بلوچستان کا علاج ؟؟؟
علی حسن
بلوچستان فوری علاج کا طالب ہے۔ ہر واقعہ کے بعد وہاں کے حالات پاکستان کی سالمیت کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔ حکومت یقینا بہت کچھ کر رہی ہوگی لیکن حالات کو خراب کرنے والے عناصر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں۔ حالات کا فائدہ اٹھا کر ہی دوست ممالک بھی بلوچستان کی بعد معدنیات میں دلچسپی بر ملا اظہار کر چکے ہیں۔ حالانکہ حالات مخدوش ہیں۔ بلوچستان میں 26اگست کو جو اندوہناک واقعہ پیش آیا، اس پر سب ہی افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ انسانوں کے قتل عام پر کون خوش ہو سکتا ہے۔ پر امن مسافروں کی لسانی شناخت کر کے انہیں قتل کیا گیا۔ جواب میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے والی قوتوں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی۔ اس سے قبل بھی اس طرح کی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ بلوچستان میں اس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے لیکن علاقہ میں امن قائم نہیں ہو پا رہا ہے۔ ن لیگ کی وفاقی حکومت ہے، بلوچستان میں مقتدر قوتوں کی سرپرستی میں حکومت کام کر رہی ہے، ملک کے صدر بلوچ ہیں، پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ حالات اور امن کے درمیان خط کھنچا ہوا ہے۔ آصف علی زرداری نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے ہم خیال افراد کو بھی صوبائی حکومت میں شامل کیا۔ حکومت کی تمام سہولتیں، مراعات ان سیاسی لوگوں کو حاصل ہو گئیں لیکن بلوچستان میں قتل و غارت گری کی روک تھام نہ ہو سکی۔ ن لیگ کے قائد نے اپنی ملک واپسی کے بعد بلوچستان کا ایک روزہ طوفانی دورہ کیا تھا، انہوں نے بہت سارے لوگوں کا ’’ سیاسی شکار ‘‘ کیا تھا۔ شکار کئے گئے افراد میں سے بہت سارے لوگ بلوچستان میں بظاہر نام اور شہرت رکھتے ہیں لیکن کسی نے نتیجہ نہیں دیا۔
جس طرح پاکستانی سیاستدانوں کے دل ہر وقت اقتدار کے لئے مچلتے رہتے ہیں اسی طرح بلوچستان کی سیاسی شخصیات کا طویل عرصہ سے وتیرہ رہا ہے کہ وہ ’’ اڑنے‘‘ کے لئے بے قرار رہتے ہیں۔ جب انہیں ان کا من پسند ٹھکانہ نظر آجاتا ہے تو وہ وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ تیز رفتاری کے ساتھ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں سے یہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کہ بلوچستان میں جس قسم کی جس انداز میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی پائی جاتی ہے اسے ختم کرانے کے لئے وہ لوگ اپنا کردار کیوں نہیں ادا کرتے ہیں۔ جب دیکھو دہشت گردی کی لہر ابھرتی ہے ، اور عسکریت پسند دہشت گرد ی کا کھلے عام مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ دہشت گرد کیوں نہیں پکڑے جاتے ہیں۔ انہیں کن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے ؟ ان عناصر کی کھل کر نشان دہی کیوں نہیں ہو پاتی ہے۔ کیا سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جانیں قربان کریں۔ حکومتوں میں شامل افراد ہر واقعہ کی مذمت کرتے ہیں، پھر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ وفاقی حکومت ہو یا بلوچستان کی صوبائی حکومت، بلوچستان میں کوئی حکومت کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
لوگوں کو یاد ہوگا اور بلوچستان کے سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اچھی طرح یا د ہوگا کہ کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جنرل رحیم الدین خان کو بلوچستان میں گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں بھی بلوچستان کے حالات بہت مخدوش تھے۔ جنرل رحیم الدین جنرل ضیاء الحق کے سمدھی بھی تھے۔ ان کے دور میں حالات چند دنوں میں ہی معمول پر آگئے تھے لیکن ان کے واپس جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد حالات پلٹ گئے تھے۔ ان کی تبدیلی کے کچھ عرصہ بعد بلوچستان اور امن و امان میں فاصلہ پیدا ہو گیا تھا۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، دونوں بلوچستان میں اپنی موجودگی رکھنا چاہتے ہیں۔ صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے دل پر زخم لگا ہوا ہے، ہم نے اپنے دور میں اس پر کچھ مرہم رکھا تھا، بلوچستان میں موجود ہر چیز کسی اور کی نہیں آپ کی ہے۔ چاہے وہ گیس ہو یا پٹرول یا کچھ اور سب بلوچستان کے عوام کا ہے۔ ہم بلوچستان کا دل جیتنے آئے ہیں۔ دوسرے صوبوں کو نظر نہیں آتا ہے۔ اس دل کو جیتنا ضروری ہے۔ اس دل کو جیتے بغیر پاکستان کو صحیح نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کی دھرتی کے نیچے بہت سارے ضم ہیں، ہم نے ماضی میں بھی ان پر مرہم رکھا ہے اور ابھی پھر مرہم رکھیں گے۔ کئی گزشتہ کالموں میں لکھا گیا ہے کہ آصف زرداری تو سابق صدر بھی رہے ہیں۔ وہ بلوچ بھی ہیں۔ انہوں نے اب تک بلوچستان میں ہونے والے واقعات کے بارے میں عملی اقدام کے لئے کیا کیا۔ انہوں نے تو بلوچ سرداروں کا ایک جرگہ بھی نہیں کیا۔ سیاست دانوں کا اہم مسئلہ ہے کہ زبانی جمع خرچ بہت کرتے ہیں۔ اپنی جیبوں سے تو ان لوگوں نے کسی بھی جگہ ایک کنواں تک نہیں کھدوایا ہے۔ ان لوگوں کو عوام کی رضاکارانہ خدمت کا خیال کیوں نہیں آتا ہے۔ اگر یہ لوگ آغاز کریں گے تو ان کی دیکھا دیکھی ان کے ساتھ سیاست کرنے والے بہت سارے لوگ اپنی جیبوں سے عوام کی خدمت کرنے میں آگے آجائیں گے۔ عدالتیں رات دن چیخ رہی ہیں کہ گمشدہ افراد کو باز یاب کیا جائے۔ لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل رہا ہے۔ بڑے بڑے اعلان ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن یہ صرف اعلان ہی رہے۔ عدالتوں کو باضابطہ کچھ آگا ہ ہی نہیں کیا جارہا ہے۔ گمشدہ افراد کے رشتے دار اپنے لوگوں سے ملنے کے لئے بے تاب ہیں لیکن بے سود ہے۔ حکمران کھل کر کہتے ہیں کہ انہیں علم ہے کہ بلوچستان میں کس کی مداخلت ہے۔ اس کے باوجود حکومت کوئی کارروائی کرنے میں ناکام کیوں نظر آتی ہے۔ حکومت کو تلاش کرنا چاہئے کہ کس کو انتظار ہے کہ پاکستان کو خدا نخواستہ کوئی نقصان پہنچے۔