ColumnTajamul Hussain Hashmi

تہذیب سیاسی اثرات کے زیر اثر

تجمل حسین ہاشمی
گالیاں نکالنا کبیرہ گناہ ہے اور شراب پینے والا کا 40دن تک سجدہ قبول نہیں۔ معاشرے میں گالیاں عام ہیں اور شراب کی فروخت بھی سرعام ہے۔ گالیاں عوامی زبان بن چکی ہیں، جیسے شراب عام ہے ۔ اسمبلی میں غیر مسلم وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں شراب حرام ہے، ہمارے نام پر لائسنس کیوں دئیے جا رہے ہیں ؟۔ آج تک حکومتی حلقوں کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
کبیرہ گناہوں سے بچنے کی اللّہ پاک توفیق عطاء فرمائے لیکن پہلا قدم آپ کا اور ہمت رب کی عنایت ہو گی۔ ہمارے ہاں پہلا قدم اور پہلی سوچ ہی الٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت ملک کو اجتماعی تلافی کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک معاف فرمانے والا ہے۔ زمین و آسمان کا مالک بڑی سے بڑی غلطیاں معاف کرنے والا ہے۔ وہ رحیم کریم ہے۔
ہم روزانہ دن بھر کتنی بار کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ تنہائی کے لمحات میں سوچ و بچار کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کتنے گناہ گار ہیں اور
رب کتنا رحیم ہے جو ہمیں تمام نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ اللّہ تعالی نے انسانی جسم میں الارم سیٹ کیا ہوا ہے جو گناہ سے پہلے باخبر رکھتا ہے۔ انسانی جسم پر شیطانی قبضہ کے وقت الارم بج جاتا ہے۔ دونوں فرشتے حساب کتاب کیلئے تیار ہیں۔ انسان دنیا کے مست میلوں میں مگن ہے، دوران فرصت اللّہ کے فضل کا حساب لگائیں تو پتہ چلے کہ مالک نے ہمیں کیسی کیسی نایاب کروڑوں نعمتوں سے نوازا ہے۔ جن کی قیمت چکانا کسی فرد یا ریاست کے بس میں نہیں ہے۔ ہم جانے انجانے میں رب کے
احکامات کی حکم عدولی کے مرتکب ہیں اور اپنی کم
عقلی، بے وقوفی، جہالت سے سر عام گناہ کے مرتکب ہیں۔ اپنی دنیاوی طاقت سے لوگوں پر کاٹھی ڈال لیتے ہیں اور اپنی واہ واہ کرواتے ہیں، پتہ تو اسی وقت چلے گا جب 6فٹ کی زمین اور سفید کفن بدن پر ہو گا۔ اس وقت کوئی کلاشنکوف ، ایس ایم جی اور کوئی بھی تمہارا گارڈ تمہاری واہ واہ مدد گار نہیں ہو گی۔ صرف وہاں اچھے اعمال ہی کام آئیں گے۔ بد تہذیبی، بد اخلاقی اللّہ پاک کے احکامات سے دوری کا باعث ہیں۔حکومتیں تہذیب، حسن اخلاق، معاشرتی آداب کیلئے ساز گار ماحول انصاف دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ ایسے حالات میں جھوٹی قسموں، وعدہ خلافی اور قرآن اٹھانا عام ہے۔
آپ جتنے مرضی ایماندار با اخلاق ، نمازی اور سلیقہ مند ہیں لیکن اس وقت ہر کوئی ایک دوسرے کی نظر میں مجرم بن چکا ہے۔ دوسرے کے عیبوں کی
لسٹ گلی چوراہوں میں لیے بیٹھے ہیں لیکن خود احتسابی
پر کوئی تیار نہیں۔ اس وقت کردار کی اہمیت نہیں بلکہ دولت معیار بن چکی ہے، گالیاں نکالنے والے، سرکاری زمینوں پر قبضے کے ماہر ، لڑنے مرنے میں ماہر، چوک چوراہوں میں شریفوں کے کپڑے اتارنے کا فن رکھنے والے اس وقت معاشرہ کے معتبر ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد کی جب تک سمجھ نہیں ہو گی حالات ایسے ہی کروٹ لیں گے۔ انسانی رویوں کی ایسی ہی پرورش ہو گی۔ سیاسی حکمران میڈیا پر بیٹھا کر جھوٹی قسمیں، جھوٹے بیانے بنا کر تخت نشین ہوں گے۔ ذوالفقار مرزا سے لے کے فیاض چوہان اور آخر میں شیخ رشید جیسی رہنمائوں کی قرآنی قسموں کے بعد کچھ کہنے کو باقی نہیں رہتا۔ روزانہ کی بنیاد پر جھوٹ کی پریس کانفرنس کی جاتی ہیں ۔
آج سیاسی جماعتیں، موجودہ سرکار کو نئی جنریشن کی بد تہذیبی نے تنگ کیا ہوا ہے لیکن نئی نسل پوچھتی
ہے کہ ماضی کے 76سال میں ہمارے لیے کیا پلان
کیا گیا۔ وہی مسائل جو ہمارے آبائو اجداد کو دار پیش
تھے وہ آج ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے لیے گے قرضوں کے انبار، اربوں روپوں کے بیرونی دوروں اور سرکاری ٹھیکوں میں کھربوں روپے کے گھپلوں نے ملکی معیشت کا گلا دبا دیا ہے۔ اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں بجٹ کا 52فیصد سود کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے۔ ریاست خاموش ہے۔ قومی خزانے کے ساتھ ایسی لوٹ مار دنیا بھر میں کہیں نظر نہیں آتی۔ غیر مسلم تہذیب سے ترقی پا گیا ہے اور بد تہذیبی ہمارے گھروں کو اجاڑ رہی ہے۔ وہاں ہر فرد اپنے فرائض پر کاربند ہے۔ آج ہمارے ہاں نا انصافی، افراتفری گلی محلوں میں دندناتی پھر رہی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں انسانیت کو لسانی بنیاد پر قتل کیا جا رہاہے جبکہ قرآن و احادیث کی روشنی میں مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، فسادی بھی کلمہ گو ہیں لیکن پھر حملے جاری ہیں۔ یہ سب کچھ آخر کیوں ہو رہا ہے ۔ کیا یہ حکومتی نا اہلی ہے تو پھر غریب پنجابی کا قتل عام کیوں۔

جواب دیں

Back to top button