Column

’’ خدا جھوٹ نہ بلوائے ‘‘

تحریر : صفدر علی حیدری
قوم کے وسیع تر ’’ مفاد ‘‘ میں ، رات بارہ بجے عدالتیں کھلیں اور حکم صادر کر دیا کہ مملکت خداداد کی ایک منتخب حکومت کو چلتا کیا جائے۔ قوم اس حرکت پر خوشی تھی نہ بڑے پیمانے پر کوئی احتجاج ریکارڈ کروا پائی ۔ ’’ سٹک ہولڈرز ‘‘ کو رپورٹس پیش کی گئی تھیں کہ مہنگائی نے عوام کو جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اور اس میں کوئی شک کہ واقعی مہنگائی تھی بھی بہت۔
کچھ لوگوں کو شاید یہ خود فہمی تھی کہ تجربہ کار لوگوں نے تحریک انصاف کی حکومت پر اسی لیے شب خون مارا ہے کہ وہ قوم کو مہنگائی کے دلدل سے نکال سکے اور اناڑی لوگوں کے ہاتھوں سے اختیار چھین کر معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکے ۔ پھر قوم نے ڈبڈباتی آنکھوں سے سارے مناظر دیکھے کہ کس طرح ان کے چہروں سے مسکراہٹیں چھینی گئیں ۔
ایسا لگتا ہے ہماری سیاسی جماعتوں کا منشور جھوٹ پر جھوٹ بولنا ہے اور اولین مقصد حکومت کرنا ۔ یہ اپوزیشن میں ہوں تو پٹرول میں دو روپے کا اضافہ ان کا سکون چھین لیتا اور انھیں آٹھ آٹھ آنسو رلاتا ہے۔ وہ اسے ملک دشمنی پر محمول کرتے ہیں۔ مگر وہی حکومت میں آتے ہیں تو تیس، تیس روپے اضافے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ الٹا وہ اس بلا جواز اضافے کی عمدہ توجہات پیش کرتے ہوئے عین ثواب قرار دیتے ہیں ۔
انصاف سے بتائیے گا کہ جب سے شہباز شریف وزیر اعظم بنے ہیں ( اور دوسری بار بنے ہیں ) وہ کون سی چیز ہے جس کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہو ( سوائے سولر پینلز کے)، اب ذرا سوچیے کہ جو لوگ مہنگائی کا رونا رو رو کر حکومت میں آئے تھے اور انہوں نے سازباز کر کے اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومت کو چلتا کیا تھا، کیا ان کا حق نہیں بنتا تھا وہ مہنگائی میں کمی کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتے۔ اور نہیں تو کم از کم وہ مہنگائی کو اس سطح سے آگے نہ بڑھنے دیتے جس سطح پر سابقہ حکومت کے دور میں تھی۔
قوم کو مہنگائی اور بد امنی کا سامنا ہے مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ حکومت کا سارا کاروبار جھوٹ پر چل رہا ہے۔ جھوٹ بھری اس طویل کہانی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، اس کی شروعات دو ہزار روپے کی خطیر مالی امداد سے ہوا۔ یہ پروگرام سوشل میڈیا صارفین کے ہاں اتنا مقبول ہوا کہ انہوں نے ہزاروں ویڈیوز بنا کر حکومت کو خراج تحسین پیش کیا۔ ایک صارف تو اس حد تک جذباتی ہوا کہ اس نے لندن جا کر میاں صاحب کا شکریہ ادا کرنے کا پلان بنا لیا۔ مگر افسوس وہ وہاں جا نہ سکا کیوں کہ اسے وہ خطیر رقم بطور امداد مل نہ سکی۔ اسے کیا کسی کو نہ مل سکی۔ کہا گیا کہ ہیلتھ کارڈ ہمارا منصوبہ تھا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ منصوبہ بند کر دیا گیا۔ صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے یہ کہہ کر قوم کے دل جیت لیے کہ تین سو یونٹ تک کے بل حکومت پاکستان اپنی جیب سے ادا کرے گی۔ اب پتہ نہیں یہ وعدہ کب وفا ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ بجلی کی قیمت بار بار بڑھائی جا رہی ہے۔ سب سے بڑا ریلیف بجلی کے بلوں میں دینے کا وعدہ کیا گیا کہ دو سو یونٹ تک کے صارفین کو چار سے سات روپے فی یونٹ رعایت کی جائے گی۔ اربوں روپے کے اس ریلیف کا اعلان کئی روز تک آدھے آدھے صفحے کے اشتہارات لگا کیا گیا۔ یہ ریلیف تین ماہ کے لیے تھا۔
دو ماہ گزر چکے ہیں تاحال کسی کو یہ ریلیف نہیں مل سکا۔ امید ہے تیسرے ماہ بھی نہیں ملے گا۔ کہا گیا کہ اس ریلیف سے نوے فیصد صارفین کو فائدہ ہو گا۔ ن لیگ کے سربراہ کئی ماہ کی خاموشی کے بعد ٹی وی پر دکھائی دئیے۔ وہ مہنگائی میں اضافے پر پریشان دکھائی دئیے۔ انہوں نے اپنا معروف جملہ ذرا دھیمے انداز میں دہرایا ’’ کیوں نکالا ‘‘، پھر قوم کو خوش خبری سنائی کہ پانچ سو یونٹ تک کے صارفین کو چودہ روپے فی یونٹ کی رعایت دی جائے گی۔ اگرچہ یہ کمی ایسی تھی کہ کسی کی ایک جیب سے سو روپے نکال کر، دس بیس روپے دوسری جیب میں ڈال دئیے جائیں۔ لوگ پھر بھی خوش ہوئے کہ چلو بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ مگر ابھی لوگ پوری طرح خوش بھی نہ ہو پائے تھے کہ ایک ٹیکسٹ میسج کے ذریعے یہ اطلاع دے گئی کہ یہ سہولت دو سو ایک سے پانچ سو یونٹ تک کے دس فیصد صارفین کے لیے ہو گی۔ گویا غریب اس سہولت کا استحقاق نہیں رکھتا۔ یہ رعایت دو ماہ کے لیے اور اس ماہ کے بلوں پر یہ ریلیف فراہم کر دیا گیا ہے۔ امید ہے اگلے ماہ بھی ملے گا۔ ریلیف دس فیصدی طبقے کو دے دیا گیا اور نوے فیصد غریب صارف بے چارہ منہ تکتا رہ گیا۔ گویا نوے فیصد صارفین کو دوسری بار دھوکا دے دیا گیا۔
پھر سولر پینلز کی مفت فراہمی کی بات کی گئی۔ چودہ اگست کو قرعہ اندازی ہونا تھی۔ تاحال پتہ نہیں چل سکا کہ کون اس سہولت کا اہل قرار پایا ہے۔ گویا ایک اور جھوٹ پکڑا گیا، اب ایک اور وعدہ کیا جا رہا کہ بے گھر افراد کو پندرہ لاکھ روپے قرض سات سال کی آسان اقساط میں وصول کیا جائے گا۔ خوش فہم لوگ پھر سے متحرک ہو گئے ہیں۔ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
کہتے ہیں کسی کا ایک جھوٹ پکڑا جائے تو اس کی ساکھ جاتی رہتی ہے۔ لوگوں کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ موجودہ تجربہ کار حکومت کے تو کئی جھوٹ پکڑے جا چکے ہیں۔ ان حالات میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قوم کے ساتھ ایک نیا چھوٹ بولا جا رہا ہے۔
ایک ڈرامے میں ایک شخص کا تکیہ کلام ہوتا ہے ’’ خدا جھوٹ نہ بلوائے‘‘، اس لاکھ سمجھایا جاتا ہے کہ خدا جھوٹ نہیں بلواتا، بندہ خود جھوٹ بولتا ہے، مگر وہ یہ کہنے سے باز نہیں آتا۔
مجھے لگتا ہے اس حکومت کا تکیہ کلام بھی یہی ہے ’’ خدا جھوٹ نہ بلوائے ‘‘۔
ہماری دعا ہے یہ قوم سے پھر کبھی جھوٹ نہ بولے بھلے کوئی اچھا کام نہ کرے کہ جھوٹ پر برائی کی جڑ ہے ۔ اور جھوٹ بولنے والا کبھی مومن نہیں ہو سکتا۔

جواب دیں

Back to top button