غیر مستند شخص کا حجامہ نقصان کا باعث

پروفیسر حکیم سید عمران فیاض
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
غیر مستند معالج سے کھبی حجامہ نہ کروائیں۔ نیشنل کونسل فار طب سے رجسٹرڈ طبیب ہی حجامہ کرنے کا مجاز ہے ۔ طبیب کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو حجامہ سکھانا فنی خدمت نہیں بلکہ فنی بددیانتی ہوگی۔ آج کل بہت سے لوگوں نے سبز باغ دکھا کر مال بنانا شروع کیا ہوا ہے جو کے غیر قانونی ہے۔
حجامہ کیا ہے۔ انسانی جسم کی صحت کا دارومدار صاف خون پر ہے۔ اگر خون فاسد ہوتو انسان بہت سی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حجامہ ایک ایسا طریقہ علاج ہے کہ جس میں جسم کے مخصوص مقامات پر ایک خاص طریقے سے خفیف سے کٹ لگا کر فاسد خون خارج کیا جاتا ہے۔
یہ طریقہ علاج صدیوں سے رائج ہے۔ اور اس کی سب سے زیادہ اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ مسنون ہے۔ حجامہ ایک مکمل طریقہ علاج ہے ۔ جن لوگوں کو کہیں سے بھی شفا نہیں ملتی وہ حجامہ کے معجزاتی اثرات سے شفایاب ہو رہے ہیں۔
ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ بہترین علاج جسے تم کرتے ہو حجامہ ہے ( صحیح بخاری )۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی حجامہ لگوایا کرتے تھے۔ معراج کے موقع پر ملائکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اپنی امت سے کہیں کہ وہ حجامہ لگوائیں۔ صحیح بخاری میں حجامہ پر پانچ ابواب موجود ہیں۔
عرب ممالک کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں بھی یہ طریقہ علاج رائج ہے۔ جبکہ چین کا تو یہ قومی علاج ہے۔ یہ گرم اور سرد دونوں علاقوں میں مستعمل ہے۔ مغربی یونیورسٹیوں میں جو طلبہ متبادل میڈیسن پڑھتے ہیں ان کو حجامہ پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔
یورپ کی یونیورسٹیوں میں ابن سینا کی حجامہ پر لکھی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں ۔ مسلسل تحقیقات کے بعد امریکہ سمیت تمام مغربی دنیا نے بھی حجامہ کی افادیت تسلیم کر لی ہے۔
مغربی ماہرین کی مسلسل تحقیق کی وجہ سے اب حجامہ میں بہت سی نئی تکنیک متعارف کرا دی گئی ہیں۔ انسانی جسم میں تقریبا ایک سو تینتالیس ایسے مقامات کا انتخاب کر کے ایک نقشہ مرتب کیا گیا ہے جہاں پر حجامہ لگوایا جا سکتا ہے ۔
وہ اصول جن پر عملدرآمد کرتے ہوئے حجامہ لگایا جاتا ہے۔
عام طور پر حجامہ ان مقامات پر کیا جاتا ہے جہاں بیماری ہے۔ مثلا اگر کسی کو معدے کی بیماری ہے تو معدہ کے اوپر حجامہ کیا جاتا ہے اور اگر کسی کو جگر کے مسائل ہیں تو سینے پر دائیں طرف جگر کے اوپر کیا جاتا ہے۔
اگر کسی کو سر میں تکلیف ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر کا حجامہ کرنے کی ہدایت فرماتے تھے۔ کئی امراض میں اضافی طور پر گردن کے قریب کندھوں کے درمیان بھی کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس مقام پر حجامہ کرواتے تھے۔
حجامہ کتنی دفعہ کرنا چاہئے؟
اگر ایک دفعہ حجامہ کروانے سے مرض ٹھیک نہیں ہوتا تو پھر دو ہفتے یا ایک مہینے کے وقفے سے تین سے سات مرتبہ تک کروانا چاہیے۔ یا جیسے طبیب تجویز کرے۔
حجامہ کن کن امراض میں کروایا جا سکتا ہے
اللہ تعالیٰ نے حجامہ میں بہت شفا رکھی ہے اور تقریبا سبھی بیماریوں میں حجامہ کروایا جاسکتا ہے ۔ خاص طور پر کچھ بیماریوں میں اس کے معجزاتی اثرات سامنے آئے ہیں۔
جیسے شب کوری، نظر کی کمزوری، ڈپریشن، درد شقیقہ ، چکر آنا ، بلڈ پریشر، درد گردہ، کندھوں کا درد، ٹانگوں کا درد، کمر درد، عرق النساء ، دماغی امراض ، برص ، الرجی ، جادو سحر اور بہت سی دوسری بیماریاں۔ اگر جسم میں کہیں بھی درد ہو تو اس مقام پر بھی حجامہ لگوایا جا سکتا ہے۔
حجامہ کا سنت طریقہ
حجامہ کے فوائد
خون کی کمی امراض کو جنم دیتی ہے۔ حجامہ سے جلد کے علاوہ عضلات کو بھی حرکت ملتی ہے۔ جس سے بافتوں میں موجود فاسد خون خارج ہو جاتا ہے۔ یوں دوران خون بہتر ہونے سے ان جگہوں پر بھی خون کی رسائی ہو جاتی ہے جہاں تک پہلے خون نہیں پہنچ رہا تھا۔ حجامہ کے درج ذیل فوائد ہیں۔
خون صاف کرتا ہے جس سے شریانوں پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
حرام مغز کو فعال بناتا ہے۔ پٹھوں کے درد اور اکڑائو میں فائدہ پہنچاتا ہے۔
انجاینا ، دمہ اور پھیپھڑوں کے امراض میں مفید ہے۔ درد شقیقہ، سر درد، دانتوں کے درد اور پھوڑوں کا بہترین علاج ہے۔
ماہواری بند ھونے اور رحم کی بیماریوں کی تکلیف دور کرتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر میں آرام پہنچاتا ہے۔ عرق النسائ، گنٹھیا اور نقرس کے دوروں سے نجات دلاتا ہے۔
سینہ کمر اور کندھوں کے درد کے علاوہ جسم میں کہیں بھی درد ہو تو وہاں حجامہ کروانا مفید ہے۔
ان سب کے علاوہ آنکھوں کی بیماریاں، کاہلی، سستی، زیادہ نیند آنا، کیل مہاسے، ناسور، خارش، ذہر خورانی، الرجی، ورم گردہ اور پیپ والی ذخموں کے لئے بھی حجامہ فائدہ مند ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ صحت مند لوگ بھی حجامہ کروائیں ۔ کیونکہ نا صرف یہ مسنون ہے بلکہ بیماریوں کو حملہ آور ہونے سے بھی روکتا ہے۔
حجامہ کیلئے احتیاطی تدابیریں
حجامہ کروانے کے بعد ایک گھنٹے تک کچھ کھانے پینے سے اجتناب کریں۔
بہت زیادہ دبلے اور کمزور افراد، اسقاط کروانے والی مریضہ، جگر کے شدید امراض میں مبتلا افراد، گردوں کی صفائی کروانے والے مریض اور وہ امراض جن میں خون نہیں رکتا، ان کے مریض حجامہ نہ کروائیں۔
ضعیف لوگ جو کمزور بھی ہوں اس وقت تک نہ لگوائیں جب تک کہ اشد ضرورت نہ ہو۔ پانی کی کمی کا شکار بچوں کو بھی نہ لگوائیں۔ غسل کے فوری بعد اور قے ہونے کے فوری بعد بھی نہ لگوائیں۔
دل کا والو تبدیل کروانے والے حضرات بھی نہ لگوائیں۔ البتہ کسی ماہر کی نگرانی میں لگوا سکتے ہیں۔ پیروں اور گھٹنوں پر سوجن ہو تو حجامہ اس مقام سے دور ہٹ کر احتیاط سے لگائیں۔
کم فشار خون کے مریضوں کو کمر کے قریب والی ریڑھ کی ہڈیوں کے قریب نہیں لگانا چاہیے۔ اور ایک ہی وقت میں دو سے زیادہ حجامہ نہیں لگانا چاہیے۔
خون کی کمی کے مریض اپنے معالج کے مشورے سے حجامہ لگوایئں۔ حاملہ خواتین کو ابتدائی تین ماہ میں نہیں لگوانا چاہیے۔
نشہ آور ادویات کھانے والے اور خون کو پتلا کرنے والی ادویات کھانے والوں کو بھی نہیں لگوانا چاہیے۔
ذیابیطس کے مریض حجامہ لگوانے سے پہلے اپنی شوگر چیک کروا لیں شوگر تقریبا سو ملی گرام ہونی چاہیے۔ ضروری نوٹ: یہ مضمون لکھنے کے لیے جناب ڈاکٹر امجد احسن علی صاحب کی کتاب الحجامہ حجامہ ( پچھنا ) علاج بھی سنت بھی سے مدد لی گئی ہے
اتائی کا مطلب کوئی بھی ایسا فرد جو کہ اپنے متعلقہ شعبہ میں مستند نہ ہو وہ اتائی تصور ہوگا ۔
ذرائع کے مطابق بعض حجامہ سینٹرز و کلینک پر نان کوالیفائیڈ پرسن کام کر رہے ہوتے ھیں ۔ شاید ان میں چند انگوٹھا چھاپ بھی ہوں گے کیونکہ ان کا نہ تو کوئی آج تک ضابطہ اخلاق بنایا گیا اور نہ ہی پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے اس طرف کوئی توجہ دی جبکہ دیگر متعلقہ ادارے بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ ان حجامہ سینٹرز پر کوالیفائیڈ پرسن کی موجودگی کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے ۔ نیشنل کونسل فار طب سے رجسٹرڈ طبیب ہی جراحی و حجامہ کرنے کا مجاز ہے ۔ جس طرح پنجاب ہیلتھ کیئxر کمیشن کے تحت دوا خانوں کو رجسٹرڈ کیا۔ گیا اور ان کو لائسنس دئیے گئے۔ ادویات ساز اداروں کو ڈریپ کے تحت فارم 6اور فارم7کے تحت اپنے کام کرنے کا پابند کیا گیا ۔ اسی طرح ان حجامہ سینٹرز و کلینک کا بھی ضابطہ اخلاق منظور ہونا چاہیے ۔ اور اس حوالے سے مانیٹرنگ ٹیموں کی تشکیل بھی بہت ضروری ہے ۔ یہ بات باعث حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن ان قوانین پر شاید 50فیصد بھی وطن عزیز میں عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا۔ مزید یہ کہ حجامہ کورسز کروانے والوں کی بھی چھان بین کروائی جائے جو غیر قانونی طور پر ہزاروں روپے لے کر عوام کو جھوٹے خواب دکھلا کر ان سے ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ دے کر ہزاروں کا ٹیکہ لگا دیتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ میری سپریم کورٹ آف پاکستان، وزیراعظم پاکستان ، وزیراعلی پنجاب، پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن اور متعلقہ محکموں سے گزارش ہے کہ وطن عزیز میں موجود بعض نام نہاد حجامہ سینٹرز و کلینکس پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم رکھنے کے لئے ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ اس ٹاسک فورس میں انتہائی ایماندار افراد شامل کئے جائیں ۔ جو ان کلینکس کا چیک اینڈ بیلنس رکھیں۔ اور ان کا ضابطہ اخلاق بھی ترتیب دیں تاکہ معاشرہ کو صحت عامہ کے حوالے سے درپیش مسائل سے نجات مل جائے ۔ اس کے علاوہ ان انگوٹھا چھاپ اتائیوں اور ان غیر مستند اشخاص کے خلاف بھی سخت سے سخت قدم اٹھائیں جو اپنے شعبہ میں مستند نہ ہیں اور نہ ہی ان کے پاس متعلقہ شعبہ کی رجسٹریشن ہے۔ لیکن وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مریضوں کا حجامہ کر رہے ہیں ۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح سارے حجامہ سینٹر و کلینک والے غلط نہیں ہوتے۔ لیکن بہرحال جو غلط ہیں وہ مریضوں میں انتہائی خطرناک و مہلک امراض ہیپا ٹائٹس، ایڈز و دیگر ٹرانسفر کر رہے ہیں ۔
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے مینجر طب حکیم فاروق حسن کے مطابق حجامہ کے حوالہ سے قانونی پوزیشن واضح کرنا چاہتا ہوں. کیونکہ آج کل بہت سے لوگوں نے سبز باغ دکھا کر مال بنانا شروع کیا ہوا ہے جو کے غیر قانونی ہے۔
قانون کے مطابق حجامہ صرف نیشنل کونسل سے رجسٹرڈ طبیب ہی کر سکتا ہے اس کے علاوہ قانون کسی کو حجامہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ حجامہ طب کے سلیبس کا حصہ ہے. اور گورنمنٹ سے recognizedکالج؍
University میں اس کی تعلیم دی جاتی ہے. اور انھیں کالجز میں اسکی عملی تربیت کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ ان کالجز ؍University کے علاوہ دوسرا کوئی فرد حجامہ کی تعلیم و تربیت مہیا کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، اس لئے اس قسم کے غیر قانونی کام سے اجتناب کیا جائے۔
اس حوالے سے معروف حجامہ سپیشلسٹ حکیم حامد اشرف کی خوبصورت بات تحریر کر رھا ھوں ۔
جو احباب حجامھ کورس کروا رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ حجامہ کورس میں داخلہ کے لیے صرف
نیشنل کونسل فار طب
سے سرٹیفائیڈ رجسٹرڈ طبیب کو داخلہ دیں ۔ غیر طبیب فنی اعتبار سے کبھی درست حجامہ کر ہی نہیں سکتا خواہ اس کے پاس جدید میڈیکل سائنسزز کی اعلی ترین ڈگریاں ہی کیوں نہ ہوں۔ نیز یہ عمل قانونی لحاظ سے بھی جرم ہے۔
حجامہ کے لیے تشخیصِ مرض، مقامِ حجامہ کا تعین، عمومی نضج، مقامی نضج، امالہ اور قوتِ مدبرہ بدن کے تعاون کا حصول ایسے ناگزیر عوامل ہیں جنہیں غیر طبیب کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔
طبیب کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو حجامہ سکھانا فنی خدمت نہیں بلکہ فنی بددیانتی ہوگی ۔
اللہ رب العالمین ہمیں انبیاء کی وراثت اس طبِ اسلامی کی کما حقہ خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں ۔
مصلے بیچ کر خنجر خرید اے بے خبر مسلم
کہ ٹکرانے کو ہے تیری فقیری سے شہنشاہی







