ہمہ جہت شخصیت۔۔ حاجی محمد منشاء عابد

رفیع صحرائی
آج وہ دور ہے جس میں اخلاقی قدریں کھو رہی ہیں۔ زمانے کی تیز رفتاری نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ رشتوں کا تقدس اپنا وجود کھو بیٹھا ہے۔ مادیت پرست معاشرے میں رہ کر بھائی نے بھائی کو چھوڑ دیا ہے۔ اولاد اپنے والدین سے نالاں نظر آتی ہے۔ مطلب پرستی نے تمام تعلقات اور رشتوں کو نگل لیا ہے۔ مطلب ہے تو وقتی طور پر گدھے کو بھی باپ بنانے اور مطلب نہ ہونے کی صورت میں باپ کو بھی گدھا سمجھنے کا چلن عام ہو گیا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی شخص اس معاشرے میں بے لوث عزت اور احترام کا مستحق ٹھہرے تو وہ یقیناً ولی اللہ ہی ہو گا۔ خصوصی طور پر نوازا گیا شخص ہی ہر خاص و عام کے لیے لائقِ تکریم ہو گا ورنہ یہاں تو بغیر غرض کے سلام لینا بھی وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔
حاجی محمد منشا عابد یقیناً ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے اپنی کمیونٹی اور اس سے باہر بھی بے حد عزت و توقیر پائی اور ان کا نام ہمیشہ احترام سے لیا جاتا ہے۔ آپ پیشے کے لحاظ سے معلم رہے ہیں۔ طلبہ انہیں بہترین معلم اور محکمہ بے مثال منتظم کے طور پر جانتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آپ معلم زیادہ بہتر رہے ہیں یا منتظم اچھے تھے۔ دو سال قبل اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائرڈ ہونے والے محمد منشا عابد ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت ہیں۔ آپ نے اپنی 38سالہ ملازمت کے 37سال ایک ہی ادارے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول منڈی احمد آباد میں گزار دیئے۔ بہترین معلم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بے پناہ انتظامی خوبیوں کے مالک بھی ہیں۔ ان کی یہی خصوصیات انہیں ہر سربراہ ادارہ کی آنکھ کا تارا بناتی رہی ہیں۔ آپ نے37سال کا طویل عرصہ حقیقت میں بطور منتظم اور معلم یکساں مہارت سے گزارا۔
دورانِ سروس ایک دور ایسا بھی آیا کہ سکول میں سائنس مضامین پڑھانے کے لیے معلم دستیاب نہ تھے۔ حاجی صاحب آرٹس مضامین کے ٹیچر تھے۔ تب انہوں نے چیلنج سمجھ کر میٹرک کے طلباء کو بیالوجی کا مضمون پڑھانا شروع کر دیا اور میٹرک کی اپنی پہلی ہی کلاس کو اس قدر مہارت سے یہ مضمون پڑھایا کہ ان کا رزلٹ ضلع بھر میں سب سکولوں سے بہتر رہا۔ گورنر پنجاب کی طرف سے حاجی محمد منشاء عابد کو تعریفی سرٹیفکیٹ کے علاوہ کیش پرائز سے بھی نوازا گیا جبکہ ان کے تعلیمی ادارے کو میڈل کا مستحق قرار دیا گیا۔
جب تک حاجی صاحب گورنمنٹ سروس میں رہے سکول کے انتظامی اور مالیاتی امور کے انچارج رہے۔ سرکاری رقم خرچ کرنے کے معاملے میں کنجوس مشہور تھے۔ پائی پائی کا حساب رکھتے اور مجال ہے جو ایک روپیہ بھی ناحق خرچ ہو جائے۔ ان کی ایمان داری ضرب المثل تھی۔ ایک ہی بات کہتے تھے کہ اولاد کو حرام لقمہ کھلانے سے بہتر ہے اسے بھوک برداشت کرنا سکھایا جائے۔
دیکھا گیا ہے کہ جو استاد اپنے شاگردوں کو جی جان سے محنت کرواتا اور اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرتا ہے اس کی اولاد بھی تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ جو استاد شاگردوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا اس کی اولاد نکمی اور پڑھائی میں نالائق ثابت ہوتی ہے۔ حاجی صاحب کی تمام اولاد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اس قول کو سچ ثابت کیا ہے کہ محنتی استاد کی اولاد کامیابی کے سب سے بلند پائیدان تک ضرور پہنچتی ہے۔
منڈی احمد آباد ضلع اوکاڑا کا دور دراز فاصلے پر واقع آخری شہر ہے جو دریائے ستلج کے قریب آباد ہے۔ یہاں کے گرلز اور بوائز ہائی سکولوں کو ہائر سیکنڈری سکولز کا درجہ ملا تو انٹر کلاسز کے طلباء و طالبات کو امتحان دینے کے لیے دور دراز شہروں دیپال پور اور رینالہ خورد جانا پڑتا۔ طالبات اور ان کے والدین کے لیے یہ موقع بڑی پریشانی کا ہوتا تھا۔ سخت گرمی اور دھوپ میں والدین اور بچیاں پچاس پچپن کلومیٹر کا سفر کر کے امتحانی سنٹر پہنچتے تو گرمی کی شدت سے ہلکان ہو جاتے۔ تب حاجی صاحب کا جذبہ ہمدردی جوش میں آیا۔ اپنے شہر میں انٹرمیڈیٹ کا امتحانی سنٹر بنوانے کے لیے دن رات ایک کر دیا اور طلباء و طالبات کے لیے سنٹر بنوا کر ہی دم لیا۔ سبھی حیران تھے کہ نسبتاً بڑے شہر بصیرپور اور حویلی لکھا میں بھی بوائز کے لیے سنٹر نہ بن سکے تھے حالانکہ وہاں عرصہ دراز سے بوائز کالج بھی موجود تھے۔ بظاہر یہ ناممکن کام تھا جسے حاجی صاحب نے تن تنہا ممکن کر کے دکھا دیا۔
طلبہ کی صورت میں حاجی صاحب کے لگائے ہوئے پودے آج تناور درخت بن چکے ہیں جن میں یونیورسٹیز اور کالجز کے پروفیسر حضرات، ڈاکٹرز، پاکستان اٹامک انرجی میں خدمات سرانجام دیتے سائنسدان، انجنیئرز، پولیس آفیسرز اور دیگر شعبوں میں نمایاں عہدوں پر تعینات افراد شامل ہیں۔
اساتذہ کے علاوہ شہر اور علاقے کے لوگوں کے لیے بھی حاجی محمد منشاء عابد امرت دھارا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی محکمے میں کوئی کام درپیش ہو، سب کا دھیان حاجی صاحب کی طرف ہی جاتا ہے۔ اب یہ بھی عجیب اتفاق ہوتا ہے کہ ہر محکمے یا دفتر میں ان کا کوئی نہ کوئی شاگرد نکل آتا ہے اور کام آسان ہو جاتا ہے۔
بطور منتظم حاجی صاحب ڈسپلن پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ بعض اوقات اساتذہ صاحبان ان کی سختی سے تنگ آ جاتے تھے مگر وہ ہمیشہ طالب علموں کی بہتری اور فائدے کو مقدم رکھتے تھے۔ اپنا زیادہ تر وقت انہوں نے سکول کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ چھٹی کے بعد سے لے کر شام تک سکول کی بلڈنگ کی مینٹی نیس، تزئین و آرائش اور دیگر امور انجام دیتے۔ اسی دورانیے میں سکول کا ریکارڈ بھی مین ٹین کرتے اور ضلعی حکام کی طرف سے آئی ڈاک بھی مکمل کرتے تھے۔
دو سال قبل 30اگست 2022ء کو حاجی صاحب کا 38سالہ ٹیچنگ کیریئر اختتام کو پہنچا تو سب نے ان کی فرض شناسی، کام سے لگن اور ایمانداری کی گواہی دی۔ حق تو یہ ہے کہ تعلیمی میدان میں اپنی بے پناہ خدمات سے حاجی صاحب نے اپنے فرائض ادا کرنے کا حق ادا کر دیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حاجی محمد منشاء عابد کو صحت و تندرستی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔ اللہ کرے آپ اپنا 100واں جنم دن بھی تندرست و توانا رہ کر منائیں۔





