Goat life
علیشبا بگٹی
آج کل دنیا بھر میں اور خاص کر عرب دنیا میں ایک فلم کے بڑے چرچے ہیں۔ اس فلم کا نام Goat Lifeہے۔ یہ فلم نیٹ فلیکس پر موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک سچے واقعے کو بنیاد بنا کر انڈیا نے یہ فلم بنائی۔
یہ واقعہ تین سال پہلے ایک سعودی شخص نے ایک چینل پر بیٹھ کر سنایا تھا۔ یوٹیوب پر مل جائے گی۔ عربی زبان میں۔ فلم تو اب بنی ہے اس پر ۔ ہوا یوں کہ 1991ء میں سعودی عرب کے شہر حفر الباطن میں یہ واقعہ ہوا تھا۔ حفر الباطن سعودی عرب کے مشرقی صوبے کا شہر ہے جس کا نزدیکی انٹرنیشنل ایئر پورٹ دمام ہے۔ ایک ہندوستانی شخص جو کسی کمپنی کے ویزے پر آیا۔ اس وقت یہ شخص ہندو تھا۔ اس زمانے میں موبائل نہیں ہوتے تھے۔ زبان سمجھ نہیں آتی تھی۔ پہلی بار آنے والوں کو کبھی کبھار یار دوست، کفیل یا کمپنی ایئرپورٹ نہیں پہنچ پاتی تھی یا بھول جاتی تھی وغیرہ وغیرہ۔ اس کی کمپنی اس کو لینے ایئر پورٹ نہیں آئی۔ اسے نہیں معلوم تھا کمپنی کون سے شہر میں ہے۔ اس دوران ایک سعودی شہری نے اس سے بات چیت کی کوشش کی۔ ظاہری بات ہے سمجھ کسی کو بھی نہیں آئی ایک دوسرے کی بات۔ سعودی شہری نے شاید اپنا ورکر سمجھ کے اس کو اپنے ساتھ جانے کا اشارہ کیا یا جان بوجھ کر اسے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔ اللہ کو علم ہو گا۔ وہ اس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ سعودی شخص اسے اپنے جانوروں کے طبیلے لے گیا۔ عموما سعودی عرب میں بھیڑ بکریاں اونٹ رکھنے والے لوگ دور صحرا میں آبادی سے کافی ہٹ کے خیمے لگا کر اور جانوروں کے لئے لکڑی کے لمبے طبیلے سے بنا لیتے ہیں۔ وہاں سے سڑک یا آبادی بہت دور ہوتی ہے۔ عربی نے اس ہندوستانی کو وہاں لے جا کر جانوروں کو چرانے پر لگا دیا۔ زبان کی بندش کی وجہ سے کچھ نہیں ہو پا رہا تھا۔ مختصرا یہ کہ یہ وہاں پانچ سال اپنے گھر سے دور صحرا میں بغیر تنخواہ کے جانور چراتا رہا۔ معمولی سا کھانا ملتا تھا اور بس یہ سب کچھ۔ پانچ سال بعد ایک دن اس نے موقع پایا اپنے کفیل کو کسی لوہے کے راڈ سے سر پر مارا۔ وہاں سے کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا کفیل اس راڈ کے وار سے انتقال
کر گیا تھا۔ ادھر یہ بندہ کسی طرح سڑک تک پہنچ گیا۔ وہاں کسی بھلے آدمی نے اسے اٹھایا شہر یا کسی قصبے لے گیا۔ وہاں پولیس کو کسی نے خبر دی، اسے گرفتار کرکے لے گئے۔ عدالت میں کیس چلا تو اس کو دیت کے طور پر مقتول سعودی کے بیٹے کو ایک لاکھ ستر ہزار رہال دینے کا حکم ہوا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں اسے پانچ سال قید کی سزا گزارنی تھی اور سزائے موت ہونی تھی۔ بہرحال یہ پیسے کہاں سے لاتا۔ اس لئے پانچ سال کے لئے جیل چلا گیا۔ یہ کیس اور واقعہ آہستہ آہستہ مقامی لوگوں میں پھیلنے لگا۔ کافی وقت لگا، اس کی رہائی کی اجتماعی کوشش میں، مقامی سعودیوں نے پہلے جب یہ سارا واقعہ سنا اور عدالت کا فیصلہ پڑھا تو وہ اس کی جیل سے رہائی کے لئے سرگرم ہو گئے۔ اس وقت دیت والی رقم کافی بڑی تھی کوئی اکیلا شخص نہیں دے سکتا تھا بڑی محنت اور کوشش کے بعد رقم جمع ہو گئی۔ اس وقت سوشل میڈیا تھا نہیں۔ لوگوں کے پاس جا جا کے مانگنا پڑتا تھا۔ بڑی رقم تھی جو دس، بیس، سو ریال سے پوری کرنا مشکل تھا۔ بالاخر چند سال کی کوشش سے رقم پوری ہو گئی۔ اس پردیسی کے کفیل کے بیٹے کے پاس لوگ گئے اور اسے جیل لے جا کر دیت کی رقم مجرم کے سامنے پیش کرنے کی کارروائی شروع کی۔ سعودی عرب میں قاتل کو دیت کے لئے مقتولین کے سامنے لاکر معاملہ ختم کیا جاتا ہے۔ اس پردیسی قیدی کے کفیل کے بیٹے کے دل میں بھی اتنے لمبے عرصے کے بعد نرمی آ گئی تھی اور اُس کے ساتھ اپنے باپ کی زیادتی کا احساس ہوا تھا۔ اس نے کہا اگرچہ تو نے میرے والد کو قتل کیا ہے لیکن آپ کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے۔ اس لئے میں یہ رقم والد کے ہاتھوں آپ کے ساتھ ہوئی زیادتی کے لئے بطور
جرمانہ واپس کرتا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ آپ میرے والد کو معاف کر دیں گے۔ جب یہ ہندوستانی پردیسی جیل سے باہر آیا تو انہیں سعودی لوگوں نے کچھ اور پیسے دئیے، جنہوں نے اس کی رہائی کی کوشش کی تھی، جس پر اس نے پوچھا۔ کیا آپ لوگ مسلمان ہو ؟۔ انہوں نے کہا۔ الحمدللہ۔ کیوں پوچھ رہے ہو ایسے؟ ہندوستانی نے پوچھا ’’ کیا میرا کفیل بھی مسلمان تھا‘‘ ؟، وہ لوگ سمجھ گئے کہ وہ کیوں یہ پوچھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہم مسلمانوں میں بھی برے اور اچھے لوگ ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں اس ہندوستانی ہندو نے ان لوگوں کی مدد کرنے اور کفیل کے بیٹے کے روئیے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اپنا نام نجیب رکھ لیا اور انڈیا واپس چلا گیا۔
پردیس، یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو یہ سزا بھگت رہا ہوتا ہے، ایسی عجیب سی تنہائی کا عالم کہ بیشمار لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلا پن ہو۔ اگرچہ پردیس میں رہ کر زندگی بہت اچھی مگر بڑی ہی اداس اور بے کیف گزرتی ہے۔ یہ بھی تو ایک سچ ہے کہ پاکستان میں تین ہزار کمانے والا مزدور پردیس میں تیس ہزار تک کمائے گا۔ تیس ہزار کمانے والے کا بھا تین لاکھ بھی لگ جائے گا مگر پیسوں کے صفر میں اضافہ کرنے کی قیمت کا احاطہ چند الفاظ میں یا ایک مضمون میں ناممکن ہے۔ البتہ کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ پردیس کی زندگی بھی کوئی آسان نہیں ہوتی ہے۔ انسان کو اپنا وطن ضرور یاد آتا ہے۔ پردیس کی چکی میں گھن کی طرح پس کر درہم ریال اور ڈالر کمانے والے محنت پیشہ تارکین وطن اپنے ملک میں ہوتے تو روزگار کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے یا کسی سیاسی رہنما کے تلوے چاٹ رہے ہوتے۔ کچھ لوگ مجبوریوں کے ہاتھوں پاکستان چھوڑ کر پردیس جا کر بستے ہیں۔ ورنہ خوشی سے اپنی سرزمین اپنا وطن کون چھوڑتا ہے۔ کون چاہتا ہے اپنے آبائی گائوں کو چھوڑ کر بیرون ملک کی رونقوں کی سختیوں میں سہم کر گمنام کھو جائے۔