Column

جعلی پالیسیوں کا نتیجہ کیا ہو گا

سیدہ عنبرین
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ تحریر کیا گیا تو صوبہ خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک جج صاحب نے اس سے اختلاف کیا اور فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ لکھا، بس پھر کیا تھا نظام کے درودیوار ہل گئے، بڑے جج صاحب نے اس امر کی اطلاع بڑے صاحب کو دی، ان کے حکم پر اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحب کو اختلافی نوٹ کی بجائے دیگر جج صاحبان کی ہاں میں ہاں ملانے کا حکم آیا، مگر انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ پہلے ترغیبات آئیں، پھر دھمکیاں، کسی سے کام نہ نکلا، یہ معزز جج صاحب صفدر شاہ صاحب تھے، جو خوب جانتے تھے کہ انصاف کرنے کی سزا کیا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بروقت اپنا بیگ تیار کیا، طورخم کے راستے کابل پہنچے، ان کی اگلی منزل کیا تھی، کوئی نہ جانتا تھا، انہیں کسی نہ کسی الزام میں گرفتار نہ کیا جا سکا، لیکن ایک انتقامی کارروائی کی گئی، جسے بھونڈا ترین انتقام کیا جا سکتا ہے، چند روز بعد خبر آئی کہ صفدر شاہ صاحب کی میٹرک کی سند جعلی تھی، اسے جعلی ثابت کرنے کی خبر مزید مضحکہ خیز تھی۔ وہ خود امتحانات میں شریک ہوئے تھے، وہ کسی پرچے میں غیر حاضر نہ تھے، انہوں نے امتحان کی فیس جمع کرائی تھی، وہ ایک مقامی سکول کے طالب علم تھے، جہاں ان کا تمام تعلیمی ریکارڈ موجود تھا، ان کے تمام پرچوں کو درست انداز میں جانچا گیا تھا، سخت مارکنگ کی گئی تھی، ہر پرچے میں حاصل کردہ نمبروں کا ٹوٹل اور نتیجہ تیار کرنے کیلئے تمام پرچوں میں حاصل کردہ نمبروں کا ٹوٹل درست پایا گیا۔ ان تمام حقائق کے باوجود ان کی سند کو جعلی قرار دینے کیلئے عجیب منطق گھڑی تھی، بتایا گیا کہ ان کی تاریخ پیدائش درست نہیں، لہٰذا سند کو جعلی قرار دیا جاتا ہے۔ محکمہ تعلیم اور حکومت کو ان کے میٹرک کرنے کے 50برس بعد معلوم ہوا کہ ان کی تاریخ پیدائش درست نہیں، اس حقیقت تک پہنچنے کیلئے ایک علاقائی دائی دریافت کی گئی جس نے اقرار کیا کہ اس نے جناب صفدر شاہ صاحب کی والدہ کی زچگی کے دوران ان کی خدمت کی اور بچے کی ولادت کے مرحلے میں تمام کام بذات خود انجام دیئے اور یہ کہ ان کی ولادت فلاں تاریخ کو ہوئی، جبکہ ان کی میٹرک کی سند پر درج تاریخ پیدائش درست نہیں۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کے فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا۔ ملک کا ایک موثر طبقہ اور ان کے کارکن اس فیصلے پر ماتم کرتے رہے۔ تقریباً 45برس بعد یہ فیصلہ عدالت کے روبرو تھا جس نے فیصلے میں لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف نہیں ملا، یہ ادھورا فیصلہ تھا، اس میں لکھا جانا چاہئے تھا کہ ایک بے گناہ کو پھانسی دی گئی، جس نے یہ قتل نہیں کیا تھا، ایک خصوصی پیراگراف جناب صفدر شاہ صاحب کیلئے بھی تحریر کیا جانا ضروری تھا، جس میں بتایا جاتا پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے معزز جج صاحب نے ہی صرف انصاف کیا، فیصلہ لکھنے والے وہ واحد مرد تھے دیگر کیا تھے یہ نہ بھی لکھا جاتا تو بات مکمل سمجھ میں آ جاتی، جناب صفدر شاہ صاحب کو بھی انصاف دیا جانا ضروری تھا، فیصلے میں یہ بھی لکھ دیا جاتا ان کی میٹرک کی سند اصل تھی، جعلی نہیں تھی، نظریہ ضرورت کے تحت اسے جعلی قرار دیا گیا تھا۔
وقت قریباً نصف صدی کا سفر طے کر کے آگے بڑھ گیا ہے، بعض معاملات میں ہمارے معیار 50برس پرانے ہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب جسٹس طارق محمود جہانگیر کی ایل ایل بی کی ڈگری جعلی قرار دی گئی ہے۔ وجہ بتائی گئی ہے کہ ڈگری کے حصول میں بے ضابطگیاں ہیں۔ یہاں بھی اہم بات یہی ہے کہ معاملہ بے ضابطگی کا ہے، یعنی جہانگیری صاحب امتحانات میں شریک ہوئے، پاس ہوئے اور ڈگری حاصل کی، اس کی بنیاد پر منصب کے حق دار ٹھہرے، کئی برس گزر جانے کے بعد کراچی یونیورسٹی کو اس بے ضابطگی نے ستایا اور ان کی ڈگری جعلی قرار دے دی گئی۔ ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جناب جسٹس طارق محمود جہانگیری انصاف پر یقین رکھتے ہیں اور انصاف سائل کی دہلیز پر پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ انصاف جو قانون کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ فون کال کے مطابق نہیں۔ کراچی یونیورسٹی سنڈیکٹ کے ممبر جناب ڈاکٹر ریاض اس سلسلے میں اپنے ساتھ ہونے والے حسن سلوک کے بارے میں بہت کچھ بتا چکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ جانچ پڑتال کا طریقہ کار کیا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں سچ تک پہنچنے کیلئے شاید آئندہ 50برس کا انتظار نہ کرنا پڑے، حقائق جلد سامنے آئیں گے۔ اب وقت کچھوے کی رفتار سے نہیں خرگوش کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایسا ہی طرز عمل جناب قیصر بنگالی کے ساتھ رواں رکھا گیا ہے۔ انہیں بہت چائو سے اہم منصب دیا گیا اور توقع کی گئی کہ وہ حکومت پر پڑی بوجھ کم کرنے کیلئے سفارشات پیش کریں گے۔ قیصر بنگالی صاحب کی زندگی قوم کے سامنے ہے، وہ مثبت سوچ رکھتے ہیں، وہ اپنے متعدد ٹی وی اور سوشل میڈیا کلپس میں کہتے نظر آتے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے، ہمیں کوئی قرض نہیں دے رہا، ہم ادارے فروخت کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی خریدار سامنے نہیں آ رہا، اس کی وجہ ہماری دم بدم پالیسیاں ہیں۔ افرادی قوت ملک چھوڑ رہی ہے۔ گزشتہ دو برس میں محتاط اندازے کے مطابق 15لاکھ کے قریب افراد ملک چھوڑ گئے ہیں۔ مزید 30لاکھ افراد ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور راہیں تلاش کر رہے ہیں، عہدے پر چند روز کام کرنے کے بعد جناب قیصر بنگالی نے جو سفارشات تیار کی ہیں، وہ صاحبان اقتدار کو پسند نہیں آئیں، انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا، وہ مستعفی ہو گئے، جس کے بعد اب ان کے بارے میں یہ گور افشانی کی جا رہی ہے کہ وہ معاملات، حالات اور ان کی سنگینی کا ادراک نہیں رکھتے، گویا ان کی کوئی ڈگری تو جعلی قرار نہیں دی گئی، ان کی مکمل ذات کو جعلی کہا گیا ہے، کسی مثبت سوچ اور مثبت رویہ رکھنے والی محب وطن شخصیت کی اس سے بڑھ کر توہین کیا ہو گی۔ کچھ عرصہ قبل یہ شور برپا تھا کہ ہر ماہ کئی ارب روپے کا نقصان کرنے والے ادارے حکومت اور ملکی وسائل پر بوجھ ہیں، ان کی نجکاری کر کے نقصان کو کم کیا جائے گا، اب تک یہ بات گھوٹ کر قوم کے شکم میں اتاری گئی، یہ کسی نے بتانا مناسب نہ سمجھا کہ ماضی کے ان منافع بخش اداروں کو زبوں حالی تک کس کس نے پہنچایا۔ ستم بالائے ستم اب ملک کے منافع بخش ادارے کے 10سے 20فیصد حصص فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کیا یہ منافع بھی ہماری معیشت پر بوجھ ہے، ہم یہ منافع کیوں اغیار کی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے، کیا اس سے ہماری معیشت میں نکھار آئے گا، اہم شخصیات کی ڈگریاں جعلی ہوں نہ ہوں سامنے نظر آنے والی پالیسیاں صد فی صد جعلی ہیں۔ قیصر بنگالی ٹھیک کہتے ہیں، بات جعلی مینڈیٹ سے آگے نکل چکی ہے، جعلی پالیسیوں کا نتیجہ کیا ہو گا؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button