انصاف ہو گا، ضرور ہو گا

صفدر علی حیدری
جیدی ( اطہر شاہ خان ) کو کون نہیں جانتا۔ کم از کم میری عمر کا کوئی بندہ ایسا نہ ہو گا جس نے اس کو اداکاری کرتے اور دوسروں کو ہنساتے ہوئے نہ دیکھا ہو۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہر گھر میں ایک ہی ٹی وی چینل کی نشریات آتی تھیں۔ یعنی پی ٹی وی۔ وہ پی ٹی وی پر تواتر سے نظر آتے تھے۔ وہ بیک وقت اداکار ، نثر نگار ، مزاح نگار اور شاعر تھے۔ ’’ ہائے جیدی ‘‘ ان کا آخری ڈرامہ تھا ۔ آج ان کے ایک معروف ڈرامے کا ذکر کرتے ہیں، ’’ با ادب با ملاحظہ ہوشیار ‘‘، یہ ان کا لکھا ہوا ایک لازوال ڈرامہ تھا جو مجھے کبھی بھولتا۔ اس ڈرامے کو اگر آپ بھی دیکھیں تو آپ کی آنکھوں کے سامنے پوری اسلامی تاریخ گھوم جائے گی۔ مزاحیہ انداز میں لکھا گیا یہ ڈرامہ اپنے اندر گہری سنجیدگی رکھتا ہے۔ ویسے تو اس ڈرامے کے کئی ایک پہلو جان دار ہیں۔ اس وقت اس کے جس پہلو کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے وہ ہے تدوین تاریخ ( تدفین تاریخ ) ڈرامے میں دکھایا گیا ہے جعلی بادشاہ سلامت نے ایک مورخ کو قید کر لیا ہے اور اس سے اپنی مرضی کی تاریخ لکھوا رہا ہے ۔ آج کی حکومت کو دیکھیں تو اس ڈرامے کے مناظر آنکھوں کے گھوم جاتے ہیں ۔ اس ڈرامے میں بھی جو اصل حکمران تھا اسے نقلی بادشاہ نے قید میں ڈال کر اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہوتا ہے۔ وہ بادشاہ ( قاسم جلالی ) تاریخ میں خود کو زندہ رکھنا چاہتا ہے، سو وہ مورخ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کے کہنے پر تاریخ لکھے ۔ مورخ مجبوراً ایسا کرتا تو ہے مگر ساتھ ہی ساتھ مخفی طور پر وہ اصل تاریخ بھی لکھتا جاتا ہے۔
گویا ایک تاریخ ہم لکھواتے ہیں، دوسری وہ ہوتی ہے وہ جو وقت لکھتا ہے۔ جو ہم لکھواتے ہیں وہ کوڑے کا ڈھیر بن جاتی ہے اور جو وقت لکھتا ہے وہ سامنے آ کے رہتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج تاریخ کے ظالم ترین کردار ولن کی بجائے ہیرو نظر آتے۔
فرعون کو آج بھی سراہا جاتا اور موسی علیہ السلام کو ستایا جاتا۔ بنو امیہ ہو یا بنو عباس آج ان کی تحسین ہو رہی ہوتی مگر ۔۔۔ ایسا نہیں ہے، یزید آج بھی ولن ہے اور امام حسین ہیرو۔ واثق آج بھی ولن ہے اور امام احمد بن حنبل ہیرو، شامی آج بھی ولن ہیں اور امام نسائی آج بھی ہیرو ، ہم اپنی جو بھی تاریخ لکھوا لیں، سچ سامنے آ کے ہی رہتا ہے۔
ایک کتاب اور بھی لکھی جا رہی ہے، نامہ اعمال کی کتاب ، جس کے گواہ ہمارے اعضاء ہیں۔ قیامت کے دن جب میزان قائم ہو گا تو وہ کتاب ہمیں خود پڑھنی پڑے گی۔ آج ہم اپنی نیکیاں گنواتے ہیں مگر وہاں ہم زبان حال سے اپنے جرائم گنوا رہے ہوں گے۔ وہ نامہ اعمال کچھ لوگوں کو دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور کچھ لوگوں کے بائیں ہاتھ میں۔ داہنے ہاتھ والے خوش نصیب ہوں گے ( خدا کرے کہ ہم سب کا شمار داہنے ہاتھ والوں میں ہو ) ہم اس دنیا میں جو کچھ بھی کریں ۔ سیاہ کریں اور سفید لکھوائیں، تو ایسا کر سکتے ہیں مگر ہمارا لکھا ہوا یہیں رہ جائے گا۔
ڈرامے میں دکھایا گیا کہ مورخ کی بیٹی پر شہزادہ اور اس کا ماموں دونوں ریشہ ختمی ہیں۔ بات بادشاہ سلامت کے دربار تک پہنچتی ہے تو اپنے مخصوص انداز میں کہتے ہیں ’’ انصاف ہو گا ، ضرور ہو گا ‘‘ اور پھر انصاف اگلے دن یوں ظاہر ہوتا ہے کہ بادشاہ سلامت اس لڑکی کو اپنے حرم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔
ہمارے محبوب چیف جسٹس کو شاید یہ گمان تھا کہ وہ قیامت تک اس کرسی پر بیٹھیں گے۔ سو انہوں نے اپنا سارا وقت سیاسی معاملات کو بگاڑنے میں ضائع کیا۔ جیسے شعیب اختر نے ایک پورا ورلڈ کپ اس دھن میں ضائع کر دیا کہ وہ دنیا کی تیز ترین گیند پھینکے گا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوا۔ یہ دیگر بات کہ اسے ٹیم کی کوئی فکر نہ تھی۔
ہمارے چیف صاحب ایک سیاسی جماعت کو خوش کرتے رہے کہ ان کو ایکسٹینشن ملے گی مگر۔۔۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ان کی ایک ہی خواہش تھی سو ادھوری رہی۔ کاش وہ اس شوق سے باز آ جاتے۔ سپریم کورٹ کو سیاست کا اکھاڑہ نہ بناتے تو شاید ان کو اچھے لفظوں میں یاد رکھا جائے مگر وہ ایسا نہ کر پائے۔ انہیں پاکستان کے متنازعہ اور غیر مقبول ترین چیف جسٹس کے طور پر ’’ یاد ‘‘ رکھا جائے گا۔
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا بھی نہیں۔۔۔ اور
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی۔۔۔
جب جب کوئی چیف جسٹس آتا ہے تو قوم کو یقین ہوتا ہے کہ وہ انصاف کرے گا ، غریب کی بات سنے گا ، اس کے مسائل حل کرے گا مگر ۔۔۔
قوم کو افتخار چودھری سے بھی بڑی امیدیں تھیں مگر اس نے قوم کو اتنا مایوس کہ ان کی امیدیں کم از کم سطح پر جا رکیں۔
قوم کی کچھ نہ کچھ امید ابھی بھی برقرار ہے، وہ امید کرتی ہے جو نیا چیف جسٹس آئے گا اس کے دور میں انصاف ہو گا ، ضرور ہو گا ۔
خدا کرے وہ انصاف ویسا نہ ہو جو قاسم جلالی نے کیا تھا۔







