سیاسیات

تحریک تحفظ آئین پاکستان کا بلوچستان سمیت دیگر مسائل پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ

تحریک تحفظ آئین پاکستان نے بلوچستان کے مسائل اور ملک میں عدم استحکام پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اپنی انا سے باہر نکلے کیونکہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے اس وقت سنجیدگی کے ساتھ بیٹھک کی ضرورت ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے اسلام آباد میں دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے الائنس نے بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اسپیکر سے ملیں گے اور ان سے درخواست کریں گے کہ بلوچستان کے حوالے سے سیر حاصل بحث ہونی چاہیے اور حکومت پارلیمنٹ میں آ کر بتائے کہ وہ بلوچستان کے بارے میں کیا پالیسی رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دو دن سے میں خود اسمبلی کے فلور پر یہ بات کررہا ہوں کہ بلوچستان کے حوالے سے گفتگو ہونی چاہیے لیکن حکومت نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی۔

انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے حالات سے مایوس ہو کر استعفیٰ دیا، یہ بہت زیادہ تشویشناک بات ہے کہ اگر ہمارے سیاسی لوگ اس طرح سے مایوس ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس پارلیمنٹ کی وجہ سے اپنے علاقے میں اپنی عزت کھو بیٹھتے ہیں تو پھر اس پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت سے دوٹوک الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ خدارا اس قوم اور ملک پر رحم کریں، اپنی انا سے باہر نکلیں اور اس وقت بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے سنجیدگی کے ساتھ بیٹھک چاہیے۔

تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے، بلوچستان کی صورتحال سے ہمارے دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی تمام محبت وطن قوتیں اور اسٹیک ہولڈرز بیٹھیں، سوچیں اور راستے کا تعین کریں، اس حوالے سے ہم نے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کے چیئرمین محمود خان اچکزئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پورے ملک میں نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، ہمارے جلسے ہوں گے، ہمارے بار ایسوسی ایشن میں خطاب ہوں گے اور کمیٹی کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ دن کا تعین کرے جس میں ہم پورے ملک میں احتجاج کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس ہونی چاہیے جس میں تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈرز موجود ہوں اور ایک مجموعی فیصلہ لیا جائے کہ ناراض بلوچی بھائیوں کے تحفظطات اور وہاں کی صورتحال کو کیسے حل کیا جائے۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ حکومت گیدڑ بھپکیاں دینا بند کردے کہ آئین میں ترمیم کرکے کسی کی معیاد بڑھانے جا رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں ان کے پاس دو تہائی اکثریت موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 22 اگست کو ختم نبوت کے حوالے سے عدالت میں سیرحاصل گفتگو ہوئی اور اسی وجہ سے عمران خان نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دن جلسہ ملتوی کردیا تھا تاکہ اس وقت مسلم امہ مشتعل تھی اور کوئی ایسا سانحہ نہ ہو جائے جس میں خون خرابا ہو لیکن 8 ستمبر کو جلسہ ہو گا اور یہ فیصلہ اٹل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں پاکستان کو بچانا ہے، آئین کی بالادستی کو مسلم کرنا ہے، قانون کی حکمرانی کو لانا ہے تو تمام جماعتوں کو مل کر اس ملک کے فیصلے کرنے پڑیں گے اور اس حوالے سے ہم پورے پاکستان میں محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں جلسے بھی کریں گے۔

اس موقع پر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ ہم اپنی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس نہیں بلائیں گے، تمام جماعتوں سے مشورہ کر کے اس حوالے سے فیصلہ کریں گے تاکہ ہم سب اس پر متفق ہوں اور کوئی غیرحاضری نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ہوش کے ناخن لے کر آل پارٹیز کانفرنس بلاتی ہے اور ہم سب مل کر اپنی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہیں تو پھر حکومت مخالف تحریک شروع نہیں کریں گے، پہلے کوشش کریں گے کہ بات چیت سے معاملہ حل ہو ورنہ ہم زور زبردستی سے لائی گئی اس حکومت کی ہر قیمت پر چھٹی کرائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے لیے ہماری کمیٹی لوگوں سے ملے گی اور کچھ دنوں میں پاکستان کے لوگ اچھی خبریں سنیں گے۔

میڈیا سے گفتگو کے دوران تحریک انصاف کے رہنما رؤف حسن نے کہا کہ 8ستمبر کو جلسہ ہر حال میں ہو گا اور اگر انتظامیہ اس کی راہ میں روڑے بھی اٹکاتی ہے تو ہم اس کا بالکل خیال نہیں کریں گے اور جلسہ ہر حال میں ہو گا۔

ان کا کہناتھا کہ 12 ستمبر کو کرک اور 22 ستمبر کو لاہور میں جلسہ ہو گا جبکہ تحریک کا تنظیم ڈھانچہ مرتب کرنے کے لیے صاحبزادہ حامد رضا کی زیر سربراہی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے اور اس کمیٹی میں تمام اتحادی جماعتوں کی نمائندگی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں ملک کو درپیش چیلنجز کے بارے میں لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس میں سرفہرست بلوچستان، دہشت گردی اور پاکستان کے عدم استحکام جیسے مسائل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button