Column

نئے نکاح کی تیاری

تحریر : سیدہ عنبرین
ایشیاء کا ٹائیگر بنانے کا خواب نہایت خوش کن تھا، آج یہ ٹائیگر قرضوں کے بوجھ تلے اس قدر دب چکا ہے کہ اس کی افزائش رک گئی ہے، جسامت اور طاقت بلی جتنی بھی نہیں رہی، میائوں کرنے کی کوششیں کرتا ہے تو درمیان سے وائو غائب ہو جاتی ہے باقی جو کچھ بچتا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ہر طرف چوہے ناچ رہے ہیں، دو ماہر سرجن بلائے گئے تھے ایک کو ذمہ داری دی گئی کہ طاقت کے انجکشن لگائے، اصلاحات کرے اور ضائع ہونے والے وسائل کو ضائع ہونے سے بچائے۔ دوسرے سے کہا گیا کہ بلی کو ٹائیگر بنانے کے منصوبوں کو آگے بڑھائے، دونوں نے صدق دل سے اپنا کام شروع کیا ، دونوں کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ جاری سیاسی حالات اور دبائو کے ساتھ مفادات کی دھینگا مشتی کرنے والے انہیں کام نہیں کرنے دیں گے، پس دونوں نے مناسب سمجھا عزت بچائیں اور مستعفی ہو جائیں، دونوں استعفیٰ دے کر گھر جا چکے ہیں، آئندہ چند روز میں کئی تاویلیں گھڑ لی جائیں گی کہ ایک نے خرابی صحت کی بنا پر استعفیٰ دیا ہے، دوسرے بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ کسی کی صحت خراب ہے، نا کوئی بیرون ملک جانے میں دلچسپی رکھتا ہے، دونوں معتبر شخصیات عرصہ دراز سے پاکستان میں ہیں اور اس کی خدمت کرنا چاہتی ہیں۔ دونوں نظر نہ آنے والے مافیا کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔
دو اہم شخصیات کے استعفوں سے بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام آباد کا سیاسی موسم کیسا ہے اور کیا کروٹ لے سکتا ہے، اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت یا جماعتوں کے ملغوبے کی قیادت کرنے والی شخصیت باہمی مشورے سے اپنی ٹیم کا انتخاب کرتی ہے، پھر اس ٹیم کو کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، اسے کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے، ہم ان مراحل سے بہت آگے گزر گئے ہیں، لیکن ٹیم میں تبدیلیاں اسی انداز میں جاری ہیں جس طرح ہر کرکٹ میچ سے قبل پچ کو دیکھ کر ٹیم میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں، میچ جیت لیا جائے تو اطمینان ہو جاتا ہے کہ محنت رنگ لائی ہے، لیکن ہر مرتبہ تبدیلیوں کو پھینٹی پڑ جائے تو پھر مان لینا چاہئے کہ صرف غلطی کی نہیں گئی بلکہ غلطی کو دہرایا گیا ہے۔ ہمارے یہاں نئی غلطی کرنے کا فیشن نہیں ہے، ہم پرانی غلطیوں کو بار بار کرنا اپنا فرض اور ان سے لطف اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں، بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے مرکز میں تین ٹیمیں کھیل رہی ہیں، ایک ٹیم جناب وزیراعظم کی ہے، ایک ٹیم ان کی ہے جو آج وزیراعظم نہیں ہیں، ایک ٹیم ان کی ہے جو ماضی میں وزیراعظم رہے ہیں نا مستقبل میں ان کے وزیراعظم بننے کا کوئی امکان ہے، تینوں کی خواہش اور کوششیں ہے کہ جاری میچ میں اس کے کھلاڑی کھیلتے بھاگتے دوڑتے نظر آئیں، سب اکھاڑ پچھاڑ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
کچھ لوگ کچھ نہیں کر رہے، وہ صرف وزیراعظم کی مشکلات میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم کو راولپنڈی سے کوئی مشورہ آتا ہے تو رائے ونڈ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، ایسے موقعوں پر صرف آنکھیں دکھائی نہیں جاتیں بلکہ خواہش ہوتی ہے آنکھیں ہی نکال دی جائیں، اسی فرمائش پر جناب جہانزیب اور جناب قیصر بنگال پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا، جس پر انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے ہر معاملے میں اپنی مرضی چلانی ہے تو پھر مرضی اپنے بندوں کے ذریعے چلانے کا شوق پورا کر لیجئے، یہاں ہماری کوئی ضرورت نہیں، ایک نئی ضرورت کے تحت جناب صدر اور وزیراعظم متحرک نظر آتے ہیں۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کیلئے پہنچے تو بندوق کا تحفہ ساتھ لائے، مولانا نے جذبہ خیر سگالی کے تحت تحفہ قبول کیا۔ تحفے قبول کرنے چاہئیں، لوٹانے نہیں چاہئیں۔ مولانا کو پرندوں یا جنگلی جانوروں کے شکار کا کوئی شوق نہیں، البتہ وہ اسے دیوار پر لٹکا کر مہمانوں کو دکھا کر اور بتا کر خوش ہو سکتے ہیں کہ انہیں یہ بندوق صدر مملکت آصف علی زرداری نے تحفے میں دی ہے، سیاسی شکار سیاستدانوں کو پسند ہوتا ہے، لیکن اس کیلئے بندوق، پستول، تیر یا تلوار کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ شکار پیار، محبت یا ترغیب سے کیا جاتا ہے، حکومت اسی مہم پر ہے، اس کی خواہش ہے کہ مولانا کا سیاسی و زبانی ساتھ تو اسے میسر ہے، لیکن وہ ان کے مخالفین سے پیار کی پینگیں بڑھانا چھوڑ دیں۔ مولانا فضل الرحمان، صوبہ خیبر کی گورنری میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک دو عزیزوں کو سینیٹ میں دیکھنے کے متمنی ہیں، تحریک انصاف انہیں یہ دونوں چیزیں نہیں دے سکتی، انہیں گوہر مقصود حکومت سے ہی ملے گا، لیکن وہ چپ چاپ گھر بیٹھے رہتے تو کوئی ان کی طرف توجہ نہ دیتا، انہوں نے تحریک انصاف کی طرف نظر التفات ڈال تو حکومت متوجہ ہوئی۔ صدر بھی ملنے کو آئے اور وزیراعظم بھی کشاں کشاں چلے آئے، مولانا کو رام کرنے کا مقصد انہیں تحریک انصاف سے دور کرنا اور ان کے ہاتھوں مولانا کی جماعت کی سٹریٹ پاور کو استعمال ہونے سے بچانا ہے، گمان ہے اس کی قیمت ادا کر دی جائے گی۔ حکومت کے ساتھ مولانا کے فاصلے ختم اور قربتیں بڑھ جائیں گی، کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی دہلیز پر ہے۔
پاکستان میں برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میری کی رائے ونڈ سے کافی قربت ہے، برطانوی اور امریکی سفارتی شخصیات پاکستان سیاستدانوں سے گہرا رابطہ رکھتی ہیں، حکومتی ایوانوں اور اپوزیشن کے دسترخوانوں کی رونق ان کے دم سے قائم رہتی ہے، ایک نے میچ پر ہونے کے فلسفے کا خوب پرچار کیا جاتا ہے، مقصد قوم کو باور کرانا ہے کہ سائیں ہم سے خوش ہیں اور بڑے سائیں تو بہت ہی خوش ہیں۔ جین میری گزشتہ دنوں رائے ونڈ آئیں تو ان کے ہمراہ ایک بزرگ بھی تھے، جناب نواز شریف اور مریم نواز ان کے مہربان تھے، ملاقات کے دوران ان برطانوی بزرگ نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور آگے بڑھایا، مریم نواز نے ہاتھ بڑھایا تو بزرگ نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، انہوں نے یہ لفافہ جناب نواز شریف کے ہاتھ میں دیا۔ رائے ونڈ میں ریکارڈ ہونے والا یہ کلپ اہل رائے ونڈ کی مرضی سے مارکیٹ کیا گیا ہے، اسے خفیہ رکھنا مقصود ہوتا ہے تو کوئی اسے جاری نہ کرتا۔ نواز شریف کے علالت کی بہت داستانیں ہیں، ان کے قریبی حلقوں کے مطابق انہیں کئی بیماریاں ہیں، وہ لندن میں قیام کے دوران اپنی بیماریوں کا خوب خوب علاج کراتے نظر آئے۔ جین میری اور ان کے ساتھ آنے والے صاحب نہ ڈاکٹر تھے نہ کوئی رپورٹ ساتھ لائے نہ ہی یہ کسی ہسپتال داخل ہونے کے حوالے سے کوئی اپوانٹمنٹ ہے، یہ کیا ہے؟ اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ صاحب تن تنہا بھی ملنے آ سکتے ہیں، جین میری پہلے بھی ملنے آتی رہی ہیں، وہ بھی تنہا ملنے آ سکتی تھیں، انہیں کوئی خوف نہیں، نواز شریف صاحب کے لندن جانے کی خبر اس ملاقات کے بعد سے گرم ہے، سب پوچھتے ہیں تمہارے خط میں ایک نیا سلام کس کا تھا۔ نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا۔

جواب دیں

Back to top button