ میں پہنچ سکتے ہیں۔ اس خاکسار کی یادداشت میں سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کسی سیاسی جماعت کو جلسہ کی اجازت دینے کے بعد عوام کو جلسہ میں شرکت سے روکنے کے لئے جگہ جگہ کنٹنیر کھڑے کرکے مقروض ملک کے خزانے سے سرمایہ ضائع کرکے کیا حاصل ہوا ہے۔ جمہوریت کے دعوی داروں نے سرکاری اور غیر سرکاری ٹی و ی چینلز کو جلسہ کی کوریج کرنے سے روکے رکھا جو عوام میں حکومت کی غیر مقبولیت کا واضح ثبوت ہے۔ درحقیقت ہمارا ملک کسی انقلاب کی طرف رواں دواں ہے۔ قوموں میں انقلاب تبھی آتے ہیں جب ریاست کے رہنے والوں کو ان کے
جائز حقوق سے محروم رکھا جائے اور جبر سے ان پر حکمرانی کی جائے۔ اس سلسلے میں ایران کی مثال سب کے سامنے ہیں جہاں سو سالہ شنہشایت عوامی انقلاب سے ختم ہوئی۔ حضرت آیت اللہ خمینی نی جلاوطنی کے باوجود اپنی تقاریر کی کیسٹوں سے انقلاب برپا کیا جس کی عہد حاضر میں مثال نہیں ملتی۔ حکومت میں جمہوری روایات کی ذرا پاسداری ہوتی تو پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی کھلی اجازت دیتی لیکن تین گھنٹے کی قدغن لگانے کے باوجود جلسہ رات دس بجے جا کر اختتام پذیر ہوا۔ پی ٹی آئی رہنمائوں بیرسٹر گوہر، وزیراعلی امین گنڈاپور، علی محمد خان، حماداظہر، شیر افضل مروت، عمر ایوب خان، سلمان اکرم راجا، شیخ وقاص اکرم، سینیٹر ناصر عباس، اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحب زادہ حامد رضا نی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ان کا احتجاج عمران خان کی رہائی تک جاری رہے گا۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کو چیلنج کیا وہ لاہور میں بغیر اجازت جلسہ کرکے دکھائیں گے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا وہ آئین میں حکومتی ترامیم کو نہیں مانتے جس میں ججز کی تعداد بڑھانے کا
فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا حکومت من پسند ججز مقرر کرکے مرضی کے فیصلے لینے کی خواہاں ہے لہذا وہ اس کی مخالفت کریں گے۔ اس موقع پر مقررین نے اس عزم کا اظہار بھی کیا وہ کسی صورت بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونے دیںگے۔ جہاں تک وفاقی دارالحکومت میں جلسہ کی اجازت نہ دینے کی بات ہے کسی حد تک درست ہے۔ حیرت ہے ایک طرف حکومت وفاقی دارالحکومت میں سیاسی جماعتوں کو جلسہ کی اجازت نہ دینے کا اعلان کر رہی ہے دوسری طرف اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی صورت میں منتظمین اور شرکاء کے خلاف نئے ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنے کا اعلان کر رہی ہے جس میں خلاف ورزی کرنے اور جلسہ میں شریک ہونے والوں کے لئے تین سال کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ہم حکومت کے نئے ایکٹ کی اس حد تک حمایت کرتے ہیں اسلام آباد میں جلسہ کرنے والوں کے خلاف نئے ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ سوال ہے جب حکومت کسی کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی تو جلسہ کرنے کی صورت میں تین سال کی سزا کیسی ؟ حکومت اسلام آباد میں داخلے کے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے تو اس صورت میں کوئی جماعت جلسہ کیسے کر سکتی ہے۔ تعجب ہے حکومت نے نئے اعلان میں فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا اعلان نہیں کیا ہے؟۔ آئی جی اسلام آباد کا کہنا ہے پی ٹی آئی نے مقررہ وقت پر جلسہ ختم نہ کرکے اپنے عہد کی خلاف ورزی کی ہے جس پر منتظمین کے خلاف نئے ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی ۔ انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس علی ناصر رضوی نے یہ وضاحت نہیں کی جلسہ کی اجازت دینے کے باوجود پی ٹی آئی کارکنوں کے قافلے کس قانون کے تحت روکے گئے۔ اللہ کے بندوں جب تم نے جلسہ کرنے کی اجازت دے دی تو جلسہ گاہ جانے والے راستوں پر رکاوٹیں کیوں کھڑی کی گئیں؟۔ محمود اچکزئی نے دعوی کیا ہے آج تک دنیا میں کسی جماعت کو اتنی عوامی حمایت حاصل نہیں ہوئی ہے جیتنی پی ٹی آئی کو حاصل ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں چونگی نمبر 26 کے قریب پی ٹی آئی کارکنوں اور اسلام آباد پولیس کے مابین جھڑپوں میں ایس پی سیف سٹی اور چند کارکنوں کی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق جلسہ کے آغاز سے اختتام تک لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا آج جلسہ گاہ میں پنجاب کے لوگوں نے شرکت کرکے حکومت کے اس دعوی کو غلط ثابت کر دیا ہے پنجاب کے لوگ پی ٹی آئی کے جلسہ میں شرکت نہیں کرتے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اعلان کیا ہے وہ لاہور کے جلسہ میں ان تمام باتوں کا پردہ چاک کریں گے جس میں دوران حراست ان سے من پسند بیانات لینے کے لئے دبائو ڈالا گیا۔ جلسہ کی اہم بات یہ تھی جلسہ گاہ کے قریب سے بارودی مواد برآمد ہونے کی نوید دے کر عوام کو جلسہ میں شرکت سے روکنے کی آخری کوشش کی گئی جس میں حکومت کامیاب نہیں ہو سکی ۔ جلسہ میں ہزاروں لوگوں کی شرکت نے جلسہ کی ناکامی کا حکومتی دعویٰ غلط ثابت کر دیا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے آزادی صحافت کے بعض علمبردار اخبارات نے جلسہ کی صحیح رپورٹنگ نہ کرکی آزادی صحافت کے اپنے دعوئوں کی نفی کر دی۔ دراصل انتخابات میں وسیع پیمانے پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف عوام میں سخت ردعمل پایا جانا اس بات کا عکاس ہے عوام موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کو اس لیے تیار نہیں، ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کی جگہ فارم 47والوں کو اقتدار دے دیا گیا ہے۔