آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا

فاطمہ نور ہاشمی
علی کچھ دیر پہلے ہی اپنے صحن میں چارپائی ڈال کر سویا تھا اور درخت کی چھاں تلے خوشگوار ہوا اسے گہری نیند میں لے جا رہی تھی۔ ابھی اسے سوئے ہوئے بمشکل آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ہوا کے دوش پر اڑتا ہوا ایک اخبار کا ورق اس کے منہ پر آگرا۔ اس نے سستی سے آنکھیں کھولیں اور اخبار پر نظر پڑتے ہی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ آج سے ایک ماہ قبل اس نے ایک قرعہ اندازی میں قسمت آزمانے کا سوچ کر حصہ لیا تھا۔ انعامی رقم تیس ہزار، پچاس ہزار، ایک لاکھ، دو لاکھ، کسی میں بھی اسے اپنا نام نظر نہیں آیا۔ اس نے غصہ سے اخبار کے ورق کو ایک طرف پھینک دیا۔ اسی دوران اسے لگا جیسے اس کی نظر اخبار میں اپنے نام سے ٹکرائی ہو۔ اس نے اخبار دوبارہ اٹھا کر لسٹ کو تسلی سے دیکھا تو اپنا نام انعام یافتگان کی فہرست میں پا کر چیخ اٹھا۔ جی ہاں وہ قرعہ اندازی میں دس لاکھ کا انعام جیت چکا تھا۔
علی پر ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت طاری تھی اور اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔
اسی گرم جوشی کی حالت میں اس نے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے بھی اپنی آنکھوں میں مارے ۔ اس بات کا یقین ہوتے ہی کہ وہ واقعتاً ہوش میں ہے اور انعامی رقم جیت چکا ہے، اس نے خوشی سے جھومنا شروع کر دیا۔ اس نے اخبار پر دئیے گئے رابطہ نمبر پر کال ملائی اور اپنی قرعہ اندازی کی تفصیلات بتائیں۔ ’’ کیا میں ابھی آپ کے دفتر آ سکتا ہوں؟‘‘ علی نے بیقراری سے پوچھا تو دوسری جانب موجود شخص نے علی کے استفسار پر اسے اپنا مکمل پتہ بتایا۔ ’’ دو نمبر چورنگی، لائن نمبر 4، بلڈنگ نمبر 3، پانچویں منزل پر
کمرہ نمبر 7میں تشریف لائیں بس وہیں ہم سے ملاقات ہو جائے گی‘‘۔ علی اخبار کا صفحہ اور ا پنا شناختی کارڈ لے کر منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔ بتائے گئے پتے پر پہنچ کر اس کی ملاقات ایک بڑے بالوں اور موٹے شیشوں والی عینک والے شخص سے ہوئی۔ اس نے ایک گرد آلود کرسی کو جلدی سے صاف کیا اور علی کو بیٹھنے کا کہا۔ اس نے علی کا شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ایک فارم اسکی جانب بڑھاتے ہوئے اسے پر کرنے کا کہا۔ مزید تفصیلات بتاتے ہوئے اس نے علی کو بتایا کہ فارم کے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی لگا کر وہ لوگ اس کا کیس اپنے ہیڈ آفس بھیجیں گے۔ منظوری کے بعد کل شام تک انعامی رقم علی کے بینک اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دی جائے گی اور اسے ٹیلی فون پر بھی آگاہ کر دیا جائے گا۔ علی نے فارم پر کرنے کے بعد اپنے شناختی کارڈ کی کاپی لگا کر فارم
اس شخص کی جانب بڑھا دیا۔ اس شخص نے کہا کہ آپ ہمارے افسر کے آنے کا انتظار کریں وہ آ کر بقیہ تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ اب علی افسر کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ افسر کمرے میں داخل ہوا۔ علی کی فائل کو بغور دیکھنے کے بعد اس نے پہلے تو علی کو مبارکباد دی اور پھر کہنے لگا دراصل جناب انعامی رقم پانے کے لیے آپ کو قرعہ اندازی کے قواعد و ضوابط کے تحت پچاس ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے۔ یہ سُن کر علی پریشان ہوگیا کیونکہ وہ بہت کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا اور پچاس ہزار جیسی بھاری رقم ادا کرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔
’’ جناب کچھ ڈسکائونٹ مل سکتا ہے؟‘‘ علی نے بے بسی سے پوچھا۔
’’ دیکھیں علی صاحب فیس کی رقم تو آپ کو پوری ادا کرنا ہوگی ورنہ انعامی رقم منسوخ بھی ہو سکتی ہے‘‘۔
علی نے گھبراتے ہوئے کل تک پچاس ہزار دینے کی حامی بھر لی اور اس سوچ میں مبتلا کہ یہ رقم وہ کیسے ادا کرے وہاں سے نکل آیا۔ رشتہ داروں نے
تو اس کی غریبی کی وجہ سے بہت عرصہ قبل ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ سو ان سے مدد کا مطالبہ کرنا بالکل بے سود تھا۔ اس کا کوئی قریبی دوست بھی نہ تھا جس سے وہ ادھار مانگ لیتا اور جو کچھ جاننے والے تھے ان کا وہ پہلے ہی مقروض تھا۔ یہی سب سوچتے ہوئے رات ہو گئی۔ کل اس نے پچاس ہزار فیس ادا کرنا تھی اور انعامی رقم ہاتھ سے جاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ وہ شدید کرب کی کیفیت میں تھا اور پھر آخر کار اس نے اپنے علاقے کے سب سے امیر آدمی کے گھر میں ڈاکہ ڈالنے کا منصوبہ بنایا۔ جب رات کا اندھیرا ہر سو چھا گیا تو وہ اس شخص کے گھر گھس گیا اور بالآخر ڈاکا ڈالنے میں کامیاب ہو گیا، وہ پچاس ہزار کی رقم حاصل کر چکا تھا۔ صبح ہوتے ہی وہ قرعہ اندازی والوں کے دفتر پہنچا اور پچاس ہزار کی رقم ان کے حوالے کردی۔
’’ بہت خوب، ہم شام تک دس لاکھ آپ کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کروا دیں گے‘‘ ۔
یہ الفاظ سننے کے بعد علی خوشی سے کھل اٹھا اس نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے واپس لوٹ آیا۔ شام ہو چکی تھی اور علی ٹیلی فون کے پاس بیٹھ کراس کی گھنٹی بجنے کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ گھڑی کی سوئیاں رات کے آٹھ بجا رہی تھیں، پر فون کی گھنٹی ابھی تک نہ بجی تھی۔ بالآخر علی نے قرعہ اندازی والوں کے دفتر کا نمبر ملایا۔ فون نمبر بِند جا رہا تھا۔ ’’ کاش میں نے قرعہ اندازی والوں سے ان کا لینڈ لائن نمبر بھی لے لیا ہوتا‘‘۔ علی افسوس کے مارے سوچ رہا تھا۔۔
رات بہت گہری ہو چکی تھی۔ علی نے سوچا صبح ہوتے ہی وہ خود ان کے دفتر جائے گا۔ یہی سوچ کر علی خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگا۔ صبح علی کی آنکھ کھلی تو گھڑی پر آٹھ بج رہے تھے۔ وہ جلدی سے بستر سے اٹھا اور تیار ہوکر بغیر ناشتہ کیے ہی گھر سے نکل گیا۔ جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کر وہ پانچویں منزل پر پہنچ گیا۔ اس وقت دس بج رہے تھے۔ جیسے ہی وہ کمرہ نمبر سات کے پاس پہنچا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ دفتر کے دروازے پر ایک بڑا سا قفل لٹک رہا تھا۔ ساتھ والے دفتر سے پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں تو ایسا کوئی دفتر ہی نہیں۔ "کبھی کبھار کچھ لوگ کچھ دیر کے لیے اس آفس میں آتے ہیں ” ساتھ والے آفس میں موجود شخص نے بتایا۔ علی شام تک اس آفس کے باہر انتظار کرتا رہا۔ اس نے اسی دوران سینکڑوں بار قرعہ اندازی والوں کا موبائل نمبر بھی ملایا لیکن وہ مسلسل بند جا رہا تھا۔ علی بوجھل دل سے واپس گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ اگلے تین دن تک وہاں جاتا رہا لیکن نہ تو آفس کا قفل کھلا اور نہ ہی موبائل نمبر آن ہوا۔ بالآخر علی کو یقین ہو گیا کے اس کے ساتھ دھوکہ ہو چکا ہے اور وہ کوئی قرعہ اندازی والے نہیں بلکہ فراڈ گروہ تھا جو معصوم اور ضرورت مند لوگوں کو بیوقوف بنا کر لوٹتا ہے۔
علی بنیادی طور پر ایک شریف انسان تھا۔ اسے ایک طرف لٹ جانے کا دکھ تھا اور دوسری جانب کسی کے گھر چوری کرنے کا غم ستائے جا رہا تھا۔ وہ شدید افسردگی میں مبتلا تھا۔ کچھ دن بعد اس کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا اور اسے گرفتار کر لیا۔ اسے تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انعامی رقم کے لالچ نے اس کی ملازمت اور آزادی دونوں اس سے چھین لی تھیں، مگر اب کف افسوس ملنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔







