Column

بہادر کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں

علیشبا بگٹی

یہ حقیقت ہے کہ بہادر کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ بہادر کون ہوتا ہے؟ اور بہادری کیا ہے؟
بہادری کی تعریف درد اور غم کی حالت میں ہمت رکھنے سے کی جاتی ہے۔ پرخطر حالات کے باوجود پر سکون زندگی گزارنے کی صلاحیت کو بھی بہادری کہتے ہیں۔ مشکلات کا جوانمردی سے سامنا کرنا۔ مسائل کا سمجھداری سے تجزیہ کرنا۔ برے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا۔ ڈر کے بغیر دشمن کے سامنے ڈٹ جانا۔ بہادری کہلاتا ہے۔ زندگی میں risk لینا یعنی کچھ خطرات کو مول لینا۔ اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لیے باہر نکلنا۔ مرتے دم تک کبھی بھی ہمت نہیں ہارنا بہادری ہے۔ بہادری کی مختلف اقسام ہیں۔ جیسے جسمانی بہادری میں جسمانی تکلیف و مشقت کے ساتھ ساتھ موت کے خطرہ کے باوجود جرت سے حالات کا مقابلہ کرنا۔ اور اخلاقی بہادری یہ ہے کہ کسی کی بکواس برے روئیے بیہودہ باتوں اور بداخلاقی کا اخلاق کے دائرے میں رہ کر صبر و برداشت سے سامنا کرنے کی صلاحیت کا ہونا بھی بہادری ہے۔ بہادر اس کو نہیں کہتے جو کشتی میں دوسرے کو گرا لے، بہادر وہ ہے جسے غصہ آئے تو وہ اسے روک لے۔ غصہ کے وقت پانی پینا چاہیے۔ بہادر پہلوان نہیں بلکہ بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو رکھے اور اس کو روک لے۔ بہادر وہ ہے جو خود پر قابو رکھ سکے۔
جنگ خیبر میں حضرت علیؓ ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا۔ آخر حضرت علیؓ نے اسے گرا لیا اور آپؓ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیں۔ اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ اس پر حضرت علیؓ اسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے۔ وہ یہودی سخت حیران ہوا کہ انہوں نے یہ کیا کیا؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ چنانچہ اس نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپؓ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں تم سے اللہ کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آ گیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کروں گا تو میرا قتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہو گا اللہ کے لئے نہیں ہو گا۔ پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تاکہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے۔ یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تاکہ ان کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو۔
غلطی پر معافی مانگنے کی بجائے اپنی انا پر ڈٹ جانا اور اپنی غلطی کی معافی نہ مانگنا چھوٹی سوچ کا کام ہے ۔ جس نے غلطی تسلیم کی گویا اُس نے غلطی نہیں کی۔ غلطیاں انسان سے ہی ہوتی ہیں۔ کوئی عقل کُل نہیں۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد اُس غلطی پہ ڈٹ جانا۔ نہ صرف بیوقوفی بلکہ گناہ ہے۔ کسی نے پوچھا دُنیا کا سب سے بہادر انسان کون ہے ؟ تو جواب آیا اگر کوئی اپنے کئے پر شرمندہ ہو اور جا کے معافی مانگ لے۔ وہی دُنیا کا سب سے بہادر شخص ہے۔
شاعروں صورت گروں اور افسانہ نویسوں نے بہادری کو اس انداز سے بڑھا چڑھا کر اچھالا کہ بہادری بس دوسروں کو مارنے قتل کرنے مٹانے کا نام بن کر رہ گیا۔ جتنے بھی بڑے بڑے سورما ہیرو اور شجاع و بہادر گزرے ہیں اور جن کی مدح سرائی اور قصیدہ گوئی کی جاتی ہے اس میں مارنے کے سوا اور کیا ہوتا ہے۔ جس نے جتنے زیادہ انسان مارے جتنی زیادہ تباہیاں مچائیں جتنی زیادہ آبادیاں روندیں اتنا ہی زیادہ قابل تعریف ٹھہرا۔ اگر کوئی انسان زندگی بھر نہ کسی سے لڑا ہو نہ کسی کو تھپڑ مارا ہو نہ کوئی دل آزاری کی ہو۔ وہ بزدل نکما اور بے صفت ہوتا ہے۔ دراصل یہ بہادری شجاعت اور سورمائیت بھی حکمرانیت بادشاہت اور عسکریت کا تراشا ہوا گھڑا ہوا اور تصنیف کیا ہوا وہ عظیم الشان جھوٹ ہے جس کے ستونوں پر حکم رانی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اگر یہ جھوٹ نہ ہوتا تو حکم رانوں کے لیے کوئی اپنے جیسے انسانوں سے کیسے لڑتا اور کیوں لڑتا ؟ جو جتنا زیادہ قتل و قتال کرتا ہے وہ اتنا ہی بڑا فاتح اور شجاع مانا گیا ہے بشرطیکہ فتح یاب بھی ہو۔ اگر شکست کھائے تو اس کی ساری صفات عیوب میں بدل جاتی ہیں۔
قدیم مصر میں ایک فرعون گزرا ہے اخناتون ۔۔ وہ اگرچہ بہت ساری انسانی صفات کا حامل تھا۔ لیکن مصر کی تاریخ سب سے زیادہ ناکام فرعون اسی کو قرار دیا گیا ہے کیوں کہ وہ نہ کسی سے لڑا تھا نہ کسی پر حملہ کیا تھا۔ اور اس کے دور میں اردگرد کے بادشاہوں نے مصر کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ مغلیہ دور سلطنت کا بادشاہ شاہ جہان چونکہ صلح جوئی اور تعمیری مزاج والا بادشاہ تھا اس لیے اس کو عین دور حکومت کے درمیان میں اس کے بیٹے نے معزول کر کے بارہ سال تک قیدی بنایا۔ الغرض جہاں کہیں بھی کوئی امن پسند حکمران ہوا ہے، وہ بزدل اور ناکام قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ سکندر، ہنی بال، داریوش، چنگیز، ہلاکو، تیمور اور بابر کے چہرے انسانی لہو سے سرخ کرکے حسین بنائے گئے ہیں۔ حکمرانوں کے ہوس اقتدار اور جوع الارض کے لیے یہ ضروری تھا کہ جنگ و جدل مرنے مارنے اور خون بہانے جیسی درندگی کو پرکشش بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے بیوقوف لڑاکوں کو دنیاوی معاوضوں کے ساتھ ساتھ مرنے مارنے اور جان لینے اور دینے کو شجاعت کا نام دے کر اسے اتنا پرکشش بنا دیا۔ کہ عیب ہوتے ہوئے بھی اسے صفت بلکہ اعلیٰ ترین صفت بنا دیا۔
شعر ہے کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو ِ تماشائے لبِ بام ابھی
گویا عشق اگر آتش نمرود میں کودنے سے پہلے عقل و خرد سے مشورہ کرنے میں مصروف ہو جاتا تو آتش نمرود گلزار خلیل میں تبدیل ہونے کا معجزہ نہیں دکھا سکتی۔ بلکہ عارف رومی تو کہتے ہیں کہ شیر کے بچے کو بکریوں میں چھوڑ دو۔ وہ بکری بن جائے گا۔ اس لیے کہ شیروں کی صحبت بندے کو شیر بناتی ہے۔
فروری 1799ء میں انگریزوں، نظام اور مرہٹوں کی متحدہ افواج نے تین اطراف سے میسور پر چڑھائی کی، انگریزوں نے میسور کے وزراء میر صادق، میر جعفر و دیگر کو سازش سے ساتھ ملا لیا تھا۔ ان کی غداری سے دشمن کی افواج نے سرنگا پٹم کا محاصرہ کیا۔ اس وقت سلطان انگریزوں کی شرائط مان کر اپنے آپ کو بچا سکتے تھے۔ ان کے خادم خاص راجہ خان نے جب ایسا کرنے کو کہا تو سلطان نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔
انگریز بھی چلے گئے نظام حیدر آباد کی سلطنت بھی ختم ہو گئی اور آج اس کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ مرہٹے بھی بکھر گئے۔ میر صادق میر جعفر کو لوگ آج نفرت سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا نام ایک گالی بن چکا ہے۔ لیکن شہید میسور کا نام قیامت تک زندہ رہے گا۔
شاعر کہتا ہے کہ
میرا دکھ یہ ہے کہ میں اپنی ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
بلوچوں میں بھی بہت بہادر گزرے ہیں۔ مگر نواب اکبر خان بگٹی جیسے بہادر کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ 80سال کی عمر میں مسلسل 8ماہ تک پہاڑوں میں جنرل مشرف کے بمبار جیٹ طیاروں کا مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے۔ مگر slender ہونا گوارہ نہیں کیا۔ اور بلوچ تاریخ میں ایک ہیرو بن
گئے۔ اسی طرح عمر مختار ایک ممتاز لیبیائی مزاحمتی رہنما تھے۔ جنہوں نے لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف جنگ کی۔ انہیں 1931ء میں اطالوی فوج نے گرفتار کر لیا تھا اور تقریباً 73سال کی عمر میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ مختار کو مزاحمت کی علامت اور لیبیا میں ایک قومی ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
بہادر ہیں وہ لوگ جو زخموں کی نمائش نہیں کرتے اور اپنے اندر کے شور کو سکون میں بدل دیتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button