ColumnImtiaz Aasi

عمران خان سے امتیازی سلوک

امتیاز عاصی
آخر بانی پی ٹی آئی نے اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا۔ عمران خان کا شکوہ ہے اسے چوبیس گھنٹے میں صرف ایک گھنٹہ تیس منٹ چہل قدمی کے لئے سیل سے باہر نکالا جاتا ہے۔ سینٹرل جیل میں تاریخ پیشی پر اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے عمران خان نے کہا آصف علی زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کو ائر کنڈیشنز کمرے اور اٹیچ باتھ دیئے گے۔ سینٹرل جیل راولپنڈی میں جہاں کبھی اے کلاس قیدیوں کو رکھا جاتا تھا جیل مینوئل میں ترمیم کے بعد اسے اب بی کلاس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ائر کنڈیشنز بارے ہمیں معلوم نہیں البتہ وہاں دونوں اطراف کمروں کے ساتھ اٹیچ باتھ ہیں۔ سوئی گیس کی سہولت کے ساتھ اشرافیہ کلاس قیدیوں کی چھوڑی ہوئی اشیاء میں فریج، اوون اور ڈی فریزر ضرور ہیں۔ سینٹرل جیل میں ہمیشہ سے معمول رہا ہے جب کوئی وی آئی پی قیدی آتا تھا بی کلاس سے قیدیوں کو بیرکس میں شفٹ کرنے کے بعد انہیں وہیں بی کلاس کی سہولتیں مہیا کر دی جاتی تھیں۔ یہ کالم نگار چند ماہ موجودہ بی کلاس میں قیام کر چکا ہے اس لئے ہمیں اس سلسلے میں خاصی معلومات ہیں۔ عمران خان کو بی کلاس کی بجائے جیل اسکول اور سزائے موت کے احاطے سے ملحقہ سیل میں جگہ رکھا گیا ہے جہاں اسے چہل قدمی کے لئے کافی جگہ فراہم کی گئی ہے۔ ہمیں عمران خان یا کسی سیاست دان سے کچھ لینا دینا نہیں سچ تحریر کرنا ہمارا صحافت کے آغاز سے مطمع نظر رہا ہے۔ ہماری باتیں کسی کو اچھی کیا بری لگیں یک بات جانتے ہیں اگر ہم غلط بیانی کریں گے تو ایک روز ہمیں ایک ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں کسی چھوٹے یابڑے کا لحاظ رکھے بغیر بے لاگ فیصلے ہوں گے ۔ اب ہم جیل مینوئل کی طرف آتے ہیں جیل مینوئل میں سزائے موت کے سی کلاس کے قیدیوں کے لئے جن کی اپیلیں سپریم کورٹ میں ہوں چوبیس گھنٹے میں صرف دو گھنٹے چہل قدمی کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ جہاں تک قیدیوں اور حوالاتیوں کی بات ہے صبح گنتی کھولتے وقت سے شام گنتی بند ہونے تک یعنی جیل کے لاک اپ ہونے تک قیدی اور حوالاتیوں کو قریبا کھلا رکھا جاتا ہے۔ گرمیوں میں شام چھ بجے اور سردیوں میں شام پانچ بجے تک گنتی بند کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ موسم گرما میں قیدیوں کو گرمی کی شدت سے محفوظ رکھنے کی خاطر نماز ظہر سے عصر کے درمیان کچھ وقت کے لئے بیرکس میں بند رکھا جاتا ہے۔ ٹوری قسم کے وہ قیدی جو مال پانی خرچ کرتے ہیں رات قریبا آٹھ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق گنتی بند ہونے کے بعد یعنی جیل میں حوالاتیوں اور قیدیوں کی یومیہ تعداد سے متعلق جیلوں کے آئی جی کو رپورٹ بھیجی جاتی ہے۔ سوال ہے عمران خان نہ تو سزائے موت کا قیدی ہے نہ حوالاتی ہے وہ چودہ سالہ قیدی ہے۔ معمول کے مطابق اسے صبح گنتی کھلنے سے شام گنتی بند ہونے تک وہیں اپنے سیل کے باہر چہل قدمی کے لئے کھلا رہنا چاہیے۔یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ایک قیدی کو چوبیس گھنٹے میں صرف ایک گھنٹہ تیس منٹ کون سے جیل مینوئل کے تحت کھلا رکھا جاتا ہے حالانکہ اسے صبح سے شام گنتی بند ہونے تک کھلا رکھا جانا چاہیے۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی عمران خان کے قریبی سیل میں رکھا گیا تھا۔ یہ بات انسانی حقوق کی تنظیموں کے علم میں آئے گی تو ایک نیا پنڈورا باکس کھل سکتا ہے۔ عمران خان کا جرم اپنی جگہ وہ قیدی ہے لیکن وہ عام قیدی نہیں بی کلاس کا قیدی ہے۔ عجیب تماشا ہے اسے ورزش کے لئے جو سہولتیں مہیا کی گئیں ہیں شائد ان کا ذکر جیل مینوئل میں نہیں ہے۔ مرحوم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یونہی نہیں کہا تھا ملک میں دو وزیراعظم ہوتے ہیں جیل سپرنٹنڈنٹ مختار کل ہوتا ہے لیکن اسے یہ بات ذہین نشین رکھنی چاہیے ایک روز اسے بھی ایک ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں نہ کسی کی سفارش کام آئے گی نہ رشوت چلے گی۔ سوال ہے اگر یہ معاملہ کسی اعلیٰ عدالت میں چلا گیا تو جیل حکام اس کا کیا جواب دیں گے۔ یہ علیحدہ بات ہے سیاسی رہنماوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین یا کوئی دہشت گرد جیل آجائے انہیںحفاظتی نقطہ نظر کے تحت عام قیدیوں سے بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ عمران خان ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے اسے عام قیدیوں سے علیحدہ رکھنا وقت کی ضرورت ہے لیکن اسے چوبیس گھنٹوں میں ایک گھنٹہ تیس منٹ کھلا رکھنا کس جیل مینوئل میں لکھا ہے۔ جیلوں میں جا کر کوئی دیکھئے جیل مینوئل پر کتنا عمل ہوتا ہے قیدی عام لباس نہیں پہن سکتے بلکہ انہیں اورنج کلر کے قیدی کپڑے فراہم کئے جاتے ہیں۔ ٹوری قیدی کپڑے نہیں پہنتے بلکہ عام لباس میں چہل قدمی کرتے ہیں۔ جیل کی زبان میں ایسے قیدی جو خوش حال ہوتے ہیں وہ نذرانہ دے کر گنتی بند ہونے تک کھلے رہتے ہیں وہ قیدی کپڑے پہنتے نہ جلدی بند ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے جیل سپرنٹنڈنٹ بیرکس کا دورہ کرتا ہے اس روز وہ دورے کی اذیت سے بچنے کی خاطر حوالاتی بیرکس میں چلے جاتے ہیں۔ جیلوں میں سپرنٹنڈنٹ ہر روز کسی نہ کسی بیرک کا دورہ کرتا ہے البتہ لنگر خانے روزانہ جانا پڑتا ہے۔ عمران خان نے چہل قدمی کے لئے وقت دینے کی جو شکایت کی ہے حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ آئی جی جیل خانہ جات کو سپرنٹنڈنٹ جیل سے رپورٹ طلب کرنی چاہیے۔ اصولی طور پر سابق وزیراعظم کو بی کلاس کے لئے مختص جگہ پر رکھا جانا چاہیے تھا عمران خان ارباب اختیار کی نظروں میں ناپسندیدہ شخصیت ہے اس لئے بی کلاس والی جگہ پر رہنے کا عمران خان کو خیال چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے اچھے اور برے وقت کا پتہ نہیں ہوتا برا وقت کسی وقت کسی پر آسکتا ہے۔ سب سے بڑی بات ہمیں کوئی کام کرنے سے قبل حق تعالیٰ کے روبرو جواب دہی کے پہلو کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بہرکیف جیل مینوئل کے مطابق عمران خان کو دیگر قیدیوں کی طرح صبح سے جیل لاک آپ ہونے تک کھلا رکھنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button