Column

یوم دفاع اسلام

صفدر علی حیدری
سات ستمبر کا دن یوم دفاع اسلام کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے۔ اس دن پاکستان کی مقننہ نے ایک ایسے فتنے کی جڑیں کاٹیں جو پون صدی سے امت میں فتنہ برپا کر رہا تھا۔ مسلمان چاہ کر بھی اس فتنے کا سر کچلنے سے عاجز تھے، باوجود اس کے کہ تمام مکاتب فکر مل کر اس کی خلاف علمی و عملی میدان میں برسر پیکار تھے ۔ کتابیں لکھی جا رہی تھیں ، جلوس نکالے جاتے تھے، کانفرنسیں بلائی جا رہی تھی ۔ یہ سب ہو رہا تھا مگر کوئی فیصلہ کن برتری نہ مل پا رہی تھی ۔ پھر آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب منافقین کو چھپنے کے لیے جگہ نہ ملی اور ان کے نام نہاد لیڈر رات کی تاریکی میں ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ جو یہیں رہے سہم کر رہ گئے ۔ اسلام کی چھاتی پر مونگ دلنے والا گروہ ذلت آمیز شکست سے درچار ہوا اور آج تک اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہے ۔7ستمبر 1974ء وہ تاریخی دن تھا جب طویل اور تاریخ ساز جدوجہد کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔ یہ دن صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں ، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے ، اس سے حضور پُرنور کی ختم نبوت کا تحفظ ہوا ۔ اس دن آنحضرت کی عزت و ناموس کا علم بلند ہوا ۔ اس دن آپ کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے ذلیل و رسوا ہوئے ، آپ کی رادئے ختم نبوت کو چوری کرنے والے ناکام و نامراد ہوئے ، آپ کے تاج ختم نبوت کو چھیننے والے خائب و خاسر ہوئے ۔ اس دن پاکستان کی پارلیمنٹ اور پوری قوم نے مل کر مرزائی اور قادیانیوں کو جسد ملت اسلامیہ سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا اور انہیں آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ۔ اس پر صرف پوری پاکستانی قوم نے ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ نے شکر کا سجدہ ادا کیا ۔ کیوں کہ قادیانیت کے تعفن اور اس کی سڑاند نے پوری امت مسلم کو بے چین اور مضطرب کیا ہوا تھا ۔
زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں۔ مگر یہ دن آتا ہے اور گز ر جاتا ہے، کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کتنا اہم اور عظیم دن گزر گیا اور ہم سے مطالبہ کر گیا ہے ۔ یہ ہماری اجتماعی اور قومی بے حسی کی علامت ہے ۔
یہ فیصلہ یونہی بیٹھے بٹھائے نہیں کر دیا گیا بلکہ اس کے پیچھے پون صدی کی جدوجہد اور جانی و مالی قربانی کے بعد دیکھنا نصیب ہوا ، مکمل غور و خوض اور بحث و مباحثہ ، سوال و جواب کے بعد ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد کیا گیا ۔29 مئی 1974ء کو ربوہ اسٹیشن پر قادیانی گماشتوں نے نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو زد و کوب کیا ، جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ایسی جاندار منظم مگر پُر امن تحریک چلی کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ پوری قوم کراچی سے لے کر شمالی علاقہ جات تک ،۔بولان سے درہ خیبر تک متحد تھی اور ایک آواز تھی ایک ہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔ اس تحریک کے نتیجے میں حکومت مجبور ہوئی اور اس نے قومی اسمبلی کے تمام امور روک کر اسے ایک خصوصی کمیٹی کا درجہ دیتے ہوئے یہ مسئلہ اس کے سپرد کیا کہ اس پر مکمل غور و خوض کے بعد یہ کمیٹی اپنی سفارشات پیش کرے ۔
قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلے پر بحث شروع ہوئی ، قادیانی اور لاہوری گروپ دونوں نے اپنی خواہش اور درخواست پر اپنے محضر نامے قومی اسمبلی میں علیحدہ علیحدہ پیش کیے ، ان کے جواب میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی ’’ قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف ‘‘ کے نام سے اپنا تفصیلی موقف پیش کیا ۔ لاہوری، قادیانی محضر نامے کا شق وار جواب کی سعادت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے حصے میں آئی اور انہوں نے علیحدہ علیحدہ مستقل دونوں محضر ناموں کے جوابات تحریری طور پر اسمبلی میں پیش کیے ۔ قادیانی اور لاہوری گروپ نے صرف تحریری طور پر اپنا موقف پیش نہیں کیا ۔ انہیں زبانی بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا ، چنانچہ قادیانی گروپ کی طرف سے قادیانیوں کا سربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں پیش ہوا ، 5سے 10اگست اور 20سے 24اگست تک کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد کا بیان، اس سے سوالات و جوابات اور اس پر جرح ہوئی ۔ ان گیارہ دنوں میں 42گھنٹے مرزا ناصر پر جرح ہوئی ۔ لاہوری پارٹی کی طرف سے ان کے سربراہ مسٹر صدر الدین پیش ہوئے۔ 27، 28اگست کو ان کا بیان ہوا اور ان پر 7گھنٹے جرح ہوئی۔ صدر الدین چوں کہ کافی بوڑھا تھا ، پوری طرح بات بھی سننے کی قوت نہیں رکھتا تھا، اس لیے اس کا بیان میاں عبدالمنان عمر کے وسیلے سے ہوا۔ گواہوں پر جرح اور ان سے سوالات کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو متعین کیا گیا ، انہوں نے پوری قومی اسمبلی کی اس سلسلے میں معاونت کی اور بڑی محنت و جانفشانی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا ۔ قومی اسمبلی کے ممبران اپنے سوالات لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیتے اور وہ سوالات کرتے تھے ، اس سلسلے میں مفتی محمود ، مولانا ظفر احمد انصاری اور دیگر حضرات نے اٹارنی جنرل کی معاونت کی ۔
بالآخر پوری جرح ، بیانات اور غور و خوض کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کر چکے تھے ، چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا ، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیا گیا ۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تقریر کی ۔ تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کر دیا ، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دئے ۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں ، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا ، اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا ۔7ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو مولانا مودودیؒ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عوام ، علماء ، مشائخ اور دینی و سیاسی جماعتوں اور قومی اسمبلی کی متفقہ کوششوں سے قادیانی مسئلہ بالآخر حل ہو گیا جو 90سال سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک عظیم اندرونی خطرہ بنا ہو اتھا‘۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قیام پاکستان کے بعد فتنہ قادیانیت کا صحیح صحیح اندازہ لگایا اور پاکستان کے اسلامی نظریاتی کردار اور ریاست مدینہ کے بعد وجود میں آنے والی نظریاتی مملکت کے لئے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے سامنے چار نکاتی مطالبہ پیش کیا کہ اسمبلی اعلان کرے کہ حکومت پاکستان کا دین اسلام ہے۔ مملکت پاکستان کا بنیادی قانون اسلامی شریعت ہے۔ حکومت پاکستان تمام خلاف شریعت قوانین کو منسوخ کرے۔ پاکستان کے حکمران حدود الٰہی کے اندر رہ کر کام کریں۔ مولانا مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان سے ’’ اسلام کا نظام حیات‘‘ کے سلسلے میں پانچ تقاریر کیں جو نشر ہوئیں، جن میں ان چار نکات کے سارے پہلو واضح ہو کر سامنے آئے ۔ 1953ء میں تحریک ختم نبوت کا پھر سے آغاز ہوا۔ مارچ 1953ء میں مولانا مودودیؒ کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا ۔ ’’ قادیانی مسئلہ‘‘ نامی کتاب لکھنے کی پاداش میں فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائی، اس پر نہ صرف پاکستان ، بلکہ عالم اسلام میں شدید رد عمل ہوا۔ سزائے موت پر مولانا مودودیؒ سے رحم کی درخواست دائر کرنے کا کہا گیا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ حکومت نے مولانا کی سزائے موت کے خلاف ہمہ گیر احتجاج سے مجبور ہو کر ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ، بالآخر 29اپریل1955ء کو آپ رہا ہوئے ۔7ستمبر 1974 ء کو قومی اسمبلی نے مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کے لئے آئین میں ترمیم کر کے مسئلہ قادیانیت پاکستان میں ہمیشہ کے لئے حل کر دیا۔ مسلم اور غیر مسلم کی تحریر بھی مولانا مرحوم کی تحریر سے ہی اخذ کی گئی، اس طرح اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کو بڑا منفرد مقام عطا کیا ، یہ ان کی بالغ نظری، ہنود و یہود کی سازشوں اور عالمی استعماری ہتھکنڈوں پر گہری نظر کا ہی نتیجہ تھا۔
مولانا مودویؒ قوم کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ اسلامیان پاکستان کو اس غفلت اور غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہئے کہ اب ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی ہے اور قادیانی مسئلہ پورے کا پورا حل ہو گیا ہے۔ ذیل میں آپ کا خط پیش کیا جاتا ہے جو آپ نے مولانا سمیع الحق کے خط کے جواب میں لکھا ۔ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ خطرات ابھی موجود ہیں اور یہ کہ ہم نے اس پر اب تک کتنا کام کیا ہے ۔
لاہور6نومبر 1974ء
محترمی و مکرمی ، السلام علیکم ! آپ کا عنایت نامہ ملا ، جس میں آپ نے قادیانی مسئلے سے متعلق چند سوالات دریافت کئے ہیں۔ آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ قادیانی مسئلے کے حل پر آپ کے احساسات کیا ہیں ؟
ظاہر ہے کہ اس مسئلے کے حل سے آپ کی مراد قومی اسمبلی کا فیصلہ ہے۔ بلا شبہ اسمبلی اور حکومت کا یہ فیصلہ نہایت مستحسن اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے مسرت انگیز ہے اور اس پر ہم جتنی بھی خوشی منائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں، بالکل بجا ہو گا لیکن ہماری حکومت ، نیشنل اسمبلی اور عامۃ المسلمین کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ اس سلسلے میں ان کی ذمہ داری اب ختم ہو چکی ہے اور اس فیصلے سے قادیانی مسئلہ پورے کا پورا حل ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف پہلا قدم ہے، جو صحیح سمت میں اٹھایا گیا ہے اور ابھی بہت سے ضروری اقدامات ایسے باقی ہیں جن کے بغیر یہ قضیہ جوں کا توں باقی رہے گا بلکہ خدشہ یہ بھی ہو سکتا ہے خدا نخواستہ مزید پیچیدگیاں پیدا نہ ہو جائیں اور ہم اس اہم فیصلے کے فوائد سے محروم نہ ہو جائیں۔ آپ کا ایک عنایت نامہ پہلے آچکا تھا۔ اب یاددہانی اور تقاضے کا دوسرا خط آیا ہے، جس میں آپ نے جلد جواب مانگا ہے۔ چند ضروری کرنے کے کام جو اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں۔ (1): 7ستمبر1974ء کو قومی اسمبلی نے آئینی ترمیم کے علاوہ ایک قرارداد بھی منظور کی ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ الف کے بعد دفعہ ب کا اضافہ کیا جائے جس میں درج ہو کہ ’’ ایک مسلمان جو محمدؐ کی ختم نبوت کے مفہوم مندرجہ آئین پاکستان دفعہ260شق نمبر3کے خلاف عقیدے کا اعلان یا اس کے خلاف عمل یا تبلیغ کرے، وہ قابل سزا و تعزیر ہو گا‘‘۔ یہ قرار دادا غالبا عجلت میں مرتب اور پاس کر دی گئی ہے اور اس کی ابتدا میں مسلمان کا لفظ رکھنے کی وجہ سے اس میں ابہام و اشتباہ پیدا ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس جرم شنیع کا مرتکب ہو گا اور مرتکب ہونے کے بعد وہ مسلمان کہلانے کا مستحق رہ سکے گا۔ خود دستوری ترمیم ہی نے یہ طے کر دیا ہے کہ ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو گا، خواہ وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے، چنانچہ ان الفاظ کے ساتھ اس سزا کے اطلاق میں دشواری کا سامنا ہو گا۔ لہٰذا تعزیرات پاکستان میں اس مجوزہ ترمیم کو واضح اور غیر مبہم بنانے اور اس کے مقصد تنفیذ کو آسان بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک مسلمان (A Muslim)کی بجائے ایک مدعی اسلام کیا جائے، تاکہ کوئی فرد بشر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ختم نبوت کے مسلمہ عقیدے و مفہوم کے خلاف کسی قوم و عمل کا اظہار نہ کر سکے ۔ ( 2 ): نیشنل اسمبلی کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے کچھ مزید قانون سازی بھی بالکل ناگزیر ہے۔ مثال کے طور پر انتخابی قوانین میں ایسی ترمیم ہونی چاہئے، جس کے مطابق ووٹروں کے فارم میں نام درج کراتے وقت ہر لاہوری اور ربوی مرزائی پر یہ قانونا لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلموں کے خانے میں مرزائی یا احمدی لکھوائے اور ان دونوں گروہوں کا اپنے آپ کو مسلم لکھوانا جرم ہو گا، جس کی کم سے کم سزا حق رائے دہی سے محرومی ہو گی۔ رجسٹریشن ایکٹ جس کے تحت شناختی کارڈ بن رہے ہیں، ان میں بھی ترمیم ہونی چاہیے جس کی رو سے کارڈ میں بھی ایسی تصریح لازم اور غلط بیانی موجب سزا ہو ۔ ( 3 ): اسی طرح ہر ملازم حکومت پر بھی یہ لازم ہونا چاہئے کہ اگر وہ قادیانیوں کے ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اس کی باقاعدہ اطلاع اپنے محکمے کے توسط سے حکومت کو دے اور جو ایسا نہ کرے یا غلط اطلاع دے، اسے ملازمت کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ پاسپورٹ میں بھی اسی قسم کا اندراج اور اس کی خلاف ورزی پر سزا ازروئے قانون لازم ہونی چاہئے۔ معلوم ہوا ہے کہ حکومت کے بعض محکموں میں قادیانیوں کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں، لیکن ان میں بعض قادیانیوں کا نام درج نہیں ہو رہا یا اندراج ہوجانے کے بعد اسے حذف کرا دیا گیا ہے، لیکن اس پر کسی قادیانی کے خلاف کوئی باز پرس یا تادیبی کارروائی نہیں ہو رہی کیونکہ قانون اور قواعد و ضوابط میں ایسی گنجائش موجود نہیں ہے ۔ ( 4 ): قادیانیوں نے سول، بالخصوص فوجی ملازمتوں میں مسلمانوں کے حقوق پر جس طرح غاصبانہ اور ناروا قبضہ کر رکھا ہے ، اس کا تدارک اور تلافی بھی ضروری ہے، جس طرح صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے لئے مسلمان ہونا شرط لازم ہے، اسی طرح بعض دوسرے کلیدی مناصب مثلاً چیف آف دی آرمی سٹاف، عدالت ہائے عالیہ کے چیف جسٹس، اسمبلیوں کے اسپیکر، سفرا، صوبوں کے گورنر، پبلک سروس کمیشن کے صدر ( چیئر مین) کے لیے بھی مسلمان ہونا قانونا لازم قرار دیا جائے۔ اسی طرح بعض حکومتی اور نیم حکومتی تعلیم و تربیت کے اداروں میں داخلے کے لئے مسلمانوں اور غیر مسلموں کا کوٹہ الگ الگ مقرر کیا جاتا ہے، وہاں بھی قادیانی امیدواروں کے لئے اپنے مذہب کا اعلان داخلے کے وقت لازم اور خلاف ورزی موجب سزا ہونی چاہئے۔ ( 5 ): قادیانی یہ بات علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے فیصلے کے باوجود وہ مسلمان ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر اپنے عقائد کو اسلامی عقائد کہہ کر ملک کے اندر اور باہر اس کی تبلیغ و تلقین کر رہے ہیں۔ مرزا غلام احمد کو وہ اب تک نبی، مسیح موعود، مہدی موعود، اس کے رفقاء کو صحابہ کرام اور اس کو خلیفۃ المسیح کہہ رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بڑا سنگین اور حکومت اور عامۃ المسلمین کے لئے حد درجہ غور طلب ہے۔ یہ دستور کی بھی خلاف ورزی ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے باعث دِل آزاری اور اشتعال انگیز بھی ہے۔ جس گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جا چکا ہے، اسے اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے اور اسلام کا مدعی و مبلغ ہونے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اگر یہ لوگ اسی طرح مسلمانوں کے سینے پر مونگ دلتے رہے تو ان کے اور مسلمانوں کے مابین کبھی صلح و آشتی کی فضا قائم نہیں رہ سکے گی، اور حکمران ان کی حرکتوں سے کتنا ہی اغماض کیوں نہ برتیں، جب تک عام مسلمانوں میں ایمان و اسلام کی رمق باقی ہے، وہ ایسی سرگرمیوں کو کبھی برداشت نہیں کر سکیں گے ۔ ( 6 ): قادیانیوں کے بالمقابل مسلمانوں نے جس اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا ہے، اسے قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جزوی اختلافات اگر ہوں تو انہیں مناسب حدود کے اندر رہنا چاہئے، اختلاف کو مخالفت کا رنگ دینے سے اجتناب کرنا چاہئے اور ہر اختلاف کو حق و باطل اور کفر و اسلام کا اختلاف نہیں بنا لینا چاہئے، ورنہ اس کا فائدہ قادیانیوں ہی کو پہنچے گا، جیسا کہ پہلے پہنچتا رہا ہے۔ ( 7 ): قادیانیوں کی دستوری تکفیر کے بعد ایک ضروری کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے اسلوب و انداز میں قادیانیت سے تائب ہونے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جائے، جن لوگوں کے ہاتھ میں قادیانیوں کی قیادت و سیادت ہے اور جن کے مفادات ان قائدین سے وابستہ ہیں، ممکن ہے کہ وہ اسلام لانے میں تامل و تذبذب سے کام لیں اور پاکستان چھوڑ جانے کو ترجیح دیں، لیکن عام قادیانی جو ’’ قصر خلافت‘‘ کے نزدیک نہیں، بلکہ مسلمانوں کی عام آبادیوں میں مقیم ہیں، ان کے سامنے اگر اسلام کی اصل تعلیمات کو صحیح طریق پر پیش کیا جائے اور قادیانیت کے حقیقی خد و خال بھی ان پر اچھی طرح واضح کئے جائیں تو وہ اِن شاء اللہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے میں توقف اور پس و پیش نہیں کریں گے۔ ان میں بہت سے لوگ ہم نے ایسے بھی دیکھے ہیں، جو مرزا غلام احمد اور اس کے لڑکوں کی بہت سے تحریروں سے واقف ہی نہیں ہیں اور جب ان کے سامنے پہلی مرتبہ وہ تحریریں آئیں، تو وہ حیران اور دم بخود ہو کر رہ گئے اور قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گئے ۔ ( 8 ): اس سلسلے میں ہمارا یہ مطالبہ بھی مسلسل ہونا چاہئے کہ’’ صمدانی رپورٹ‘‘ کو من و عن شائع کیا جائے اور جو لوگ اس رپورٹ کی رو سے مجرم ہیں ، ان کو کیفر کردا ر تک پہنچایا جائے۔ نیز جو مزید سیاسی اور انتظامی اقدامات اس رپورٹ کی روشنی میں ناگزیر ہوں، ان کو فورا عمل میں لایا جائے۔ اگر ہماری حکومت اور عوام الناس نے غفلت اور تساہل سے کام لیا تو خدشہ ہے کہ اس سازشی گروہ کے ہاتھوں ہمیں مزید زخم نہ کھانے پڑیں ۔۔
لاتدر اللہ
خاکسار
ابوالاعلیٰ

جواب دیں

Back to top button