ColumnQadir Khan

بلوچستان و خیبر پختونخوا میں امن و ترقی کے دشمن عناصر

 

قادر خان یوسف زئی
بلوچستان میں منظم انداز میں دہشت گردی کی نئی لہر نے چونکا دیا ۔ دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے جھتے کی شکل میں بیک وقت کئی جگہوں پر حملہ کرنا سیکیورٹی اداروں کی جانب سے مزید موثر انٹیلی جنس اور سانحے سے قبل سدباب کے لئے جامع حکمت عملی کا متقاضیہے ۔ اس امر کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ بلوچستان، جو معدنیات سے بھرپور اور اہم ترین تجارتی گزرگاہ ہے، اسے خاص طور پر ملک دشمن عناصر مخصوص قومیت کے نام نہاد ٹھیکیدار بن کر عوام کو ترقی اور پسماندگی دور کرنے سے کیوں روکنا چاہتے ہیں ، یہ ایک اہم سوال ہے اسے عوام کو سمجھنا ہوگا کہ یہاں موجود گیس، تیل، تابنے، اور سونے کے ذخائر، سی پیک کی کامیابی کا انحصار گوادر بندرگاہ سے اگر کسی کو مستقبل میں مستقل فائدہ پہنچے گا تو وہ بلوچستان کے عوام ہیہوں گے۔ جن میں صرف بلوچ ہی نہیں بلکہ تاریخی طور پر صوبے میں رہنے والی نسلی اور لسانی اکائیاںپشتون، براہوی، ہزارہ، سندھی، پنجابی، سرائیکی، اُردو بولنے والے ( مہاجرین) ،ترکمان، فارسیوان، یزیدی اور بلوچ مکرانی ( افریقی نسل کے لوگ) اور دیگر بھی شامل ہیں، جن کی روایات بلوچ قومیت سے بالکل الگ و جداگانہ ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیکیورٹی اداروں نے بلوچستان میں صوبے میں منفی پراپیگنڈوں کے خاتمے کے لئے جرات مند اقدامات بھی کئے اور اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے ساتھ ساتھ وہاں ترقیاتی کاموں اور امن کے قیام کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں ۔ اس امر سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاک فوج میں بلوچستان کے تقریباً 20ہزار نوجوانوں کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کے عوام نہ صرف افواج پاکستان پر اعتماد کرتے ہیں بلکہ وطن کے دفاع کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں۔ بدقسمتی سے، بلوچستان کے دشمن عناصر جیسے بی ایل اے، بیرونی طاقتوں جیسے ’’ را‘‘ کی مدد سے خطے میں بے امنی پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔ بی ایل اے کے حالیہ تخریبی حملے، جن میں ڈیرہ بگٹی میں گیس پائپ لائن دھماکے اور پیرا ملٹری کیمپ پر حملہ شامل ہیں، اس امر کو ثابت کر چکے ہیں کہ دشمن قوتیں بلوچستان کی امن و امان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ان تخریبی کارروائیوں میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی صلاحیت اور افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد شدت پسندوں کے ہاتھوں میں آنے والے ہتھیاروں کا استعمال پاکستان کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو بلوچستان کے محل وقوع کی اہمیت اور دشمنوں کے عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی کو مزید موثر بنانا ہوگا۔
دہشت گردوں کے لئے تین ایسے امور زیادہ معنی رکھتے ہیں جس میں وہ اپنی مذموم کارروائیوں کو بلا تعطل جاری رکھ سکے، ان میں پیسہ، ہتھیار، اور تربیت کا ملنا شامل ہے، ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ پاکستان کے پڑوسی ممالک کی سرزمین میں موجود ان دہشت گردی کرنے والے گروہوں کو کسی چیز کی کمی نہیں اور وافر طور پر غیر ملکی فنڈنگ اور پناہ گاہیں فراہم ہیں ، جو پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے میں سہولت کار بنے ہوئے ہیں ۔ ایک جانب معصوم شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کی شہادتوں پر رسمی مذمت کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنے افعال پر نظر ثانی نہیں کرتے بلکہ ببانگ دہل دہشت گردوں کی سہولت کاری کا بلواسطہ اور بلاواسطہ اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ان حملوں کے پیچھے موجود قوتوں کا مقصد صرف ملک کے قدرتی وسائل پر قبضہ نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو نقصان پہنچانا بھی ہے۔ نیز ملک میں موجود لسانی اکائیوں کے درمیان بد گمانی اور نفرت کی فضا پیدا کرنے کی ایک ایسی سازش ہے جس کا مقصد کسی بھی شہری کے لئے کسی دوسری جگہ جانا غیر محفوظ ہوجائے اور اسے اپنی جان و مال کا خطرہ لگا رہے۔ خدانخواستہ یہی کچھ بلوچستان کے عوام کے ساتھ دیگر صوبوں میں نفرت پھیلانے کے لئے بھی کیا جاسکتا ہے ، جس سے اداروں اور عوام کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گرد مذہب، زبان ، قوم و نسل کے نام پر انہیں بھڑکا نے کی کوشش کرتے رہیں گے، مختلف تھیوریاں اور نت نئے بیانیہ سامنے لائیں گے ، ایسی سیاسی جماعتوں کی چھتری کی آڑ لیں گے جن کا مقصد ہی ملک میں سیاسی عدم استحکام کو بڑھانا ہے تاکہ ان کا مذموم ایجنڈا کامیاب ہوسکے۔
تاریخ کے صفحات کو مسخ کرکے، بعض نام نہاد قوم پرست گروہوں نے ایک ایسا بیانیہ قائم کیا ہے جس کا مقصد بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام میں بیگانگی اور مظلومیت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بلوچ ، پختون عوام کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ موقف تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں نوجوان نسل میں بنیاد پرستی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ بلوچ، پشتون، براہوی، ہزارہ، سندھی، پنجابی، سرائیکی، اُردو بولنے والے ( مہاجرین)،ترکمان، فارسیوان اور بلوچ مکرانی، ہزارے وال سمیت متعدد اکائیوں میں احساس محرومی پیدا کرنے کی مختلف سازشیں جاری رہتی ہیں جنہیں ناکام بنانے کے لئے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے متعدد حکمت عملیاں اپنائی گئیں ، جن کی وجہ سے ملک دشمن عناصر کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو ان کے سیاسی ونگ کا شور شرابا ثابت کرتا ہے کہ ان روش منافقت سے بھری ہوئی ہے اور اپنے فروعی مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔
پاکستان کی تمام لسانی اکائیوں کی امنگیں اور خواہشات ہمیشہ پاکستانی تشخص کے ساتھ جڑی رہی ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے مختلف ادوار کا جائزہ لیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ان اکائیوں کے اجداد نے پاکستان کی تشکیل اور اس کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ قومی یکجہتی کو فروغ دیا اور اپنے آپ کو پاکستانی قوم کا حصہ سمجھا۔ لیکن بدقسمتی سے، کچھ عناصر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کے مقاصد واضح ہیں: وہ نوجوان نسل کو گمراہ کرکے انہیں تشدد کے راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ ماضی کو مسخ کرکے، یہ گروہ اس غلط فہمی کو جنم دیتے ہیں کہ ان کی تاریخ اور ثقافت کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ اس افسانے کو چیلنج کریں اور حقیقت کو سامنے لائیں۔ بلوچستان کے عوام نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوطی سے برقرار رکھا ہے۔ ان کی قربانیاں اور خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ بلوچ عوام کی امنگیں اور قومی تشخص ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہے ہیں، اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور فروغ دینا نہایت ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button