Column

اولاد کو اپنی خواہشات کی قربان گاہ پر مت چڑھائیں

رفیع صحرائی
ہمارے ہاں روایات کے نام پر اولاد کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کا رواج صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ خاص طور پر بیٹیوں کو تو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا۔ جانوروں کی طرح ان کا سودا کر دیا جاتا ہے۔ ان کی شادی کو سو فیصد اپنی مرضی سے طے کرنا بھی تو سودا ہی ہوا نا۔ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ جس انسان کی پوری زندگی کا فیصلہ کیا جاتا ہے اس کی مرضی کا لحاظ رکھنا تو درکنار اس سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ دیہات میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جوان لڑکی کی منگنی ایسے بچے سے کر دی جاتی ہے جو ابھی پیدا ہی ہوا ہوتا ہے۔ لڑکی اپنے دولہے کو گود میں اٹھا کر کھیلاتی پھرتی ہے۔ اپنی جوانی کی تمام امنگیں اور ارمان دفنا کر اور بابل کی پگ کے شملے کی لاج نبھانے کی خاطر وہ اپنی تمام خواہشات کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ اسے بچپن ہی سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں بیٹیوں کی قسمتوں کے فیصلے اسی طرح ہوتے ہیں۔ برادری اور خاندان کی ایسی مثالیں بیٹی کے کانوں میں مسلسل انڈیلی جاتی ہیں جب بڑوں کے فیصلے کو مانتے ہوئے بیٹی کی شادی اپنے سے بیس سال چھوٹے لڑکے سے اس وجہ سے کر دی گئی تھی کہ بھائیوں کا رشتہ مضبوط رہے۔ اور
بیٹی شریکوں میں نہ بیاہنی پڑے۔ یہ بات کوئی نہیں بتاتا کہ جب وہ لڑکا جوان ہوتا ہے تو اس کی منگیتر ادھیڑ عمر ہو چکی ہوتی ہے۔ کئی دفعہ تو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکی ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر مرد اولاد کی خاطر دوسری شادی کر لیتا ہے اور روایات کی بھینٹ چڑھ جانے والی وہ بد نصیب اپنی سوتن کے بچے کھیلاتی اور بے اولادی کے طعنے سنتی اپنی زندگی کے دن پورے کرتی ہے۔اسی طرح کی بے جوڑ شادی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جوان لڑکے کی تائے، چاچے یا مامے کی نومولود بیٹی سے منگنی کر دی جاتی ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جوان بچوں کے باپ ادھیڑ عمر مرد سے اس کی کزن کی شادی اس لیے کر دی جاتی ہے کہ برادری سے باہر رشتہ داری کا رواج نہیں ہوتا یا پھر غیر برادری میں جائیداد دینا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجے کے طور پر بیٹی کو رواجوں، خواہشوں یا لالچ کی قربان گاہ پر ذبح کر دیا جاتا ہے۔ایک اور رواج بھی ہمارے ہاں پایا جاتا ہے جس پر اولاد کی قربانی دینا فرض سمجھا جاتا ہے۔
85یا 90سالہ دادا، دادی، نانا یا نانی جو بسترِ مرگ پر موت کے انتظار میں پڑا ہوتا ہے اچانک اس کی طرف سے مرنے سے پہلے کسی پوتے پوتی یا نواسے نواسی کی آپس میں شادی کرنے اور آخری خوشی دیکھنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ لڑکا اور لڑکی کا آپس میں کوئی جوڑ ہے یا نہیں۔ وہ نہیں سوچتا کہ لڑکا اجڈ گنوار اور لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے یا لڑکا پڑھا لکھا اور لڑکی بالکل ان پڑھ ہے۔ ان کی آپس میں نہیں بنے گی۔ یہ دو چار دن یا مہینوں کا نہیں بلکہ زندگی بھر کا بندھن ہے۔ ایسی عمر میں جبکہ انسان کو اپنے جسمانی اعضاء پر بھی کنٹرول نہیں رہتا وہ بزرگ دوسروں کی زندگیوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی خواہش کا اظہار کر دیتا ہے۔ جن کی زندگی ہے ان سے جینے کا حق چھیننا چاہتا ہے۔ وہ دوسروں کی زندگی اپنی موت کے بعد بھی جینا چاہتا ہے۔ اگر کوئی بزرگ ایسی خواہش کا اظہار کرے تو خدارا اس کی خواہش پوری کرنے سے انکار کر دیں۔ جس بندے یا بندی نے اتنی عمر گزار دی اور خوشی نہیں دیکھی اور اپنی عمر کے آخری دو چار مہینوں میں خوشی ڈھونڈ رہا ہے اسے ایسی خوشی دیکھنے کا کوئی حق نہیں جو دوسروں کی خوشی کا جنازہ نکال کر حاصل کی گئی ہو۔ ان بابوں اور مائیوں کی آخری خوشیوں اور خواہشوں کی بھینٹ اپنی اولاد کو مت چڑھائیں۔
اور ہاں! یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کے بھائی یا بہن نے آپ سے جتنا ملنا ہے وہ اتنا ہی ملیں گے۔ بچوں کی بہن بھائی کے ہاں شادیاں کروا کر ملنے کے بہانے مت تلاش کریں۔ اگر بچوں کے ذہن آپس میں نہ ملیں تو بعد میں یہی رشتے زہریلے بن جاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ آپس میں بچوں کی شادیاں کرنے والی بہن بھائی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں رہتے۔
ایک اور بات بھی یاد رکھیے! اپنے بچوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ شادی کی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں نا کہ اپنے سر سے بلا اتار کے کسی دوسرے کے سر پہ ڈال دیں۔ اب اس رِیت کو بھی ختم ہونا چاہیے کہ آپ کے بگڑی ہوئے صاحبزادے کو اس کی دولہن آ کر سنبھال لے گی۔ بگڑے تگڑے بچے کبھی شادی سے نہیں سدھرتے بلکہ اپنے موجودہ رشتوں کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل کے لیے بھی عذاب بنے رہتے ہیں۔ ایسی اولاد کی خاطر کسی بیٹی کی زندگی برباد مت کریں۔ والدین کو چاہیے کہ جب بھی اپنے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ دیکھنے جائیں تو پہلے اپنے بچے، اپنے گھر اور اپنی اوقات کو دیکھیں اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں ورنہ آپ دوسروں میں نقص ہی نکالتے رہیں گے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے، اس کی قدر کیجئے۔ آپ نے اپنی زندگی گزار لی۔ اب دوسروں کی زندگی جینے کی کوشش مت کریں۔ اولاد کو اپنی خواہشات کی قربان گاہ پر مت چڑھائیں۔ اس کی شادی ایسی جگہ کریں جہاں اولاد خوش رہے، ایسی جگہ اولاد کی شادی کا مت سوچیں جہاں آپ خوش رہیں کیونکہ آپ نے اپنی زندگی گزار لی، اب اولاد کو ان کی زندگی گزارنے دیجئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button