آرمی چیف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس
پاک فوج انتہائی منظم ادارہ ہے اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک انتہائی انہماک اور ذمے داری سے ملک و قوم کی سلامتی کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ شہداء کی ایک طویل تاریخ ہے، جنہوں نے وطن کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے اپنے جانوں کو وار دیا۔ دشمن نے جب بھی ملک کی جانب میلی آنکھ سے دیکھا، اُسے دندان شکن جواب دیتے ہوئے دُم دباکر بھاگنے پر مجبور کیا۔ ملکی سلامتی کے ضامن اس ادارے کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور قوم اسے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس کا ہر شہید افسر و جوان قوم کے لیے لائق عزت و احترام ہے۔ ہماری افواج کا شمار دُنیا کی بہترین اور پیشہ ور فوجوں میں ہوتا ہے۔ اس میں احتساب کا انتہائی کڑا نظام قائم ہے، جس سے کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں، خواہ وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ ہو، اسے احتساب سے لازمی گزرنا پڑتا ہے۔ پاک افواج ملک کو دہشت گردوں سے بچانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ان کی منظم کارروائیاں جاری ہیں۔ پھر سے سر اُٹھانے والے اس عفریت کو کچلنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں آپریشنز ہورہے ہیں اور جن میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ اب تک متعدد دہشت گردوں کو جہنم واصل اور گرفتار کیا جا چکا ہے، ان کے ٹھکانوں کو تباہ و برباد کیا جا چکا ہے، متعدد علاقوں کو ان سے پاک کیا جا چکا ہے۔ ان شاء اللہ یہ آپریشنز اسی تیزی کے ساتھ جاری و ساری رہیں گے اور جلد قوم کو دہشت گردی سے مکمل نجات ملے گی۔ ملک میں پھر سے امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت گزشتہ روز کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس میں فورم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے جس کے ہر شخص کی وفاداری ملک اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے اور کسی کو بھی احتساب سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی، جس میں شرکا کانفرنس نے شہدا کے ایصال و ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ فورم نے پاکستان کے امن و استحکام کیلئے شہدا افواج پاکستان، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستانی شہریوں کی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں لازوال قربانیوں کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا جب کہ خطے کی صورت حال، قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور بڑھتے ہوئے خطرات کے جواب میں آپریشنل حکمت عملی کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ فورم نے ملک میں، خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سرگرم ملک دشمن قوتوں، منفی اور تخریبی عناصر اور ان کے پاکستان مخالف اندرونی اور بیرونی سہولت کاروں کی سرگرمیوں اور اس کے تدارک کے لیے کیے جانے والے متعدد اقدامات پر بھی غور کیا۔ کور کمانڈرز نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاک فوج عوام کی غیر متزلزل حمایت سے انسداد دہشت گردی کے لیے قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گی۔ فورم نے اس بات پر زور دیا کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے جس کے ہر فرد کی پیشہ ورانہ مہارت اور وفاداری صرف ریاست اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے، پاک فوج غیر متزلزل عزم سے ایک مضبوط اور کڑے احتساب کے ذریعے اپنی اقدار کی پاسداری کرتی ہے، جس میں کسی قسم کی جانبداری اور استثنیٰ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں اس بات کا اعادہ بھی کیا گیا کہ فوج میں موجود کڑے احتسابی نظام پر عمل درآمد ادارے کے استحکام کے لیے لازم ہے اور کوئی بھی فرد اس عمل سے بالاتر اور مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے ایک مضبوط اور موثر قانونی نظام کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج دہشت گردوں، انتشار پسندوں اور جرائم پیشہ مافیاز کے خلاف ضروری اور قانونی کارروائی کرنے میں حکومت، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جامع تعاون فراہم کرتی رہے گی۔ فورم نے دہشت گرد نیٹ ورکس کی ملی بھگت سے چلنے والی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف جاری کوششوں پر بھی اطمینان کا اظہار کیا جب کہ سخت سائبر سیکیورٹی اقدامات کے ذریعے قومی سائبر اسپیس کے تحفظ پر زور دیا۔ اعلامیے کے مطابق فورم نے بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار کشمیری عوام کے ساتھ، اظہار یکجہتی کرتے ہوئے تحریک آزادی کے شہدا کو خراج ِ عقیدت پیش کیا جب کہ اسرائیل کی نہتے فلسطینیوں پر جاری بربریت اور نسل کشی کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ فورم نے پاک فوج کی آپریشنل تیاریوں پر اعتماد اور پیشہ ورانہ مہارت کے حصول میں اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کا اعادہ کیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں جس عزم کا اظہار کیا گیا ہے، وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور اس میں کسی ابہام کی چنداں گنجائش نہیں۔ فوج میں خواہ کوئی کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز ہو، وہ احتساب سے ہرگز ہرگز مستثنیٰ نہیں۔ اس حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کی کوششیں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی، جلد ہی دہشت گردوں کی کمر توڑ دی جائے گی۔ ملک میں امن و سکون ہوگا تو معیشت بھی تیزی سے مضبوط اور مستحکم ہوگی۔ وسیع پیمانے پر سرمایہ کار یہاں کا رُخ کریں گے۔ ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔
ڈینگی وائرس کے کیسز میں اضافہ
وطن عزیز میں امراض اور وبائیں انتہائی تیزی سے پھیلتے اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ان کے نتیجے میں اموات بھی ہوتی ہیں۔ ڈینگی وائرس 2010ء میں پورے ملک کے عوام کے لیے خوف کی علامت تھا۔ اس برس اور اس کے اگلے ایک دو برس ملک بھر میں ڈینگی وائرس نے بڑی تباہ کاریاں مچائیں۔ سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے۔ بعد ازاں صوبائی حکومتوں کی راست کوششوں سے اس عفریت کو قابو کیا گیا اور اگلے برسوں میں اس کے نتیجے میں اموات کی شرح میں خاطرخواہ حد تک کمی واقع ہوئی۔ اس کے تدارک کے لیے کوششیں کی گئیں، جن کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ اب بھی یہ وائرس موجود ہے، ملک بھر میں اس کے وار جاری ہیں اور خاصے شہریوں کو یہ اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ دوسری جانب نگلیریا وائرس بھی ہر سال درجنوں زندگیاں نگل جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک اور نوجوان اپنی زندگی سے محروم ہوگیا۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں نگلیریا وائرس سے 19سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا۔ محکمۂ صحت سندھ کے مطابق ضلع شرقی کے نجی اسپتال میں 19سالہ نوجوان 12روز کی شدید علالت کے بعد انتقال کرگیا، جس کے بعد رواں سال سندھ میں نگلیریا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 5ہوگئی، جن میں سے چار کا تعلق کراچی اور ایک کا حیدرآباد سے ہے۔ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر نے پنجاب بھر میں ڈینگی کے اعداد و شمار جاری کر دئیے۔ رواں سال اب تک ڈینگی کے 366کیس رپورٹ ہوئے۔ گزشتہ 24گھنٹے میں لاہور سے 2 اور راولپنڈی سے 7ڈینگی کے کیس رپورٹ ہوئے۔ دوسری جانب سندھ میں بھی ڈینگی وائرس تیزی سے پھیلتا دِکھائی دے رہا ہے۔ ماہ اگست میں سندھ میں ڈینگی کے 186کیس رپورٹ ہوئے۔ محکمۂ صحت سندھ کے مطابق ڈینگی کے 170کیسز کا تعلق کراچی سے ہے۔ نگلیریا وائرس سے نوجوان کی موت ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس وائرس کے حوالے سے آگہی کا دائرہ کار وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے، تاکہ آئندہ اس سے ہونے والی اموات میں کمی لائی جاسکے۔ دوسری جانب بیماریوں اور وبائوں کے تدارک کے لیے تمام صوبائی حکومتوں کو مزید مربوط اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ ڈینگی وائرس سے بچائو کے لیے شہریوں کو ازخود احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ مکمل آستین کے کپڑے خود بھی پہنیں اور بچوں کو بھی پہنائیں۔ مچھروں سے بچائو کے لیے اقدامات کریں۔ بچوں کو اس سے تحفظ کی دوائیں لگائیں۔ پانی کو ڈھانپ کر رکھیں۔ پانی کی ٹنکیوں کو ہرگز کھلا نہ چھوڑیں۔ ان اقدامات کے ذریعے ڈینگی کا راستہ روکنا ممکن ہے۔