Columnمحمد مبشر انوار

چادر اور پائوں

محمد مبشر انوار (ریاض)
ریاست پاکستان کو اس سال بیرونی قرضوں کی مد میں تقریبا 24/26ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہے جبکہ پاکستانی خزانے کی حالت یہ ہے کہ اس میں موجود زرمبادلہ کے ذخائربھی دوست ممالک کی دوستی کا ثبوت ہیں وگرنہ ریاست پاکستان کا ذاتی خزانہ بھائیں بھائیںکرتا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں ڈھونڈے سے بھی کوئی دمڑی نظر نہیں آتی۔اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے،پاکستان کی کوششوں میں سرفہرست خزانے میں موجود زر ضمانت کے طور موجود ڈالرز کی ادائیگیوں کو موخر کرواناشامل ہے،جو کسی زمانے میں پاکستان کے لئے انتہائی آسان اور عام سی بات تصور ہوتی تھی۔ ریاستی اہلکار بآسانی دوست ممالک سے گفت و شنید کے ذریعہ ان ادائیگیوں کو موخر کروا لیتے تھے اور اسی بنیاد پر آئی ایم ایف یا دیگر عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو مزید قرض فراہم کر دیتے اور نظام چلتا رہتا۔ تاہم ان ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے،مسلمہ عالمی قوانین کے مطابق پاکستان اپنے اثاثہ جات کو گروی رکھواتا اور مزید قرض کی رقم وصول کر لیتالیکن کیا یہ طریقہ کار صحیح ثابت ہوا ہے یا اس میں ریاست پاکستان خسارے میں رہی ہے؟اس کا جواب موجودہ حالات میں انتہائی آسان اور واضح دکھائی دیتا ہے کہ ماضی میں اپنائی جانے والی معاشی پالیسی کے باعث آج پاکستان کی معیشت اس زبوں حالی کا شکار ہے اور پاکستان کوڑی کوڑی کا محتاج دکھائی دیتا ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا جب یہ پالیسی اپنائی جا رہی تھی،اس وقت کوئی ایسا ماہرمعیشت یا دانشور موجود نہیں تھا،جو اس معاشی پالیسیوں کی تباہ کاریوں سے متنبہ کرتا؟یا اس وقت کے حکمرانوں نے ایسی کسی تجویز کو درخور اعتناء ہی نہیں سمجھا؟بدقسمتی سے حقیقت یہی ہے کہ ہمارے کوتاہ قد حکمرانوں نے ایسی کسی تجویز پر کان نہیں دھرے اور اندھا دھند ملکی معیشت کو بیرونی قرضوں کے مرہون منت کرکے رکھ دیا۔نواز شریف کو سیاست میںلانے والوں کی ایک بڑی توجیہ یہ رہی کہ ملکی صنعت کو چلانے کے لئے ایک صنعتکار سے بہتر آپشن کون سی ہو سکتی ہے کہ وہ ملکی صنعت کو اپنے تجربہ کی بنیاد پر اپنے قدموں پر کھڑا کر پائے گا،پس منظر میں کہیں ایوب دور کی صنعت رہی تھی جسے بقول کئی ایک ماہرین کے بھٹو نے قومیانے کے بعد برباد کیا تھا۔جبکہ میاں شریف کی اتفاق فونڈری کو بھی قومیا لیا گیا تھا اور توقع یہ تھی کہ شریف فیملی برسراقتدار آ کر،ملکی صنعت میں اپنا بہترین کردار ادا کرے گی،بات یہاں تک تو سمجھ آتی ہے لیکن کیا ایک صنعتکار سے یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ ملکی معاملات کو قومی مفادات کے تحت چلانے کا اہل بھی ہے یا وہاں بھی تاجرانہ سوچ بروئے کار لاتے ہوئے، معاشی پالیسیوں کواپناتے ہوئے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے، سوچے سمجھے بغیر ملکی معیشت کو دیوالیہ پن تک لے جائیگا؟اس امر کا اظہار پہلے بھی کر چکا ہوں کہ دور آمریت میں،ریاست پاکستان کسی نہ کسی حوالے سے عالمی طاقت کی فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے،ڈالر سمیٹتی رہی،سمت کا تعین یکطرفہ رہا کہ فرنٹ لائن سٹیٹ کی حیثیت سے پاکستان کو کھلے عام ڈالر ملتے رہے،جس سے ملک میں مہنگائی کا جن بوتل میں ہی بند رہا اور ہر سو ’’ اچھا‘‘ نظر آتا رہا، جبکہ اس عرصہ سے کماحقہ فائدہ نہ اٹھایا جا سکا اور نہ صرف یہ کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے میں مجرمانہ کوتاہی برتی گئی اور نہ ہی مقامی صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی اور پاکستان کو ایک صارف منڈی کی جانب دھکیلا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف مقامی صنعت ٹھپ ہوتی چلی گئی بلکہ پاکستانی ہنر مندبھی بتدریج اس سے تائب ہوتے نظر آئے اور آج مقامی صنعت تقریبا دم توڑ چکی ہے کہ بیشتر بیرون ملک جا بسے اور کئی ایک غیر پیداواری صنعتوں میں سرمایہ کاری کر چکے۔
یہاں یہ امر بر محل ہے کہ نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں صنعتکاروں کو بہت سی رعائتیں دی تھی اور اس دور میں دھڑا دھڑ ٹیکسٹائل انڈسٹری لگنا شروع ہوئی تھی البتہ تب ٹیکسٹائل صنعت میں سرمایہ کرنے والوں کی اکثریت نے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئی اپنا کالا دھن سفید کیاجو بہرطور ملکی معیشت کے لئے بہتر تھالیکن حکومت تبدیلی کے بعد،چراغوں میں روشنی نہ رہی اور نہ ہی ٹیکسٹائل صنعت کودی جانے والی مراعات باقی رہی اور نہ ہی وہ ماحول میسر ہو رہا۔ اس کے متوازی اسی دور میں موٹر وے کا منصوبہ بھی لانچ کیا گیا،اسلام آباد تا لاہور ،جس کی لمبائی سیاسی وجوہات کے باعث تقریبا سو کلومیٹر زیادہ رکھی گئی،علاوہ ازیں اس منصوبہ کے پس منظر میں کیا کچھ ہوا، کیسے مال بنایا گیاآج سب کے سامنے عیاں ہیں ،جو نواز شریف کے صنعتی ذہن سے کہیں زیادہ ذاتی مفادات کے حصول کو ظاہر کرتا ہے۔بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں شدید لوڈ شیڈنگ کے باعث فوری طور پر بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے نجی بجلی گھروںکے منصوبے لگائے گئے تا کہ شہریوں کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائی جا سکے لیکن ان منصوبوں سے زرداری کو ’’ مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کا لقب نصیب ہوا اور درحقیقت ان نجی بجلی گھروں سے پاکستانی معیشت کا حقیقی زوال شرع ہوا۔ماہرین ان
منصوبوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں کہ پہلا حصہ 1993۔2002تک کا ہے، دوسرا حصہ 2022۔2014۔15تک کا ہے جبکہ سب سے زیادہ تباہ کن دور 2014؍15۔2018تک کا ہے کہ اس دور میں لگائے گئے بجلی گھروں نے بغیر بجلی پیدا کئے ہی اربوں روپے اینٹھ لئے ہیں اور یہ واردات ہنوز جاری ہے۔ نواز شریف کے آخری دور حکومت میں، جب وہ وزیر اعظم تھے،ن لیگ کے حواری ان بجلی گھروں کے حوالے سے انتہائی پرجوش رہے اور ہر دوسرے شہری کو نواز شریف کے اس کارنامے پر زیر کرنے کی کوششیں کرتے رہے کہ یہ میاں نواز شریف ہی ہے،جس نے ملک کو اندھیروں سے نکال کر ،ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر دئیے ہیں۔تب ان سے کہا جاتا کہ حضور ان کے معاہدوں پر بھی تھوڑا غور کر لیں کہ یہ معاہدے کیا کہہ رہے ہیں،جس پر وہ حسب عادت ،چڑھائی کرتے اور بلاجواز مین میخ نکالنے پر عزت افزائی کرتے۔ بہرطور تب بھی یہی گزارش کی جاتی کہ حضور والا ! آنے والے وقت میں یہ بجلی گھر گلے کا پھندہ بنے گے،جس پر استہزائی انداز اپناتے ہوئے تحقیر کرنے کی کوشش ہوتی یا بغض نواز کا طعنہ دیا جاتا یا محب وطنی مشکوک قرار پاتے ہوئے،بات ’’ غداری ‘‘ تک جا پہنچتی کہ اس ملک میں صرف دو طبقے ہی محب الوطن ہیں ،ایک ن لیگ اور دوسرے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے۔بہرکیف آج ہماری معاشی حالت یہ ہو چکی ہے کہ نواز شریف کے آخری دور میں لگنے والے نجی بجلی گھروں کو بغیر بجلی پیدا کئے ادائیگیوں کی رقم دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ چکی ہے اور ریاست پاکستان کی بے بسی دیکھیں کہ وہ ان معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کا اختیار تک نہیں رکھتی جبکہ حقیقت یہی ہے کہ جب تک ان معاہدوں پر ازسر نو نظرثانی نہیں ہوتی، ان کی شرائط دوبارہ طے نہیں ہوتی،بجلی پیدا کرنے سے بجلی کی قیمت کا تعین اور بجلی نہ بنانے کی ادائیگیوں کا ازسر نو تعین نہیں ہوتا، پاکستان کے معاشی حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
دوست ممالک ہماری امداد کرتے کرتے تھک چکے ہیں یا زیادہ موزوں الفاظ میں کہا جائے تو ہمارے غیر سنجیدہ رویہ سے دلبرداشتہ ہو چکے ہیں کہ ہم اپنے حالات کو سدھارنی میں سنجیدہ ہی نہیں اس لئے اب وہ برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر ہماری مدد کرنے کے لئے تیار نہیں وگرنہ سعودی عرب،یو اے ای اور چین جیسے ممالک نے کبھی بھی پاکستان کی مدد سے ہاتھ نہیں کھینچا تھا البتہ یہاں چین کے حوالے سے یہ واضح ہے کہ چین تعلقات اور مالی معاملات کے حوالے سے ہمیشہ واضح رہا ہے اور تعلقات اپنی جگہ لیکن مالی معاملات وہ سکہ رائج الوقت مادیت پرستی کے مطابق طے کرتا ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور یو اے ای سے ہمارے برادرانہ تعلقات کی نوعیت قدرے مختلف رہی لیکن وہاں بھی پس پردہ کسی نہ کسی حد تک مادیت کا عنصر رہا ہی اور امداد عوضانے کے طور پر ملتی رہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب تاجر بھی اپنی نیند سے بیدار ہو رہے ہیں کہ حکومت وقت آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خاطر تاجروں پر جو ظالمانہ ٹیکس لگا رہی ہے،اس سے کاروبار کی رہی سہی کسربھی ختم ہو جائیگی کہ آمدن نہ ہونے کے برابر اور اشرافیہ کے اللے تللوں کے لئے عوامی کی ہڈیوں سے گودا تک نچوڑا جا رہا ہے ۔اب صورت یہ ہو چکی ہے کہ سعودی عرب جیسا برادر ملک مزید قرض دینے کی بجائے ،ریکوڈیک کے شیئر خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ ان دوست ممالک کو علم ہے کہ اگر آج انہوں نے ہم سے ہمارا مال متاع لئی بغیر قرض دیا تو اس کی واپسی ممکن نہیں رہے گی کہ ہم اپنے اللے تللوں میں سب کچھ لٹانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں،کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم اپنی چادر دیکھتے،اور اس کے مطابق اپنے پیر پھیلانے کی کوشش کرتے،چادر سے زیادہ پیر پھیلانے کی کوشش میں ،ہم معاشی تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں اور ہنوز ہماری ترجیحات پاکستانی معیشت نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button