Column

کتاب دوستی

تحریر : فیصل رمضان اعوان
ادب کی دنیا کا ایک ادنی سا طالب علم ہوں، گزرے وقتوں میں مطالعہ کا شوق جنون کی حد تک تھا، تب گائوں میں لوگ کتے اور بٹیر پالنے کا شوق رکھتے تھے۔ اسی ماحول میں دن رات مطالعہ کا ذوق اور شوق رکھنا یقینا ایک مشکل ترین کام تھا، لیکن یقین کریں تب بھی یہ شوق جاری رکھا۔ یہ عشق بڑھتے بڑھتے ایک عادت میں سما گیا اور عادتوں سے چھٹکارا بڑا مشکل ہوتا ہے، بہت سی کتابوں کا ڈھیر سا لگا رہتا تھا، شروع شروع میں گو کہ افسانے، ناول اور ناولٹ پڑھنے پر زور رہا، بعد ازاں تاریخ کی طرف مائل ہوا، غرض کہ ان حسین دنوں کو کتاب دوستی کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا، لیکن وقت بدلا جو ہمیشہ سے بدلتا آیا ہے اور ہم گائوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے اچانک سے بڑے شہروں کی جانب چل دئیے، کیونکہ دور پسماندہ گائوں میں وسائل کی کمی نے ہمیں رزق کی تلاش کے لئے ادھر ادھر نکلنے پر مجبور کر دیا، ہمیں دربدر کر دیا۔ گائوں سے آئے ہوئے ہمارے وہ سنیئر احباب بھی شامل ہیں، جو آج اعلیٰ عہدوں پر ہیں اور مستقل طور پر بڑے شہروں کے ہوگئے ہیں۔ شاید ہی ان کو گائوں یاد ہو، اپنے گزرے بچپن کی یادوں کی پٹاری میں کچھ یادیں محفوظ پڑی ہوں، جب برسات کے موسم میں برساتی تالابوں میں دن بھر ڈبکیاں لگاتے تھے اور اپنے آپ کو ماہر تیراک سمجھتے تھے، ان تالابوں سے اپنے جھنڈ سے بچھڑی مرغابیوں کو پکڑنا دائیں ہاتھ کا کھیل تھا، لیکن شاید یہ سب بھول بھلیاں ہوگیا ہو، لیکن ہمیں یاد ہے ذرا ذرا ۔۔۔
کتاب دوستی کا ذکر چل رہا تھا، آج بھی صاحب کتاب لوگ اپنی تصانیف بھیجتے رہتے ہیں، کچھ دوست تحفے کے طور پر بھی کتابیں بھیج دیتے ہیں، لیکن ہائے وقت جس نے کبھی کسی کا انتظار نہیں کیا، ہمیں بھی اسی قطار میں لگاکر خود گزرتا جارہا ہے اور ہمیں اس قابل بھی نہ چھوڑا کہ پرانی یاریوں کی یادوں کو تازہ دم کرنے کے لئے کچھ لمحے ہی مل جائیں اور ہم کبھی کبھار مطالعہ میں گم ہو جائیں، لیکن اب فرصت کہاں، ابھی کل ہی نارووال، شکر گڑھ سے ہماری بہن عظمت عظیم نے اپنی دوسری کتاب ’’ خوابوں کی جاگیر میری‘‘، ارسال کی، لیکن اس بہن کی محبتوں کو نجانے کب فرصت کے لمحات میسر آئیں اور ہم اس کتاب کا مطالعہ کر سکیں۔
لگتا ہے ہم دیگر معاملات کی طرح کتاب دوستی میں بھی زوال کا شکار ہوچکے ہیں، اب بہت سے لوگ شاید اس زوال کا سوال اٹھا لیں کہ زوال کہاں ہے، ہر سو تو خوشحالی ہے۔
بے شک ہم زوال کا شکار نہیں ہوئے، لیکن زوال میں گھر چکے ہیں۔ وطن عزیز میں فی الوقت دو طبقے باقی بچے ہیں، حاکم اور محکوم، غریب اور امیر۔ مغل دور کے آخری طاقتور ترین حکمران اورنگ زیب عالمگیر کی بادشاہت کے بعد حالات کچھ اس طرح کے ہی بن گئے تھے، جب بہت سے لوگوں میں خوشحالی بھی تھی، عیاشی بھی تھی اور زوال بھی مسلسل دستک دے رہا تھا اور بالآخر مدراس اور بنگال کے راستوں سے انگریز داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ مغلیہ دور کی زوال پذیر بیاسی سالہ اس حکمرانی کا جائزہ لینے کے لئے اس دور کا مطالعہ ضروری ہے۔ آج ہم بھی اسی طرف چل نکلے ہیں، تب امرا اور سلطنت کے قریبی لوگوں میں خوشحالی تھی، لیکن ملک زوال کا شکار ہورہا تھا۔ غربت کے وسیع سمندر میں کچھ جزیروں پر عیاشی کا سامان ضرور ہوتا ہے اور آج ہم بھی اسی حال میں ہیں۔ ملک کی ایک بڑی آبادی غربت سے نبرد آزما ہے، حاکم طبقہ اور امرا اپنے جاہ و جلال، پروٹوکول کو خوب تر انجوائے کر رہے ہیں، محکوم طبقہ دو وقت کی روٹی کے دو لقموں کے لئے بے چین ہے۔ عزت سے جینے اور وقار سے مرنے کا درس لینا چاہتا ہے، لیکن زوال کے وقتوں میں ایسا کہاں ممکن ہے کتاب دوستی سے رشتہ بحال رکھنا اور اس زوال سے بھلا کیسے نمٹا جائے۔

جواب دیں

Back to top button