کوششیں

محمد مبشر انوار ( ریاض)
اقتدار کا نشہ انسان سے کیا کچھ کروا دیتا ہے، اس کا اندازہ پاکستان کے موجودہ حالات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بظاہر پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری عمل سے بنی ہوئی حکومت ہے لیکن جانے نجانے گل ہی نہ جانے کے مصداق، ساری دنیا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں جمہور ی رائے کا گلا گھونٹا گیا ہے، جمہوریت کا قتل عام ہوا ہے اور ہنوز جاری ہے۔ حیرت تو اس امر پر ہے کہ ہوس اقتدار میں مبتلا حکمران کسی بھی صورت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ جمہوریت کے مسلمہ و مروجہ اصول کیا ہیں اور ان کے مطابق نتائج کو کیسے تسلیم کیا جاتا ہے ، انتقال اقتدار کس طرح کامیاب جماعت کو کیا جاتا ہے، کیسے ’’ سپورٹس مین سپرٹ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کی جاتی ہے اور مستقبل کے لئے نئے سرے سے کمر کس کے میدان میں اترا جاتا ہے، اس کی مثال بھارت میں ہونے والے انتخابی نتائج سے دیکھی جا سکتی ہے۔ کس طرح کانگریس زوال کے بعد نئے سرے سے عوامی حمایت کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور کیسے انتہا پسند جماعت کی کامیابی کو تسلیم کرکے اس کا حق حکمرانی تسلیم کرتی رہی ہے ۔ بھارت میں نہ تو نگران حکومتوں کا شوشہ ہے اور نہ ہی کسی کو الیکشن کمیشن سے کوئی شکوے یا شکائتیں ہیں، تمام تر انتخابی عمل پر سیاسی جماعتیں نہ صرف متفق ہیں بلکہ ان پر صاد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے میں تمام تر سیاسی جماعتوں کا بھرپور کردار ہے اور عدالتیں آئین و قوانین کی محافظ کے طور پر روبہ عمل دکھائی دیتی ہیں، ماسوائے مستثنیات کے کہ جہاں معاملات مشکوک دکھائی دیتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی آئین و قانون کی بالادستی ہی دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے حالات کا موازنہ کیا جائے تو سوائے شرمندگی کے کچھ نظر نہیں آتا اور قائد اعظم کے فرمان کے عین مطابق ، کھوٹے سکوں نے جو تباہی و بربادی، اس ملک میں کی ہے، اس کی نظیر ڈھونڈے سے بھی کہیں اور نہ ملے گی ماسوائے اکا دکا ریاستوں کے، جن میں بنگلہ دیش و سری لنکا کی مثال دی جا سکتی ہے یا چند ایک افریقی ممالک کی کہ جہاں حکمرانوں نے ذاتی مفادات کو، قومی مفادات پر مقدم رکھتے ہوئے ملک و قوم کی کشتی ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تاہم ان ریاستوں کے حالات کسی بھی طور یہ جواز فراہم نہیں کرتے کہ پاکستان میں جو کچھ ہوا، یا ہو رہا ہے، اس پر صبر و شکر کیا جائے یا یہ سمجھا جائے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے لہذا پاکستان میں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ سب کچھ ہونا یقینی طور پر انہونی ہے کہ پاکستان کی بنیاد جس نظرئیے پر رکھی گئی تھی، یہ خرافات اس نظرئیے کو تو قطعا گدلا نہیں کر سکتی البتہ یہاں کے حکمرانوں کی گندی و پراگندہ ذہنیت کو آشکار ضرور کرتی ہیں اور تاریخ میں حکمرانوں کی یہ حیثیت بلا شک و شبہ لکھی جائے گی کہ ’’ دوقومی نظرئیے ‘‘ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے اس ملک کے ساتھ ، ’’ کھوٹے سکوں‘‘ نے کیا سلوک کیا تھا۔
ہوس اقتدار میں ڈوبے یہ بیمار ذہن حکمران ، اپنی حکومتوں کو دوام دینے کے لئے کس حد تک گر جاتے ہیں، کس طرح آئین و قانون کو گھر کی لونڈی بنانے سے نہیں چوکتے اور کیسے اسے موم کی ناک بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں، اس کے مظاہر ہم گزشتہ دو اڑھائی سال سے بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ انتخابی عمل ہو یا اس کے نتیجہ میں انتخابی عذر داریاں ہوں، مخالفین کی مشکیں کسنی ہوں یا انہیں دیوار سے لگانا ہو، ان کا جمہوری حق چھیننا ہو یا کسی بھی طرح اپنے اقتدار کو محفوظ بنانا ہو، یہ کسی بھی حد سے گزرنے سے گریز نہیں کرتے۔ موجودہ دور میں آئینی ریاستوں میں، آئین کو جو تقدس حاصل ہے، اس کے ساتھ جو کھلواڑ اس دور میں جاری ہے، وہ ساری دنیا کے سامنے ہے کہ کس طرح ذاتی مفادات کی خاطر، آئینی اداروں کے ہاتھ پیر باندھنے کی خاطر کیسے ان میں ترامیم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، کس طرح قوانین کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے کہ کسی طرح بس اقتدار محفوظ رہے ۔ اس وقت بھی احتساب سے متعلق ایک قانون میں ترمیم کے حوالے سے جو فیصلہ عدالت عظمی نے صادر کیا ہے، اسے محفوظ ترین الفاظ میں بھی اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب ’’ باڑ ہی کھیت کو کھانے پر آ جائے‘‘ تو ایسے ہی فیصلے متوقع ہوتے ہیں۔ قانون کی بالادستی و حکمرانی والے کسی معاشرے میں نیب ترامیم کو، جیورس پروڈنس کے متصادم جا کر صحیح قرار دینا، پاکستان جیسے ملک میں ہی ممکن ہے وگرنہ ایسی بے شرمی و ڈھٹائی کا مظاہرہ قانون کے محافظ دنیا کے کسی کونے میں نہیں کر سکتے صرف اس مفروضہ پر کہ پارلیمان سپریم ہے لہذا وہ چاہے قانون سازی کر سکتی ہے، خواہ وہ جیورس پروڈنس یا آئین سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔
اس وقت بھی ایسی ہی کوششیں پوری شدومد کے ساتھ جاری ہیں اور آئینی اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد کا راستہ روکنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں۔ خواہش ہے کہ کسی طرح موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کو ممکن بنایا جا سکے کہ ان کی عدم موجودگی میں اقتدار کا سنگھاسن بری طرح ڈولتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ آئینی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے، آئین نے واضح طور پر کردار و مدت کا تعین کر رکھا ہے کہ عدالت عظمی کے جج کی حد عمر 65سال ہے جبکہ سابق چیف جسٹس مرحوم سجاد علی شاہ نے 1996ء میں سیاسی مداخلت کا راستہ روکنے کے لئے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے، سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس بنانے کا حکم جاری کیا گو کہ وہ سیاسی حکومت کی سازش کے باعث، اس کا شکار ہوگئے، تاہم اس کے بعد سے ہنوز عدالت عظمی کے چیف جسٹس کی تعیناتی ازخود سینیارٹی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی مداخلت ختم ہو چکی اور سیاسی حکومت کے لئے یہ لازمی ٹھہرا کہ سینئر موسٹ جج کی تعیناتی کا اعلان کرے اور کسی قسم کی جوڑ توڑ سے باہر رہے، اس کے باوجود ججز کی سیاسی وابستگیاں ہنوز دیکھنے کو ملتی ہیں اور کہیں نہ کہیں بہرطور ہمیں ملک قیوم کی جھلک ججز میں دکھائی دیتی ہے۔ اس معاملے کو بہرطور ارتقائی عمل کہہ سکتے ہیں، خطے کے اثرات کہہ سکتے ہیں، عدم میچورٹی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ججز جو ملک قیوم کی طرز پر بروئے کار آتے ہیں، اس منصب کی حساسیت سے نظر اندازی کرتے ہوئے، ذاتی وابستگیوں کو ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں، جو نہیں ہونا چاہئے تو دوسری طرف سیاسی پراگندہ ذہنیت کے حامل سیاستدان ہیں کہ جن کی سوچ حصول اقتدار سے آگے جاتی ہی نہیں اور وہ ایسے ججز کے ساتھ میل جول و روابط ہی اسی لئے رکھتے ہیں کہ ان سے فائدہ لیا جا سکے۔ اس ضمن میں جج ارشد ملک مرحوم کی مثال دی جا سکتی ہے کہ کس طرح ان کو اپنے حق میں فیصلے دینے پر مجبور کیا گیا گو کہ کسی بھی جج ہی نہیں بلکہ عام شہری کے لئے بھی ایسے کردار کی ایک اسلامی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں؟۔
مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں جاری ہوئے فیصلے کے بعد، حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بج چکی ہیں اور حکومت ہر صورت یہ چاہتی ہے کہ مستقبل میں آنے والے چیف جسٹسز کا راستہ کسی بھی صورت روکا جائے۔ اس ضمن میں ایک بار پھر آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کئے بغیر راستہ بنانا ممکن نظر نہیں آتا کہ موجودہ آئین کے مطابق عدالت عظمی کا کوئی بھی جج،65سال کی عمر کے بعد ریٹائر ہوجاتا ہے، خواہ وہ عدالت عظمی کے چیف جسٹس کی حیثیت سے فقط ایک دن یا ایک ماہ ہی فائز رہا ہو، لیکن اس کی تعیناتی اس کی سینیارٹی کی بنیاد پر ہی ہو گی۔ حکومت کے حوالے سے یہ باتیں زیر گردش رہی ہیں کہ حکومت اس آئینی شق میں اس حد تک ترمیم کی خواہشمند تھی کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت کو تین سال تک کر دیا جائے لیکن پارلیمان میں عددی اکثریت موجود نہ ہونے کے باعث اس آئینی شق کو تبدیل کرنے سے قاصر ہے، جبکہ خبریں یہ بھی ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ عدالت عظمیٰ کے ججز کی حد عمر میں تین سال کا اضافہ چاہتے تھے تا کہ کسی کا حق مجروح نہ ہو۔ گو کہ اس کا اعلان وزیر قانون کر چکے ہیں کہ حکومت کے پاس عددی اکثریت موجود نہیں لہذا ایسی کوئی بھی آئینی ترمیم نہیں ہو سکتی اور دوسری بات کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مدت ملازمت میں توسیع کے خواہشمند بھی نہیں، اس لئے یہ ممکن نہیں۔ تاہم اس کے باوجود حکومت کے نئے چیف جسٹس کا اعلان نہ کرنا، پس پردہ دیگر کوششوں کو آشکار کرتا ہے کہ بعینہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سادہ اکثریت سے منظور کروایا گیا، بعینہ ایک نیا بل پارلیمان سے سادہ اکثریت سے منظور کروایا جائے، جس میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال تک متعین کر دی جائے، عدالت عظمیٰ میں ججز کی تعداد بڑھا کر پسندیدہ ججز کی تعیناتی ممکن بنائی جا سکے، بینچز بنانے کے لئے تین رکنی کمیٹی کی بجائے، اس کی تعداد بڑھا دی جائی، سب سے اہم ترین کہ چیف جسٹس کی تعیناتی میں ماضی کی طرح سیاسی حکومت کو اختیار مل جائے کہ عدالت عظمی یا سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے نام بھیجیں جائے اور حکومت ان ناموں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس تعینات کر دے۔ مجوزہ ترامیم یا نیا بل ’’ ڈنگ ٹپائو‘‘ قانون سازی کی بدترین مثال ہو گی کہ جس میں حکومت کا مطمع نظر صرف اور صرف اپنے اقتدار کو تحفظ دینا دکھائی دیتا ہے، ملک و قوم کی کوئی بہتری اس میں نظر نہیں آتی۔ بالفرض اگر یہ قانون بن بھی جائے تو کیا یہ قابل عمل ہو سکتا ہے بالخصوص چیف جسٹس کی تعیناتی کے حوالے سے، یہ قانون عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی توہین شمار نہیں ہو گا،اس قانون کی موجودگی میں کئی سینئر نا پسندیدہ ججز کو بیک جنبش قلم اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکے گا، اور کیا عدالت عظمی اس کی توثیق کرے گی یا نظر ثانی میں اس قانون کو ختم کرے گی؟ آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے، نظرثانی درخواست لگتے ہوئے، فیصلہ آنے تک حکومت کو بہت وقت نہیں مل جائیگا، بہرحال کوششیں جاری ہیں دیکھتے ہیں کہ اس رسہ کشی میں کامیابی کس کا مقدر بنتی ہے، آئین و قانون کے محافظوں کی یا کھلواڑ کرنے والوں کی۔





