Column

نیشنل ایکشن پلان تو موجود ہے

محمد اعجاز الحق

صدر پاکستان مسلم لیگ ( ضیاء الحق شہید) رکن قومی اسمبلی

ملک کے صاحب اقتدار اور با اختیار طبقے کے لیے کیلئے یہ بات کتنی غور طلب ہے کہ وہ کھلی آنکھیں اور کھلے دل کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیں کہ بطور صاحب اقتدار آئین انہیں کن باتوں کا پابند بناتا ہے اور جب وہ منصب سنبھالتے ہیں تو حلف کے الفاظ کیا محض الفاظ ہی ہوتے ہیں یا یہ ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرتے ہیں پورا ملک اس وقت کس طرح کی مشکلات اور بلوچستان کس قدر پریشان ہے، سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کس درجہ پر نظر آتا ہے قومی اضطراب تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے اور پُر آشوب بلوچستان مرکز سے کس طرح کا مطالبہ کر رہا ہے لہولہان ہوتے بلوچستان کی صورت حال کو سنبھالنے کی حکومتی سوچ اور اپروچ خود اپنی جگہ پر تشویشناک ہے، رواں ہفتے میں جو کچھ ہوا یہ افسوسناک واقعہ ہے اور یہ ہماری گورننس کی تاریخ کا یہ تلخ ترین حوالہ ہے کہ بلوچستان میں اضطراب اور دہشت گردی کتنی جانیں لے لی ہیں، ایک حلقے کا خیال ہے کہ صدر جنرل مشرف کی حکومت کے فیصلوں کا رد عمل ابھی تک موجود ہے، اکبر بگٹی کا حوالہ سامنے رکھیں تو اس وقت چودھری شجاعت حسین، سید مشاہد حسین اور متعدد تجزیہ نگاروں پر مشتمل مصالحتی کمیٹی کی تجویز دی گئی تھی لیکن اس تجویز کے بعد جو ہوا وہ صوبے کا ہی نہیں پاکستان کا بڑا غضبناک المیہ تھا آج کا پرآشوب بلوچستان اسی مس ہینڈلنگ کا دوررس نتیجہ ہے، افسوس ناک واقعہ کے بعد پہلے وزیر داخلہ وہاں گئے ان کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کوئٹہ گئے وزیر داخلہ بھی ان کے ہمراہ تھے کوئٹہ پہنچ کر ایپکس کمیٹی کی صدارت کی اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہوئی، جو فیصلے ہوئے اب ان پر عملدرآمد کے منتظر ہیں، تاہم وزیر داخلہ نے کوئٹہ پہنچنے سے قبل جو شاہکار بیان دے ڈالا اس سے بلوچستان کی حساس صورتحال کو سمجھنے والے ہر سمجھ دار کی انگلی نادانستہ دانتوں تلے آگئی اور فکر سے آنکھیں کھل گئیں ان کا بیان یہ تھا، بلوچستان آپریشن کی ضرورت نہیں، دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں، یہ بیان فائدہ دے گا یا نہیں، حکومت خود اس کا تجزیہ کرے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے اس طرح بیان کی نہیں، ایک ہما گیر قومی پالیسی کی ضرورت ہے، پورے پاکستان کو ’’ ون پیج‘‘ ہونا ہوگا دستور اور آئین کی سرزمین پر ملکی استحکام کے بیج بونا ہوںگے اور اس کے نتیجے میں پارلیمانی قوت تقویت ملے گی پھر وسیع البنیاد حل بھی نکل آئے گا بہترین یہ ہو سکتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یا پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ معاملہ زیر بحث لایا جائے اور پارلیمنٹ کے اراکین پر مشتمل نیشنل ایکشن کمیٹی تشکیل دی جائے، جو سب سے پہلے تو استحکام کیلئے کام کرے پاکستان اب کسی ایسی تبدیلی کا ہرگز متحمل نہیں، جس میں دستور اور آئین سے ماوراء کوئی فیصلہ ہو، اچھی پیش رفت یہ بھی ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم کا پاک فوج پر غیرمتزلزل اعتماد ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے، کوئی منفی قوت، اعتماد اور محبت کے اس رشتے کو نہ کبھی کمزور کر سکی، نہ ہی آئندہ کر سکے گی، افواج پاکستان نے ملک کے اندرونی اور بیرونی دفاع کی قسم کھا رکھی ہے، آرمی چیف یہ بالکل درست کہا، ہمارے قومی شعور کی بنیاد پر نظریہ پاکستان ہے جو ہمیں قرارداد مقاصد کے ذریعے رہنمائی فراہم کرتا ہے آرمی چیف نے اندرونی اور بیرونی دفاع کی قسم کھا کر اس عزم کا اظہار کیا ہے، تشویش کی یہ بات ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات بالخصوص بلوچستان اس وقت پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ دہشت گردی کی اس لہر کے پیچھے ہمارا ازلی دشمن بھارت اور اس کی کٹھ پتلی کابل انتظامیہ ہی ملوث ہے جو پاکستان میں موجود اپنے سہولت کاروں کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے چاہے اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک ان سے آہنی ہاتھوں سے اور بہترین حکمت سے نمٹنے کی ضرورت ہے، تاریخ کے حوالے یہ ہیں کہ بلوچستان میں تین فوجی آپریشن ہوئے، ان میں سے ایک ایوب خان نے کیا، جو پختون تھے۔ دوسرا آپریشن ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا جو سندھی تھے اور تیسرا آپریشن جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا، ملک کے ایک نامور تجزیہ کار نے ڈاکٹر حسین پراچہ گزشتہ ہفتے لکھا ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانہ اقتدار میں بلوچستان خوشحالی اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے مقرر کردہ جنرل رحیم الدین 1978ء سے لے کر 1984ء تک چھ برس بلوچستان کے گورنر رہے ان کے زمانے کو اس صوبے کا ایک سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ گورنر رحیم الدین نے بیک وقت سہ نکاتی پروگرام پر عملدرآمد کیا۔ پہلے قدم کے طور پر انہوں نے لاء اینڈ آرڈر کو فول پروف کیا اور قانون کی عملداری کو یقینی بنایا۔ جنرل صاحب نے کوئی ملٹری آپریشن کیا نہ ہی کوئی ٹینک اور گن مین بلائے۔ بس ایک قاتل کو سارے قانونی تقاضے پورے کرکے بیچ چوراہے پھانسی پر لٹکا دیا۔ گورنر صاحب نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ سارے صوبے میں گڈ گورننس حقیقی معنوں میں قائم کر دی۔ عوام الناس کی فلاح بہبود اور ان کے لیے تعلیمی و طبی خدمات فراہم کرنے پر خطیر رقوم صرف کی گئیں۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وہاں ایک پیسے کی بھی کرپشن نہیں ہوئی۔ جنرل رحیم الدین کے زمانے میں ہر امیر غریب کو انصاف میسر تھا۔ میرٹ پر ہی تقرریاں ہوتی تھیں اور میرٹ پر کسی ادنیٰ کا کوئی کام رُکتا اور نہ کسی اعلیٰ کا۔ اس گڈ گورننس سے صوبے کے عوام بہت خوش تھے۔ گورنر صاحب نے تیسرا کام یہ کیا کہ سرداروں کا مکمل احترام ملحوظ خاطر رکھا۔ صوبے میں یہ چھ سال امن و امان اور حسنِ انتظام کے اعتبار سے مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ ان چھ سالوں میں بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے علم وادب کا محاذ سنبھالے رکھا، طارق کھوسہ سابق آئی جی بلوچستان ہیں وہ بھی ایک فرض شناس اور قابل افسر گزرے ہیں، گورنر رحیم الدین کی گورنری کے زمانے میں انہوں نے تقریباً پانچ برس تک ایک پولیس افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ پہلے 1980ء کی دہائی میں ایس پی اور ایس ایس پی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پھر 2007ء میں بطور آئی جی بلوچستان کام کیا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا۔ کھوسہ صاحب نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی دھماکہ ہوتا تھا، تاہم جلد ہی جنرل رحیم الدین کے بارے میں یہ شہرت عام ہو گئی کہ وہ ایک سخت گیر اور دیانت دار منتظم ہیں، وہ سختی سے کام لیتے اور اس میں کوئی رو رعایت نہ کرتے تھے۔ وہ اس بات کا پورا پورا انتظام کرتے کہ سول بیوروکریسی اور پولیس کے افسران کو خالصتاً میرٹ پر لگایا جائے۔ تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ کھوسہ صاحب نے بتایا کوئٹہ سمیت انہوں نے بلوچستان کے دیگر کئی شہروں میں پولیس افسر کی حیثیت سے بے دھڑک کام کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم عام جیپوں میں پھرتے اور کوئی ڈر خطرہ محسوس نہ کرتے تھے۔ اس زمانے کے سول اور پولیس افسران اس صوبے میں قیامِ امن اور خدمتِ عوام کو باعث فخر سمجھتے تھے۔ کھوسہ صاحب نے بتایا کہ میں نے اپنی چھ سات سالہ خدمات کے دوران جو نہایت اہم سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ بلوچ کو عزت دو اور پختون پر سچا اعتماد کرو تو وہ کبھی آپ کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپیں گے۔ آج بھی ہمیں بلوچستان کے لیے جنرص محمد ضیاء الحق اور گورنر رحیم الدین جیسے فیصلوں کی ضرورت ہے، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ابھی حال ہی میں کہا ہے کہ ہم مصمم ارادے اور اجتماعی بصیرت کے ساتھ بلوچستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کریں گے اور دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے بلوچستان میں پیش آنے والے حالیہ دلخراش واقعے پر پوری پاکستانی قوم غمزدہ ہے، دہشت گردی کے گھنائونے منصوبے کے تحت بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کا سرکچلا جائے گا۔ کوئٹہ میں نیشنل ایکشن پلان کی صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ 26اگست کو بلوچستان میں دہشت گردی کا جو واقعہ پیش آیا اس کی وجہ سے پورے پاکستان کے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم اجتماعی بصیرت و قوت ارادی اور غیر متزلزل ارادے کے ساتھ بلوچستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کریں گے۔ وزارت خارجہ نے عالمی یومِ متاثرین دہشت گردی پر جاری اپنے بیان میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے دوران جانیں دینے والوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وارداتیں معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ایک طرف جانی و مالی نقصان ہورہا ہے تو دوسری جانب بیرون ممالک میں موجود سرمایہ کاروں کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان تو بہرطور موجود ہے اور اس کے تحت ہمارے سکیورٹی ادارے ملک کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کریں، مسائل کے حل کے لیے ہونہار افسروں کی بلوچستان میں تعیناتی بہت ضروری ہے اور بلوچستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کیے جانے چاہئیں، جو بھی عناصر امن و امان کو تباہ کرنے کی کوشش کریں، ریاست ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتے ہوئے انہیں نشانِ عبرت بنا دے۔

جواب دیں

Back to top button