Column

حضرت سید پیر خواجہ مہر علی شاہ گیلانی گولڑوی

تحر یر : ضیاء الحق سرحدی
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے مختلف زمانوں میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے یہ سلسلہ حضور اکرمﷺ تک جاری رہا اور آخر میں حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر یہ سلسلہ بند کر دیا گیا کیونکہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ، صحابہ کرامؓ ، تابعین ، تبع تابعین اور اولیاء کرام مختلف اوقات میں تبلیغ اسلام کے لئے خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک مختصر سے امتحان کے لئے دنیا میں بھیجا ہے اور اسے تمام مخلوقات سے اشرف قرار د ے کر ہر چیز کو اس کے تابع کر دیا ہے اور ہر طرح کی لا متناہی اور لاتعداد نعمتوں سے نوازا ان تمام نوازشات کے ساتھ یہ حکم بھی ملا ہے کہ یہ سب کچھ عارضی ہے اہل اسلام میں صوفیائے کرام نے فروغ اسلام کے عظیم ترین فریضہ کو جہاد سمجھ کر ادا کیا اور صوفیائے عظام نے خود کو کسی ایک طبقہ یا فرقہ کے لیے مخصوص نہیں کیا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے خود کو محض دین کے لئے وقف کئے رکھا برصغیر میں اسلام کی ترویج و ترقی میں بزرگان دین کا کردار بڑا اہم ہے جن کی بدولت یہ خطہ اسلام کی لازوال دولت سے مالا مال ہوا ہے اسی وجہ سے صوفیائے کرام کا بہت زیادہ اثر ہمیں برصغیر پاک و ہندمیں نظر آتاہے انہی بزرگان دین میں پیرانِ پیر حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری، حضرت بختیار کاکی، حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر، حضرت علائوالدین احمد صابر کلیری، حضرت نظام الدین اولیائ، حضرت داتا گنج بخش، حضرت سید عثمان مرو ندی المعروف حضرت شہباز قلندر، حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی ، حضرت بری امام سرکار، حضرت بو علی قلندر پانی پتی، حضرت شاہ قبول اولیائ، حضرت پیر و مرشدی پیر سید عبدالرحمان شاہ با با چشتی صابری تمبر پورہ شریف پشاور، حضرت مولانا سید امیر شاہ گیلانی قادری المعروف مولوی جی یکہ توت شریف پشاور اور پیر و مرشدی رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق بابا تمبر پورہ شریف پشاور کی شب و روز محنتوں کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ بر صغیر کو اولیاء کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے جہاں قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ڈیرے ہیں اسلام آباد کے علاقے گولڑہ شریف کی گدی سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہو چکے ہیں محترم شخصیت قطب دوراں غوث الزمان السید خواجہ پیر مہر علی شاہ گیلانی حنفی قادری چشتی گولڑہ شریف ( اسلام آباد ) کے ایک ذیشان جیلانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ نے مجاہدہ ، مشاہدہ ، علم و عرفان اور فضل الیہی سے مذکورہ کمالات میں ایک نہایت ہی اعلی مقام حاصل کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو جمال ظاہری کے ساتھ ساتھ کمال علمی و روحانی بھی بدرجہ اتم عطا فر ما یا تھا آپ اپنے جد امجد سر چشمہ کا ملان پیران پیر حضرت غوث ِ الاعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی بغداد شریف ( عراق ) اور گوہر صد انور خواجہ خواجگان حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی سنجری اجمیری اجمیر شریف ( بھارت ) کے صحیح جانشین مظہر تھے ۔ نظریہ وحدت الوجود کی معرفت و تفہیم میں برصغیر پاک و ہندمیں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا آپ کا وجود القدس بنی نوع انسان کی ایک کثیر تعداد کو گمراہی سے بچانے اور مرزائیت سے سر زمین پاک و ہند کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنا آپ یکم رمضان المبارک 1275ھ بمطابق 14اپریل 1859ء بروز پیر بمقام گولڑہ شریف پیدا ہوئے آپ کے جد امجد ساڈھورا ( انبالہ ) سے گولڑہ میںمقیم ہوئے آپ کو چار سال کی عمر میں ہی قرآن کریم پڑھنے کے لئے خانقاہ کے درس میں اور فارسی اور اردو کے لئے مدرسہ میں داخل کیا گیا عمر اتنی کم تھی کہ خادم آپ کو اٹھا کر لے جاتا اور لے کر آتا جبکہ حافظہ کی یہ حالت تھی کہ قرآن مجید کا روزانہ سبق آپ زبانی یاد کر لیتے یعنی حفظ کرکے سنا دیا کرتے جب قرآن مجید ختم کیا تو اس وقت سارا قرآن پاک آپ کو حفظ ہو چکا تھا عربی، فارسی اور نحو کی تعلیم کے لئے بڑے پیر صاحب فضل دین شاہ صاحب نے ہزارہ کے مولوی غلام محی الدین کو مقرر فر ما یا تھا ، پندرہ سال کی عمر میں آپ ہندوستان روانہ ہوئے کانپور میں مولانا احمد حسن کانپوری کے پاس پہنچے جو حج کے لئے تیار بیٹھے تھے آپ وہاں سے مولانا لطف اللہ کے مدرسہ علی گڑھ میں داخل ہو گئی وہاں سے آپ نے
قرآن مجید قطب حدیث بعض خصوصی احادیث سندات عطا فر مائیں جو اس وقت تک برکات عالیہ میں محفوظ ہیں آپ1878ء کو وطن واپس پہنچتے ہی ہمہ تن تعلیم و تدریس میں مشغول ہو گئے حضرت سید نا پیر مہر علی شاہ سلسلہ قادریہ میں حضرت پیر سید فضل دین شاہ کے دست حق پر بیعت ہوئے تقریبا ً1878ء ہی میں آپ نے سیال شریف ( سرگودھا ) حاضر ہو کر سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی حضرت خواجہ سیالوی نے حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ کے علمی و عرفانی کمالات کے پیش نظر اپنے وصال سے کچھ عرصہ پہلے آپ کو تمام اشغال و وظائف کی اجازت نامہ بیعت و ارشاد کا منصب عطا فر ما دیا تھا آپ کو سیال شریف خاص میں بھی لوگوں کو بیعت کرنے کی اجازت فرمائی تھی 1307ھ میں آپ حجاز مقدس کے سفر پر روانہ ہوئے تھے حضرت سیدنا محی الدین جیلانی پیرانِ پیر سے آپ کی نسبت 25ویں پشت میں ملتی ہے دین اسلام کی سر بلندی اور بد عات کے خاتمہ کے لئے حضرت غوث کے بے مثال کردار نے اہل اسلام میں گویا نئی روح پھونک دی تھی آپ کا اصل نام تو عبدالقادر ہے مگر آپ کو لوگ آپ کے القابات سے ہی یاد کرتے ہیں بے شک و شبہ تمام اولیائے کرام اور علمائے دین نے آپ کو اپنا مرشد تسلیم کیا ہے حضرت پیر مہر علی شاہ کا شجرہ نسب اس طرح سے ہے سید مہر علی شاہ بن سید نذر دین شاہ بن سید غلام شاہ بن سید روشن دین شاہ بن سید عبدالرحمٰن نوری بن سید عنایت اللہ بن سید غیاث بن سید فتح اللہ بن سید اسد اللہ بن سید فخر الدین بن سید احسان بن سید درگاہی بن سید جمال علی بن سید محمد جمال بن سید ابی محمد بن سید میراں محمد کلاں بن سید میراں شاہ قادر قمیص ساڈھوروں بن سید ابی الحیات بن سید تاج الدین بن سید بہائوالدین بن سید جلال الدین بن سید دائود بن سید علی بن سید ابی صالح نصر بن سید تاج الدین ابو بکر عبد الرزاق بن سید عبد القادر جیلانی بن سید عبد اللہ جیلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید شمس الدین زکریا بن سید ابو بکر دائود بن سید موسی ثانی بن سید عبد اللہ صالح بن سید موسیٰ الجون بن سید عبد اللہ محض بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا حسن بن سیدنا علی رضوان اللہ علیھم اجمعین ۔ آپ کے متعلق پیر طریقت حضرت پیر سید فضل دین کو بہت کچھ معلوم تھا ایک مرتبہ کا ذکر ہے۔
کہ ایک روز جبکہ آپ کی عمر چار برس تھی کہ آپ عربی کا ابتدائی قاعدہ پڑھا کرتے تھے آپ کو حضرت پیر فصل دین نے شدید گرمی میں خانقاہ کی بیرونی جھاڑیوں میں استراحت کرتے ہوئے دیکھا آپ پر دھوپ پڑ رہی تھی اور زمین بھی دھوپ کی شدت سے تپ رہی تھی حضرت پیر سید فضل دین نے فوری طور پر چھتری منگوا کر آپ پر سایہ کیا اور گھر بھجوانے کے لئے ارشاد فر ما یا جب تک گھر لے جانے کا انتظام نہ ہو گیا آپ کے پیر طریقت وہی چھتری لئے کھڑے رہے اور بار بار فرماتے رہے’’ اسے معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے‘‘، ’’ ملفوظات طیبات ‘‘ اور ’’ سیف چشتیائی ‘‘ میں آپ کی اپنی زبانی ارشاد ہے کہ جب آپ کی عمر مبارک سات برس تھی تو آپ نے ایک خواب دیکھا جس میں آپ نے دیکھا کہ ’’ میرے خواب میں شیطان نے مجھے کہا کہ آئو میرے ساتھ کشتی لڑو جب میں اسے گرانے کے قریب ہو تا تو دل میں خوشی پیدا ہوتی کہ میں اس پر غالب آرہا ہوں مگر اچانک رخ بدل جاتا اور جب وہ مجھے گرا لینے کے قریب ہو تا تو تائید الٰہی سے میری زبان سے لاحول ولا قوۃ الا با اللہ العلی العظیم جاری ہو جاتا اور وہ مغلوب ہونے لگتا، تین چار بار ایسا ہی ہوا اور بالآخر اللہ تعالیٰ کی مدد سے میں اسے گرانے میں کامیاب ہو ا ‘‘۔
قارئین کرام ! یہاں پر غور کرنے کی بات ہے کہ یہ وہ عمر ہے کہ جب بچے کو کھیل کود سے ہی فرصت نہیں ملتی مگر جس شخصیت کو اللہ پاک نے کوئی فریضہ سونپنا ہو تا ہے تو اس کی باطنی صفائی اللہ کریم اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے اور اس میں کسی قسم کی غلطی کا امکان نہیں رہتا، پیر مہر علی شاہ کے صاحبزادے حضرت پیر سید غلام محی الدین گیلانی المعروف بابو جی تھے اور اس کے علاوہ حضرت پیر سید غلام معین الدین گیلانی، حضرت پیر سید شاہ، عبدالحق گیلانی مدظلہ العالیٰ ، حضرت پیر سید غلام معین الحق گیلانی مدظلہ العالیٰ اور حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر مد ظلہ العالیٰ ہیں، حضرت پیر سید مہر علی شاہ کے ان چند ہم عصر صاحبان بلند درجہ ہیں، جنہوں نے آپ سے ارادت رکھی یا ملاقات فرمائی، حضرت دیوان سید محمد سجادہ نشین پاک پتن شریف، خواجہ حسن نظامی دہلوی، حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی ، حضرت حاجی رحمت اللہ مہاجر مکی، حضرت امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت با وا فضل دین کلیامی، حضرت سلطان نور احمد دربار سلطان باہو، حضرت میاں شیر محمد شر قپوری، حضرت شاہ سلمان صاحب پھلواروی، حضرت سید غلام عباس شاہ مکھڈ شریف ( سرگودھا ) اور حضرت خواجہ محمد دین سیالوی آپ کے عرس پاک اور عیدین کے موقع پر ارادت مند ان تبر کات کی زیارت بڑے شوق اور عقیدت سے کرتے ہیں کمرہ کے برابر والے مجلس خانہ میں لائبریری ہے جس میں ہر فن کی کافی کتابیں موجود ہیں آپ کی آواز مبارک شیرین پر سوز اور باوقار تھی یوں متانت سے گفتگو فرماتے کہ ایک ایک لفظ گنا جا سکے اور یاد رہ جائے، رفتار اور چال ڈھال میں اہل علم کو وقار اور سلامت روی نظر آتی تھی اور اہل دل کوایک بانکپن اور محبوبیت مقبولان خدا کی وصال کی باطنی کیفیات تو صاحب حال لوگ ہی جان سکتے ہیں اور بیا ن کر سکتے ہیں آپ کے عرس مبارک کے موقع پر ارادت مند ملک کے کونے کونے سے زیارت کے لئے آتے ہیں آپ نے 29صفر المظفر کو انتقال فرمایا جبکہ آپ کا عرس شریف25تا 29صفر المظفر بمطابق 31اگست تا 4ستمبر کو بمقام گولڑہ شریف ( اسلام آباد) میں منا یا جاتا ہے آپ کا مزار شریف گولڑہ شریف میں مرجع خلائق ہے گولڑہ شریف میں تقریبات روایتی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جس میں عقیدت مند گلہائے عقیدت پیش کر کے روحانی کیف و سرور کے ساتھ دنیا و آخرت کی سر بلندی کی دولت سے مالا مال ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button