بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل ایک بزدلانہ تفریق کی کوشش

ایم فاروق قمر
26اگست 2024ء کو نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی پر بلوچستان میں جس طرح قیامت برپا ہوئی، اس نے سب پاکستانیوں کو سوگ میں مبتلا کر دیا۔ موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ ہاشم میں دہشتگردوں، انتہا پسندوں نے بے گناہ غیر مسلح سویلینز نے کو بسوں سے اتار کر گولیاں مار دیں۔ دہشت گردوں نے اکثر مسافروں کا شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا۔ اکثر مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔ کچھ وسطی پنجاب دو بلوچستان سے تعلق رکھتے تھے۔ قتل کرنے والے دہشت گرد نہ صرف پاکستان کے دشمن ہیں بلکہ بلوچ قوم اور بلوچستان کے بھی دشمن ہیں۔ ان دہشت گردوں کے لیے سفاکی درندگی جیسے الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ ان ظالموں نے کس چیز کا بدلہ ان غریب معصوم پنجابیوں سے لیا پے جو بلوچستان میں محنت مزدوری کے لیے جاتے ہیں یا پھر مسافر ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس کی سب مذمت بھی کرتے ہیں اور پورا پاکستان سانحے پہ اداس ہے۔ کسی بھی قوم کو اس طرح چن چن کر مارنے کے لیے پیچھے ایک پوری فلاسفی ہوتی ہے تاکہ اس طرح نہ صرف قوموں بلکہ صوبوں نفرت کے درمیان نفرت کی آگ پھیلے۔ یہ دہشت گردوں کی ایک بزدلانہ کارروائی تھی جس نے معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ دراصل یہ پنجابیوں سے نفرت نہیں ملک کے اداروں سے نفرت ہے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اداروں کو پنجابی چلاتے ہیں اور پنجابی ساری پالیسیاں بناتے ہیں۔ اس ماحول میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس واقعے کی مذمت میں ہمارے پشتون اور بلوچ بھائی خود آگے آئیں، لاہور میں بسنے والے بلوچ نہیں، ملتان میں کاروبار کرنے والے پشتون نہیں راولپنڈی اسلام آباد بڑی بڑی کمپنیاں چلانے والے پشتون نہیں، وہ اگر آگے آتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں تو سمجھا یہ جائی گا کہ یہ اپنی صفائی کے لئے نکلے ہیں۔ لازم ہے کہ کوئٹہ ، بلوچستان ، پشاور یعنی پختون اور بلوچ علاقوں کے پٹھان اور بلوچ نکلیں اس واقعے پر احتجاج کریں اور اس بات کا اعلان کریں کہ وہ اپنے علاقے میں رہنے والے پنجابیوں کا تحفظ کریں گے۔۔۔ جس طرح پنجاب کے ہر شہر اور دیہات میں ان کے پشتون اور بلوچ بھائی محفوظ ہیں۔ بلوچستان میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں حکومت بہت کمزور ہے۔ سیاسی جماعتیں، وڈیروں اور سرداروں کی جاگیر ہے۔ انہوں نے کبھی عوام کو بلوچستان اور پاکستان کے حق میں باہر نکلنے کی کال نہیں دی۔ ہم مصلحتوں کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مصلحت کا شکار ہوں تو ایک عام آدمی ایسے دہشت گردوں کے واقعات کی مذمت کے لیے کیسے باہر نکل سکتا ہے؟ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اور بڑے بڑے سیاستدان منہ بند کر کے بیٹھے ہیں وہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ سے بگاڑنا نہیں چاہتے تو دوسری طرف ناراض بلوچوں سے بھی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ کروڑوں بلوچ آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، مگر انہیں قیادت کی بزدلی اور مصلحت پسندی کا سامنا ہے۔ ایک عام بلوچ پنجابیوں کو کیوں مارے گا،
کہ اپ پنجابیوں اور بلوچوں میں دشمنی چلی آ رہی ہے؟۔ کیا پنجاب سے بلوچوں کے تابوت اس طرح جاتے ہیں۔ جس طرح بلوچستان سے پنجابیوں کے آتے ہیں۔ حالانکہ پنجاب میں لاکھوں بلوچ آباد ہیں اور ایک مثالی بھائی چارے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ان ملک دشمنوں قوتوں کی سازش ہے جو ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس کی منصوبہ بندی یہ ہے وہ بلوچستان میں پنجابیوں کو پنجاب کے رہنے والوں میں وہ بلوچی افراد کو پنجاب میں نشانہ بنائیں اور جب ان کی لاشیں پہنچیں تو آزاد بلوچستان کے نعرے کو وہ لہو دیا جا سکے جو اس میں جان ڈال دے، مگر ان کی یہ سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ پنجاب کے عوام ہمیشہ چاروں صوبوں کے لوگوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات کو کسی صورت میں تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ بلوچستان میں پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے تو اس میں بلوچی عوام ملوث ہیں۔ وہ اس سازش کو سمجھتے ہیں اس لیے پنجاب میں اس رد عمل کا اظہار نہیں کرتے جو دشمن کی خواہش ہے۔ اس وقت ملک کی سیاسی جماعتیں، اعلیٰ قیادت اور بلوچستان کے سیاست دانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منظر پر آ کر اپنا کردار ادا کریں۔ بلوچستان کی پوری سیاسی قیادت کو مشترکہ پریس کانفرنس کر کے بلوچستان اور پنجاب کے عوام کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ مٹھی بھر دہشت گرد انتہا پسند اس یکجہتی کو دراڑ نہیں ڈال سکتے جو نہ صرف دونوں صوبوں کے عوام بلکہ چاروں صوبوں کے عوام میں قائم ہے۔





